سیاسی ڈنگر اور جمہوریت کا راگ
(Syed Anis Bukhari, Karachi)
ہم نے سیاسی مدبرین کے بارے میں تو بہت سنا
ہے اور پڑھا بھی ہے مگر ان سیاسی مدبرین کا موجودہ حال میں دور دور تک نہیں
نام و نشان نہیں ملتا بہت سے لوگوں نے سیاسی ڈنگروں کے بارے میں بھی بہت سی
منہ شگافیاں کی ہیں۔ ہم نے ڈنگر ڈاکٹروں کے بارے میں تو سن رکھا ہے مگر یہ
سیاسی ڈنگر کیا ہوتے ہیں کافی سوچ وبچار اور تلاش و بسیار کے بعد معلوم ہوا
کہ یہ سیاسی ڈنگر پاکستا ن میں مختلف اشکال میں پائے جاتے ہیں۔ویسے تو جنگل
میں بہت سے جانور پائے جاتے ہیں مگر خاص طور پر شہروں میں بار برداری ،
گھروں کی رکھوالی اور نگرانی کیلئے کتوں سے کام لئے جاتے ہیں اور بندروں کو
نچوا کر ان سے محظوظ ہوتے ہیں۔ اسلئے ہم گدھے ، گھوڑے، کتے اور بندروں کا
ذکر کرینگے جو ہمارے یہاں کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ گدھے کے بارے میں
سنا ہے کہ اگر یہ اونچی آواز میں ہنہنائے تو منحوسیت کی علامت ہوا کرتا ہے۔
اگر گھوڑا ہنہنائے تو اسکے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نحس ہوتا ہے۔
کتے کا منہ آسمان کیطرف کرکے بھونکنا اور مختلف قسم کی آوازیں نکالنا بھی
کسی نحوست سے کم نہیں اور کہتے ہیں کہ اگر کتا آسمان کی طرف منہ کرکے
بھونکے تو یہ کسی آفت اور مصیبت کی نشاندہی کرتا ہے۔ بندر انتہائی چالاک
اور شرارتی جانور ہے اسکے بارے میں اسلامی نقطہ نظر ہے کہ جو لوگ اﷲ کی نا
فرمانی کرنے میں پیش پیش تھے انہیں سزا اور عذاب کی علامت بنا کر بندر وں
میں تبدیل کر دیا گیا۔ ڈارون کہتا ہے کہ انسان بندروں کے خاندان سے تعلق
رکھتا ہے یعنی ہر دو صورتوں میں انسان کا تعلق کہیں نہ کہیں سے بندورں سے
ملتا ہے۔ ہم ماہر حیوانات نہیں ہیں اور نہ ہی ڈنگروں کے بارے میں کچھ ذیادہ
جانتے ہیں ہاں انکی حرکات و سکنات دیکھ کر انکے بارے میں اندازہ ضرور لگا
لیتے ہیں کہ یہ انسان نما جانور اپنے اندر کون کونسی خصلتیں رکھتے ہیں۔ویسے
اگر شیر ، بکری، گیدڑ، بھیڑئے اور لومڑی کا ذکر بھی ہو جائے تو کیسا رہیگا۔
شیر ، بکری، گیدڑ لومڑی اور بھیڑیا بھی ہمارے سیاسی افق پر کافی اچھل کود
میں مصروف رہتے ہیں ۔انکے محاورے بھی ہماری زندگی میں استعاراتی طور پر
کافی استعمال میں رہتے ہیں مثلاً کتے کی دم بارہ سال نلکی میں رہی مگر
نکالنے پر وہی ٹیڑھی کی ٹیڑھی ، کتے کو گھی ہضم نہیں ہوتا، کتے کیطرح
بھونکنا یا پھر دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا،شیر بن شیر گیڈر نہ بن ،
سالا بکری ہو گیا، گیدڑ بھبھکیاں دینا، لومڑی کی طرح دم دبا کر بھاگنا،
لومڑی کیطرح عیار ہونا، بھیڑیئے کیطرح خونخوار ہونا وغیرہ وغیرہ۔ کتے کے
بارے میں کہتے ہیں کہ وہ انسان کا بہترین دوست ہوتا ہے مگر چھینا جھپٹی میں
انتہائی کمینہ ہوتا ہے۔بندر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نقل کرنے میں
انتہائی زہین ہوتا ہے اور شرارتی ہوتا ہے یا پھر بندر کیا جانے ادرک کا
سواد۔ایک بڑی دلچسپ بات یہاں بتاتا چلوں کہ جرمنی میں بھیڑیوں سے بھیڑوں کے
ریوڑ بچانے کیلئے گدھوں کی خدمات لی جا رہی ہیں کہتے ہیں کہ بھیڑوں کے ریوڑ
کی نگرانی گدھوں سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا گدھوں کی جبلت میں موقع سے فرار
ہونا شامل نہیں ہے گدھا حملہ آور کا سامنا کرتا ہے اور اسے بھگانے کیلئے
زور دار شور مچا کر اور دولتیوں کا استعمال کرکے خوفزدہ آوازیں نکالتا ہے
اور حملہ آور جانوروں کو بھگا دیتا ہے۔ بعض اوقات گدھے کو شیر کی کھال پہنا
کر اس سے جنگلی جانوروں کو ڈرانے کا کام بھی لیا جاتا ہے، ہمارے یہاں کے
بغیر دم کے شیر بھی بہت مشہور ہیں، ویسے ہمارے ملک میں گدھوں اور کتوں کا
گوشت بھی وافر مقدار میں کھلایا جا رہا ہے کہتے ہیں کہ جس جانور کا گوشت
کھایا جائے اسکی عادات و خصلات انسانوں میں بھی آجاتی ہیں لگتا ہے کہ ہمارے
سیاستدانوں کو بھی ہمارے قصابوں نے گدھوں اور کتوں کا گوشت کھلا دیا ہے جس
سے انکی عادات بھی ان جانوروں کی عادات میں تبدہل ہو چکی ہیں۔ویسے سانڈوں
کے بارے میں بھی سنا ہوگا جو اگر بپھر جائیں اور پاگل ہو جائیں تو دھاڑتے
ہیں اور ڈکارتے ہیں اوراپنی دھاڑوں اور ڈکرانے سے پورے جنگل کو سر پر اٹھا
لیتے ہیں۔ اور اگر یہ سانڈ شہر میں گھس آئیں اور مٹی کے برتنوں یا پھر کانچ
کی چوڑیوں کی دوکان میں گھس جائیں تو توڑ پھوڑ کے علاوہ اور بہت کچھ کر
جاتے ہیں۔ ان سے ڈر کر رہنا چاہئے۔ شیر بھی کیا خوب جانور ہے کہتے ہیں کہ
وہ کوشش کرتا ہے کہ شکار کیا ہوا سارا گوشت خود کھا جائے۔ اسی طرح ایک روز
جنگل کے جانوروں نے شیر سے کہا بادشاہ سلامت آپ تمام کا تمام گوشت خود ہی
کھا جاتے ہیں اور ہمارے لئے صرف چھیثھڑے اور ہڈیاں چھوڑ دیتے ہیں یہ جمہوری
دور ہے اور جمہوریت میں وسائل کی تقسیم بھی جمہوری انداز سے ہونی چاہئے۔
شیر نے سر تسلیم خم کیا اور دوسر ے روز گائے کا شکار کیا اور اسکے چار ٹکڑے
کئے اور سب کو ملا کر تقسیم کا عمل شروع کردیا اس نے ایک ٹکڑے کو اٹھا کر
ایک طرف رکھ دیا اور کہا یہ بادشاہ کی حیثیت سے اسکا حصہ ہے۔ پھر دوسرے
ٹکڑے کو اٹھایا اور کہا کہ شکاری کی حیثیت سے اسکا حصہ بنتا ہے، اسے میں
اپنے پاس رکھوں گا۔ پھر تیسرے ٹکڑے کو اٹھایا اور کہا کہ ایک عام حصہ دار
کی حیثیت سے میرے حصے میں آتا ہے لہٰذا اسمیں بھی اسکا حصہ بنتا ہے۔ چوتھے
ٹکٹرے کو اٹھا کر اسنے میدان میں رکھا اور کہا کسی کہ جرات ہے تو اسے اٹھا
لے۔ یہ ہے ہمارے یہاں کی جمہوریت اور انصاف جسکا ڈنکادنیا بھر میں بجاتے
ہوئے ہمیں شرم سے ڈوب کر مر جانا چاہئے۔
الو کے بارے میں بھی بہت مشہور ہے جاپان میں الو کو خوش بختی کی علامت سمجھ
کر گھروں میں ہمارے یہاں کیطرح طوطوں جیسے پالا جاتا ہے کہتے ہیں کہ طوطا
طوطا چشم ہوتا ہے اور الو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ منحوس پرندہے جس
شاخ پر بیٹھتا ہے وہ اجاڑ دیتا ہے ’’ ہر شاخ پا الو بیٹھا ہے انجام گلستاں
کیا ہوگا‘‘ الو کے بارے میں سنا ہے کہ وہ ساری رات جاگ کر گزارتا ہے۔ طوطے
کے بارے میں سنا ہے کہ وہ بہت رٹو ہوتا ہے اسکا مالک جو اسے رٹوا دیے وہ
اسے ہر وقت گردانتا رہتا ہے۔ الو بیچارہ احتجاج کرتے ہوئے آج بھی کہہ رہا
ہے کہ گلستان کو تو خود بیچ کھایا اور نام میرا بدنام کر دیا یہ کہاں کا
انصاف ہے۔ جانوروں کے بارے میں جارج اول نے ایک مشہور ناول لکھا تھا ۔ اس
ناول میں جانوروں نے ظالم اور نا اہل مالک سے جان چھڑوائی اور انسانوں سے
قطع تعلق کر لیا تھا۔ اور ایک نعرہ بنایا جسکا مطلب بھی ان جانوروں کو نہیں
آتا تھا وہ یہ تھا کہ چار ٹانگیں اچھی ہیں دو ٹانگیں بری ہیں۔ جانوروں پر
مشتمل اس ناول میں نپولین کو سور سے تشبیح دیتے ہوئے جارج اول کے اس ناول
میں انہی جانوروں میں سے نپولین اور اسکے ساتھیوں نے حکومت سازی کا عمل
شروع کیا وہ وہاں کے حکمران بن بیٹھے۔ نپولین اس ناول میں سور کے روپ میں
اکثر یہ باور کروانے کی کوشش میں رہتا تھا کہ وہ جنگل کے جانوروں کی
زندگیاں بنانے کی تگ و دو میں مصروف رہتا ہے ۔ اور اسنے جنگل کے جانوروں کو
ایک ہی نعرہ یاد کروایا کہ چار ٹانگیں اچھی ہیں دو ٹانگیں عمدہ ہیں۔ اب
جارج اول کا ناول پڑھنے کی سکت اس بھوکی ننگی قوم میں کہاں فی الحال ملکہ
برطانیہ کی اس مملکت خدا داد پاکستان میں اسکے کالے پیلے اور سرخ سپید
منیجروں کے روپ میں ا شرافیہ رعایا میں بسنے والے کیڑے مکوڑوں کو جمہوریت
کا راگ الاپنے کا درس دیتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور اسکی آڑ میں لوٹ مار کا
بازار گرم ہے۔جمہوریت زندہ باد ۔ |
|