شوال کا چاند نظر آنے اورعید الفطر پر ملک
میں گزشتہ کئی سال سے انتشار پایا جاتا رہا ہے۔ خیبرپختونخوا سمیت قبائلی
علاقوں میں سعود ی عرب کے ساتھ عید منائی جاتی ہے۔افغانستان ، بحرین، عراق،
اردن، کویت، فلسطین ، قطر، شام، سوڈان، عرب امارات، یمن، مصر، لیبیا،یورپ،
وسط ایشیا کے تقریباً ب50ممالک میں بھی سعودی عرب کے ساتھ عید منائی جاتی
ہے۔ بنگلہ دیش اور برطانیہ کے بعض حصوں میں بھی مسلمان سعودی عرب کو ہی
فالو کیا جاتا ہے۔البتہ برطانیہ کے کچھ علاقوں میں مراکش اور جنوبی افریقہ
کے اعلانات پر عمل ہوتا ہے۔ شمالی وزیر ستان( جو عالمی میڈیا کی توجہ کا
مرکز ہے اور کسی مشترکہ یا مربوط مجوزہ فوجی آپریشن کی زد میں ہے) میں عید
الفطر منانے کے بارے میں بھی ان کے الگ ہونے کا تاثر دیا جاتا تھا۔ ملک کے
دیگرحصوں میں روئت ہلال کمیٹی کے اعلان کا انتظار کیا جاتا ہے۔ جس کا
اجلاسشروع ہونے پرلوگ انتظار کرتے ہیں۔ عوام کی آراء یہ ہے کہ ملک بھر میں
ایک عید ہو۔ اسے ایک دن منایا جائے۔ لوگ ایک چاند، ایک عید کے تصور کو
مسلمانوں میں اتحاد و یک جہتی و ہم آہنگی کا پیغام قرار دیتے ہیں۔ اس لئے
چاہتے ہیں کہ رویت ہلال کمیٹی قبائلی علاقوں کے علمائے کرام کو بھی اعتماد
میں لے۔ ان کی آراء کا بھی احترام کیا جائے۔ لیکن ایسا تب ممکن ہے جب اس کی
تیاریاں شوال کے بجائے رمضان المبارک کا چاند دیکھنے سے ہی کی جائیں۔
رواں سال پہلی بار ملک بھر میں ایک ساتھ رمضان المبارک کا چاند نظر آ گیا۔
ہم نے ایک دن روزہ رکھا۔ مولانا پوپلزئی کا اعتراض بھی ختم ہو گیا۔ رمضان
المبارک کے اختتام بالخیر کے لئے اس کا آغاز بالخیر ہونا چاہئے۔ رویت ہلال
کمیٹی کو ملک کے دیگرحصوں کی طرح سرحدی اور قبائلی علاقوں میں بھی ایسا
بندوبست کرنا چاہیئے تاکہ وہاں سے بھی معتبر و مستند شواہد موصول ہوں اور
انہیں قبول کیا جائے۔ ان ساری ناکامیوں کا سہرہ اسی کمیٹی کے سر ہے۔ وہی
چاند نظر آنے یا نہ آنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ ایک چاند اور تین تین عیدوں کی
روایت کا خاتمہ ضروری ہے۔ یہ ایسا تنازعہ ہے جس نے رویت ہلال کمیٹی کی
پوزیشن مضحکہ خیز بنا دی ہے۔ رمضان المبارک کے خاتمے کے بعد چاند رات اور
عید کے دن مسلمانوں کو حقیقی خوشی نصیب ہوتی ہے۔ چاند دیکھنے کی خوشی اور
عید تقریبات کی رونقیں منفرد مقام رکھتی ہیں۔ دور دور سے لوگ گھروں کو
لوٹتے ہیں۔ بچھڑے ملتے ہیں۔ قیدیوں کی سزائیں کم ہوتی ہیں۔ عید کی صبح عید
گاہ میں مسلمانوں کے اجتماعات ، بچوں کی عیدی ، دشمنیوں کا دوستیوں میں
بدلنا، غلطیوں سے معذرت، گھروں میں ٹولیوں کی صورت میں آنا جانا، سوئیاں
اور لذیز پکوان سے دل اور فضائیں معطر ہو جاتی ہیں۔ اور جب غریبوں اور
محتاجوں کو بھی ان خوشیوں میں شامل رکھا جائے توسونے پہ سہاگہ ۔ بلکہ
معاشرے کے محروم و پسماندہ لوگوں کو معاونت و دلجوئی کی خاص ہدایت ہے۔ احسن
طرز عمل سے ان کو بھی خوشیوں میں شامل کرنا انتہائی لازمی ہے۔ تا کہ وہ
احساس کمتری یا طنز و مزاح کی زد میں نہ آ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ فطرانہ سمیت
صدقات پر بیوی، باپ دادا، بیٹے ، پوتے کا کوئی حق نہیں۔ حضرت محمد ﷺ نے
صدقات کبھی خود قبول نہیں کئے البتہ ہدیہ قبول کیا اور اس میں دوسروں کو
شامل بھی کیا۔
عید الفطر کامیابی و فلاح کا بھی عالمگیر دن ہے۔ قرآن پاک کے نزول و تکمیل
کے حوالے سے بھی اس کی خاص اہمیت ہے۔ مسلمانوں نے قرآن کو پکڑا تو کامیاب و
کامران ہوئے، اسے چھوڑا تو زوال ان کا مقدر بنا۔ یہ دن آزاد قوموں کو مبارک
ہو، آزادی کا تحفظ بھی اہم فریضہ ہے۔کمزور اور محکوم قوموں کے لئے آزادی کی
جدوجہد میں معاونت اور دعا کی جانی چاہئے، شہدا اور معذوروں کے ورثاء ،
قیدیوں ، یتیموں، بیواؤں کو بھی یاد رکھا جانا چاہیئے۔ عید کی خوشیاں تین
دن کی ہیں۔ اس کے بعد وہی معمولات زندگی۔ اگر عید سے پہلے اور اس کے بعد کے
حالت میں کوئی نمایاں بہتری واقع ہوئی تو سمجھ لیں آپ کے روزے قبول ہو گئے
ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے توبہ قبول کر لی ہے۔ آپ کو ایک اور موقع مل گیا ہے۔ ہم
ماضی کی ظلطیاں نہیں دہرائیں گے۔ اگر کچھ نہ بدلا تو کیا سب محنت رائیگان
گئی؟یہ احتساب کا وقت ہے۔ ہماری نیت اور اعمال کی پرکھ ہو گی۔ سب کھر
اکھوٹا واضح ہو جائے گا۔
عید الفطر پر ملازمین کی جانب سے احتجاج کے جا رہے ہیں۔ انہیں وقت پر
تنخواہیں نہ مل سکیں۔ نیشنل بینک کے خلاف بھی احتجاج کئے گئے۔ عید بونس کے
حوالے سے بھی کئی اداروں کے ملازمین کے تحفظات تھے۔ متعلقہ حکام پر زور دیا
جا تا ہے کہ وہ چھوٹے ملازمین اور ان کے بچوں کی خوشیاں کا بھی خیال رکھیں۔
ملک میں خصوصی ٹرینیں اور ٹرانسپورٹ سروسز شروع کی جا تی ہیں۔ لیکن اس موقع
پر بعض ٹرانسپورٹر ز مسافروں کو لوٹنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ افسوس ہے کہ
جب رمضان المبار شروع ہوتا ہے تو ہمارے بازاروں میں ضروری اشیئاے کا یا تو
مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے یا یہ اشیاء مہنگی کر دی جاتی ہیں۔ جب کہ اس
متبرک ما ہ میں ضروری چیزوں کی قیمتیں کم ہونی چاہیئں۔ تا کہ اشیاء تمام
مسلمانوں کی پہنچ میں آ سکیں۔ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن رمضان المبار ک میں
بعض اشیاء کی قیمتیں کم کر دیتی ہے۔ اسی طرح بازاروں میں بھی اشیاء میں خود
کمی اور خصوصی چھوٹ کا رحجان دیکھنے کی تمنا رہتی ہے۔ ہم خود ہی دینی جذبے
کے تحت ایسا کر سکتے ہیں۔ مگر اﷲ کی لعنت ہو ایسی کاروباری حضرات پر جو عید
شاپنگ کے موقع پر چیزوں کی قیمتیں کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔ یہ لوگ اس موقع
کو کمائی کا موقع سمجھتے ہیں۔ عبادت اور نیکی کی راہ سے ہٹ جاتے ہیں۔ کیوں
کہ ان کی ناجائز دولت کمانے کی طمع و حرص غریبوں اور محتاجوں کی عید کو
خراب کر دیتی ہے۔ غریب کا بچہ نئے جوتے، لباس، کھلونے کے لئے ترستا ہے۔ جس
کی وجہ سے کئی غریب خود کشی جیسے گناہ کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ اﷲ ہمیں ہدایت
دے۔ تا ہم جیسے چاند ایک ہے۔ اس طرح عید بھی ایک ہی ہونی چاہیئے۔ تا کہ
مسلمان مل کر خوشیاں منائیں۔ مل کر ہم معاشرے کے نادار لوگوں کو بھی خوشیوں
میں شامل کریں۔ ہم صدقات، زکوٰۃ بر وقت ادا کریں تا کہ غریب بھی اپنے بچوں
کے لئے کچھ خرید سکے۔ وہ بھی عید پر شکم بھی کر بچوں کو کھلا سکے ۔کوڑے کے
ڈھیر سے رزق تلاش کرنے والے کم سن بچے بھی ہمارے بچے ہیں۔ ہم ان کا بھی
خیال رکھیں ۔ ورنہ ہم اﷲ کے سامنے کیسے حاضر ہوں گے اور کیا جواب دیں گے۔ |