ریکارڈ!
(Anwar Graywal, Bahawalpur)
سرگودھا کی داد خان فیملی کو ’’حسنِ
کارکردگی‘‘ ایوارڈ کون دے گا؟ اس کا فیصلہ محکمہ تعلیم نے کرنا ہے یا محکمہ
بہبود آبادی نے ! اگر ہمت کریں تو دونوں محکمے ہی اعلیٰ اور منفرد کارکردگی
کی بنا پر اس خاندان کو ایوارڈ دے سکتے ہیں۔ داد خان اور اس کی اولاد نے
دونوں محکموں کا سر ہی فخر سے بلند کردیا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود
پنجاب حکومت ہی آگے بڑھ کر اُن کو کوئی تمغہ عطا کر دے۔ یہ ریکارڈ یوں قائم
ہوا کہ سرگودھا کے مضافات میں جھل چکیاں کے مقام پر 85سالہ داد خان رہائش
پذیر ہے، اﷲ تعالیٰ نے اسے کثرتِ اولاد کی نعمت عطا کی ہے، وہ اکیس بچوں کے
والد ہیں، وہ مزید شادی کے بھی امید وار ہیں۔ ظاہر ہے وہ بزرگ ہیں اور جب
بچے اکیس ہونگے تو وہ سارے ’’بچّے‘‘ ہی نہیں ہونگے بلکہ اب تو ان میں سے
زیادہ تر بڑے ہو چکے ہوں گے۔ریکارڈ یہ بھی ہے کہ ان تمام بچوں میں سے کسی
نے کبھی کسی سکول کا منہ نہیں دیکھا۔ سکول کا منہ نہ دیکھنا اگرچہ ایک
محاورہ ہے، کام کے سلسلے میں ان بچوں میں سے کوئی سکول کے سامنے سے گزرا ہو
اور اس نے انجانے میں سکول کا منہ دیکھ لیا ہو تو کچھ کہا نہیں جا سکتا اور
نہ ہی ایسے میں سکول کا منہ دیکھنے والے پر کوئی الزام دھرا جاسکتا ہے۔
دوسرا ریکارڈ یہ بن گیا کہ داد خان کے بڑے بیٹے فریدنے بھی ہمت سے کام لیا
اور وہ بھی اپنی اولاد میں اکیس کے ہندسے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔کٹورے
پر کٹورا، بیٹا باپ سے بھی گورا۔ اب بیٹے کا کہنا ہے کہ ابھی تو اس نے والد
کا ریکارڈ برابر کیا ہے، وہ یہ ریکارڈ توڑنے کے لئے پر عزم ہے۔ عین ممکن ہے
کہ وہ ریکارڈ کو کسی بلند ترین سطح پر لے جائے کہ تیسری نسل میں سے کوئی
ایسا سورما پیدا نہ ہو جو اپنے باپ دادا کا قائم کیا ہوا ریکارڈ توڑ سکے۔
یہاں تک تو بچوں کی تعداد کا ریکارڈ تھا، یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں
ہوتا ہے، مگر اس کے بعد بھی ایک ریکارڈ ہے، وہ یہ کہ باپ کی طرح بیٹے کا
بھی کوئی بچہ کبھی سکول نہیں گیا۔ اس گھرانے کے کُل افراد کی تعداد نوے
بتائی جاتی ہے، جن میں سے کسی کو سکول جانے کی توفیق نہیں ہوئی، ضرورت
محسوس نہیں ہوئی، کسی کے لئے سکول جانے کا ماحول پیدا نہیں ہوسکا۔ یہ لوگ
کباڑ کا کام کرتے ہیں اور بچوں کے والدین کا قول ہے کہ بچے جتنے زیادہ
ہونگے اتنا ہی ان کے کاروبار کا پھیلاؤ ہوگا، اسی قدر محنت کریں گے اور
زیادہ آمدنی گھر آئے گی۔ داد خان کا یہ بھی قول ہے کہ اگرچہ بچوں نے تعلیم
حاصل نہیں کی، مگر ایک تو وہ کام سے مطمئن ہے ، دوسرا یہ کہ اس کی پوری
اولاد خاندان کا سربراہ ہونے کے ناطے اس کی بہت عزت کرتی ہے اور احترام سے
پیش آتی ہے۔ یہ خاندان تیس برس قبل افغانستان سے آیا تھا، اب پاکستانی شہری
کی حیثیت سے خوشحال زندگی گزار رہا ہے اور محکمہ بہبود آبادی کے اس سلوگن
’’کم بچے، خوشحال گھرانہ‘‘ کا منہ چڑا رہا ہے۔
یہاں ایک گھر کے افراد کی تعداد نوے ہے تو یقینا ان کے عزیز واقارب بھی
ساتھ رہتے ہونگے، یوں یہ سیکڑوں افراد پر مشتمل ایک بے ترتیب آبادی ہوگی،
جہاں پر نہ گاؤں کی طرح کا نقشہ ہوگا اور نہ کوئی کالونی کا منظر ہوگا،
یقینا اس آبادی تک کوئی معقول سڑک بھی نہیں جاتی ہوگی۔ صبح سویرے بڑے چھوٹے
کباڑ اکٹھا کرنے نکلتے ہونگے اور دوپہر یا شام تک اپنے اپنے حصے کا کاروبار
کرکے لوٹ آتے ہونگے۔ سرگودھا کوئی پسماندہ علاقوں میں شامل نہیں ہے۔ یہ تو
پٹھان لوگوں کا قصہ ہے کہ وہ محنتی قوم ہے، اور سب مل جل کر گھر کے ایک
بزرگ کی سربراہی میں کام کر رہے ہیں، ایسے مناظر تو شہروں کے اندر بھی
موجود ہیں، جہاں پر خانہ بدوشوں کی صورت میں غلیظ جھونپڑیوں میں خاندان کے
دسیوں افراد رہتے ہیں اور ان کے بچے کچرے کے ڈھیروں سے کاغذ اور پلاسٹک کی
بوتلیں چُنتے دکھائی دیتے ہیں، سکول کا منہ یہ بھی نہیں دیکھتے۔چولستان کے
دور دراز علاقوں میں پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے بہت سے سکول قائم کردیئے
ہیں، یہ داد خان فیملی تو عام علاقے میں رہتی ہے، یہاں بھی اگر فاؤنڈیشن
والے ’’نیو سکول پروگرام‘‘ کے تحت ایک سکول بنا دیں تو اس خاندان کا یہ
ریکارڈ تو ٹوٹ سکتا ہے، کہ کسی ایک بچے نے بھی سکول کا منہ نہیں دیکھا۔
شاید یوں تیسری نسل میں ہی کوئی خوشگوار تبدیلی رونما ہو سکے۔ |
|