ماں تیرے بن پہلی عید
(Rasheed Ahmed Naeem, Patoki)
ماں ایک چھوٹا سا لفظ ہے جو صرف تین
حروف(م،الف، ں )سے بنتا ہے مگر وسعت کے لحاظ سے اس لفظ میں ایک کائنات
سموئی ہوئی ہے۔یہ وہ عظیم رشتہ ہے جوگھر میں نہ ہو تو گھر گھر نہیں دکھتا
بلکہ بنجر،ویران اور اجاڑ زمین نظر آتی ہے۔اس ایک لفظ کی ادایگی سے یوں
محسوس ہوتا ہے جیسے پوری کائنات سمٹ آئی ہو۔دنیا جہان کی
خوشیاں،رائنایاں،رونقیں اور خوبصورت جذبات و احساسات اس ایک لفظ کے وجود
میں چھُپے ہوئے ہیں۔خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے عطا کردہ یہ وہ عظیم رشتہ
ہے جس کی عظمت و رفعت کو بیان کرنے کے لیے ذخیرہ ِالفاظ کم پڑ جاتا ہے۔محبت
کی پیکر اس عظیم ہستی کو اپنے بچوں سے کتنا پیار ہوتا ہے ؟ دل میں کتنی
شفقت و محبت ہوتی ہے؟آج تک دنیا میں کوئی ایسا پیمانہ ایجاد ہوا ہے نہ ہو
سکے گا جو ماں جیسی شفیق ہستی کی محبت کو الفاظ میں بیان کر سکے۔ ماں کی
محبت اس شجر جیسی ہے جس کے سائے تلے بیٹھ کر ٹھنڈک و سکون کا احساس ہوتا
ہےmother like a shady tree wich burns in the scorching heat of the sun
but provides a comfort shade to others۔ماں دنیا میں رب ِکریم کی محبت کا
روپ ہے جس کی آغوش میں آتے ہی سب دُکھ درد بھول جاتے ہیں اور دنیا کے
ہنگاموں کی تھکاوٹ کا احساس تک نہیں ہوتا۔بن مانگے دعاؤں کے سلسلے کا دوسرا
نام ماں ہے ۔ماں کی دعایں ایک حصار ہے جو انسان کو ہر قسم کے دُکھ ،درد اور
پریشانی و مصیبت کے پہاڑوں سے دور رکھتا ہے کیونکہ ماں کی دعا تو رب ِ
کائنات بھی رد نہیں کرتا۔ماں کی محبت وشفقت کا کوئی نعم البدل نہیں ہے اور
جب یہ جنت روٹھ جائے ۔۔ اس شفیق ہستی کو خدا اپنے پاس بلا لے تو انسان ٹوٹ
پھوٹ جاتاہے ۔ ہر خوشی و غمی کے موقع پر بے اختیار ماں یاد آتی ہے اور
آنکھیں برسات کے بادلوں کی طرح برسنے لگتی ہیں۔ میری جنت ، میری یہ شفیق
ہستی ، میرا سکون ، میری آنکھوں کی ٹھنڈک، دعاؤں کا حصار اور یہ عظیم رشتہ
مُجھ سے تین ماہ پہلے جُدا ہو گیا میری جنت مُجھ سے چھن گئی۔ خالق و مالک
نے اس محبت کے پیکر کو اپنے پاس بلا لیا۔آج اس ماں کے بغیر ، اس عظیم ہستی
کے بغیر میری پہلی عید تھی۔۔ عید کیسے منائی ؟ یہ صرف دل ہی جانتا ہے۔ دل
نے بہت آوزیں دیں کہ ماں! آ جاؤ کہ آج عید ہے ۔ ماں! آ جاؤ مُجھے گلے لگا
لو کہ آج عید ہے۔ماں! آپ کو معلوم ہے کہ میری عادت تھی کہ میں نمازِ عید
ادا کرنے کے بعد دوڑتے ہوئے گھر آتا تھا اور آپ کے گلے لگ کر عید ملتا تھا
مگر ماں! آج گلے لگانے والا کوئی نہیں ہے ۔ماں! آج کوئی مشفق ہاتھوں سے سر
پر پیار دینے والا کوئی نہیں ہے ۔
ماں! آپ تو میر ا ماتھا چوما کرتی تھیں آج میرا ماتھا کون چومے گا؟ آج کیوں
اتنا دور ہیں مُجھ سے؟۔
میں بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے آپ کی آنکھوں کا تارا تھا ،آپ
کو زیادہ محبوب تھا۔زیادہ پیارا تھا۔ آج اپنے اس لارڈلے بیٹے سے دور ۔۔ بہت
دور کیوں ہو ؟؟؟آؤ ماں! میرے آنسوؤں کو زمین پر نہ گرنے دیں۔آپ تو میری ایک
آہ پر تڑپ جاتی تھیں مگر آج روتے ہوئے کو چُپ کروانے کیوں نہیں آ رہی ہو
؟؟؟ ماں آج تیرے بیٹے کو گھر گھر نہیں لگ رہا ہے بلکہ ویران و بنجر ریگستان
محسوس ہو رہا ہے۔ماں! آپ کی تو عادت تھی کہ عید اپنے اس چھوٹے بیٹے کے ساتھ
ہی منانی ہے ۔ آپ جس بھائی کے پاس بھی ہوتی تھیں مگر آپ کی خواہش ہوتی تھی
کہ عید صرف چھوٹے بیٹے کے پاس ہی کروں گی تو آج عید میرے ساتھ کیوں نہیں؟؟؟
ماں! آپ کو یاد ہو گا ایک بار آپ کے سب سے بڑے بیٹے اور میرے باپ جیسے
بھائی اور آپ کے پوتوں نے اصرار کرکے آپ کو عید اپنے پاس منانے پر راضی کر
لیا مگر چاند نظر آتے ہی آپ نے کہا نہیں ،نہیں میں عید اپنے بیٹے کے بغیر
نہیں کر سکتی۔ان کے بے حد اصرار کے باوجود آپکی ایک ہی خواہش تھی کہ عید
صرف اپنے چھوٹے اور لارڈلے بیٹے کے پاس ہی کروں گی اور پھر یاد ہے آپ کو کہ
میں صبح سویرے میلوں سفر طے کر کے آپ کو لے کر آیا تھا تو تب آپ کو سکون
ملا ۔ آپ نے میرا ماتھا چوما اور سر پر شفقت و محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے
ڈھیروں دعایں دی تھیں۔آج پھر چاند نظر آیا ہے ، آج بھی مساجد میں ہلالِ عید
کے اعلانات ہوئے ہیں ،آج پھر عید ہے مگر آج مُجھے اکیلا کیوں چھوڑ دیا ہے
؟؟؟ماں! آج اﷲ سے کیوں فریاد نہیں کی کہ اے خالق و مالک ! میرا بیٹا اکیلا
ہے،آج تک اس نے میرے بغیر کوئی عید نہیں منائی، مُجھے تھوڑی سی مہلت دے دے
کہ اپنے بیٹے کو ایک بار گلے لگا آؤں،میں اپنے بیٹے کے سر پر شفقت بھرا
ممتا کا ہاتھ پھیر آؤں کیونکہ میر بیٹا نمازِعید کے بعد اس کا عادی ہے، میں
اپنے بیٹے کا ماتھا چوم آؤں کیونکہ برسوں سے یہ حُسین رویت قائم ہے۔ماں!ایک
بار تو اﷲ سے منت سماجت کی ہوتی کہ اے عرش و زمیں کے مالک!میر بیٹا رو رہا
ہو گا مُجھے چُپ کرانے کے لیے جانے دے۔میرا بیٹا میرے بغیرعید پرتڑپ رہا ہو
گا مُجھے دیکھ کر اس کو سکون آ جائے گا۔ مُجھے ایک جھلک دکھا آنے دیں۔ماں!
آج عید کا دن مُجھے صدیوں کے برابر لگا۔ایک ایک گھڑی قیامت بن کر گزری۔ ماں!
میں حسب ِ روایت دوڑتا ہوا گھر آیا ۔۔۔ وہی گھر تھا ۔۔۔سب کُچھ وہی تھا اگر
کُچھ نہیں تھا تو وہ آپ کا شفیق وجود نہیں تھا ۔آپکا محبت بھرا چہرہ نہیں
دکھائی دیا۔میں برآمدے میں جہاں آپ میرے آنے سے پہلے بیٹھی ہوتی تھیں، بہت
دیر تک کھڑا رہا کہ ابھی دو ہاتھ فضا میں بلند ہوں گے مُجھے گلے لگا کر ،میری
پیشانی چوم کر ممتا کی محبت ثبت کریں گے مگر ماں! ایسا نہیں ہوا میں بوجھل
قدموں سے چلتا ہو چارپائی پر ڈھیر ہو گیا کہ شائد ماں آ جائے مگر نہیں ماں!
آپ نہیں آ ئیں۔شام ڈھل گئی۔عیدکے یادگار تاریخی لمحات غروب آفتاب کے ساتھ
رخصت ہو گئے مگرمیرے دل کی زمین پرآہوں سسکیوں اور آنسوؤں کے روپ میں برسنے
والی بارش نہ تھم سکی کیونکہ یہ دل آپ کے دو ہاتھوں کے لمس کاطلبگار تھا
اور شائد اب یہ میرے نصیب میں نہیں کہ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ عیداں تے
شبراتاں آئیاں،سارے لوکی گھراں نوں آئے،او نہیں آئے محمد بخشاء،جیھڑے آپ
ہتھیں دفنائے |
|