تتلیاں اور جگنو!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
وزیراعلیٰ پنجاب میاں
شہباز شریف نے جلّو پارک میں سیکڑوں تتلیاں آزاد کیں۔ یہ کارِ خیر
انہوں نے پارک میں اپنی نوعیت کے پہلے ’بوٹنیکل گارڈن‘ کا افتتاح
کرتے ہوئے سرانجام دیا۔ یہاں ’بٹر فلائی ہاؤس‘ بنایا گیا ہے۔
افتتاح کے موقع پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ قوم کو اچھی خبریں بھی
ملنی چاہییں، معاملات کے مثبت پہلو بھی لوگوں کو دکھائے جائیں،
تاکہ ٹینشن سے نکلیں۔ انہوں نے بٹر فلائی ہاؤس میں گہری دلچسپی کا
اظہار کیا۔ یہ بات تو طے ہے کہ جس بات میں میاں صاحب دلچسپی لے لیں
اس کو منطقی انجام تک پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں، اور جس کام میں ان
کی دلچسپی گہری ہو جائے تو پھر معاملہ راتوں رات کا ہو جاتا ہے، کہ
ریکارڈ مدت میں کام تکمیل کو پہنچ جاتے ہیں۔ اب پہلا کام تو یہ
ہوگا کہ بٹر فلائی ہاؤس کی روایت سب سے پہلے لاہو رکے اہم اور بڑے
پارکس میں منتقل ہوگی، اس کے بعد وزیر اعلیٰ یہی کام کرنے کے لئے
ڈویژنل افسران یعنی کمشنرز کو احکامات دیں گے۔ اور اگلے مرحلے میں
ضلع کی سطح پر یہی ’’تتلی گھر‘‘ بنائے جائیں گے۔ یوں اس گہری
دلچسپی کا نتیجہ اگلے چند ماہ میں منظر عام پر آجائے گا۔ خاص طور
پر جن شہروں میں ہارٹیکلچرل سوسائیٹیز قائم ہیں، وہاں پر ایک آدھ
ماہ میں تتلی ہاؤس بننے شروع ہو جائیں گے۔ اگر یہی افتتاح میاں
صاحب سے کچھ عرصہ قبل کروالیا جاتا تو موجودہ بجٹ میں بھی تتلیاں
بھری جاتیں، یہی حکم شہر شہر کو جاری کر دیا جاتا، مگر کچھ روز کی
تاخیر ہوئی، مگر مایوسی کی ضرورت نہیں، خوش ذوق لوگ خاطر جمع رکھیں،
مختلف پراجیکٹس سے تتلیوں کے لئے کچھ رقم نکالنا کوئی بڑی بات نہیں۔
تتلیوں کے عام ہونے کا موسم تو آگیا، کیونکہ اب وہ سرکاری سرپرستی
میں پرورش پائیں گی، اور حکومت کی ہی حمایت میں پھلنے پھولنے کا
موقع ملے گا۔ بٹر فلائی ہاؤس میں یقینا تتلیوں کی پیدائش سے لے کر
باغ کی رونق بڑھانے تک کے تمام مراحل روبہ عمل لائے جاتے ہونگے،
پہلے ان کی نرسری تیار ہوتی ہوگی اور تب انہیں آزاد کیا جاتا ہوگا۔
جب جلّو پارک میں سیر کرنے والے خواتین وحضرات اور بچے پارک میں
آئیں گے تو تتلیوں کو وہاں پاکر ان کی خوشی کی انتہا ہو جائے گی۔
رنگ رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے پارک میں بھاگتے کھیلتے بچے بھی تتلیوں
کی طرح ہوتے ہیں، یوں تتلیوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔ مگر
یہ یاد رہے کہ اپنی قوم کے چھوٹے بڑے سپوت تتلیاں پکڑنے کے بہت
شوقین ہوتے ہیں، یہی بچے جنہیں ہم پیار سے تتلیاں ہی قرار دے دیتے
ہیں، پارک میں تتلیوں کے پیچھے بھا گ رہے ہوں گے اور تتلیاں اِن
ننھے شکاریوں سے بچنے کے لئے اِدھر اُدھر اڑانیں بھرتی دکھائی دیں
گی۔ اکثر پارکوں اور باغات وغیر ہ میں لکھا ہوتا ہے کہ ’’پھول
توڑنا منع ہے‘‘، مگر اس تحریر کر دیکھ کر پھول توڑنے سے کوئی باز
نہیں آتا۔ یا تو کسی مالی یا محافظ وغیرہ کو کھڑا دیکھ کر پھول
نہیں توڑے جاتے، یا پھر مہذب والدین اس کام سے منع کرتے ہیں اور
تیسری صورت یہ ہے کہ پھولوں والے پودوں کے گرد ایسی باڑ لگا دی
جاتی ہے، جسے عبور کرکے پھول توڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مگر تتلیوں کا
معاملہ پھولوں سے کچھ مختلف ہے، کہ پھولوں کے پودے کسی حصار میں
لائے جاسکتے ہیں، مگر اِن تتلیوں کو بہت بڑے پیمانے پر قید نہیں
کیا جاسکتا، اس لئے ان کے شکاریوں اور دشمنوں کو روکنا کوئی آسان
کام نہیں ہوگا۔
تتلیاں تو اب پنجاب بھر کے باغوں کی زینت بن ہی جائیں گی، کیونکہ
معاملہ خادم اعلیٰ تک پہنچ چکا ہے۔ اگر بوٹنیکل گارڈ ن کے افسران ،
ذمہ داران اور ماہرین ایک قدم اور اٹھا کر جگنو ؤں کو بھی بازیاب
کروانے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ ایک تاریخی کارنامہ ہوگا۔ کیونکہ
نئی نسل تو اب جگنو کے نام سے ہی واقف رہ گئی ہے، اس کا وجود کہیں
بھی دکھائی نہیں دیتا۔ لوگ شاعری میں جگنوؤں اور تتلیوں کا ذکر
پڑھتے ہیں تو حسرت سے بس جگنو کو یاد کرسکتے ہیں۔ ویسے بھی جس طرح
تتلی کو تصویر وغیرہ کے ذریعے جس طرح نمایاں کیا جاسکتا ہے اس طرح
جگنو کی تصویر کشی بھی آسان نہیں، یا یوں جانئے کہ تصویر سے جگنو
کی بھر پور عکاسی ممکن نہیں۔ خیبر پہلے تو قوم رنگ برنگی تتلیوں کی
اڑانوں سے محضوظ ہوگی، اس کی بڑھوتری اور حفاظت کی منصوبہ بندی کی
بہرحال ضرورت ہے، اس کے لئے قوم کی تربیت کی ضرورت ہوگی۔ جب ہر طرف
باغوں اور پارکوں میں تتلیاں اڑیں گی، تو دل کو بھانے کے مناظر ہوں
گے اور قوم ٹینشن کی خبروں سے نجات پا سکے گی۔ |
|