اس کا اصل نام ممتاز تھا‘ ممو کپتی سسرالی
نہیں‘ اس کے میکے کا دیا ہوا نام تھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اطراف میں‘ اسی
نام سے معروف تھی۔ یہ نام اصلی سا ہو گیا تھا۔ اصل نام محض کاغذوں کی زینت
ہو کر رہ گیا تھا۔ یہ تو معلوم نہیں کہ یہ نام کس نے دیا‘ لیکن ایسا چلا کہ
سب اس کے اصل نام کو ہی بھول گیے۔ جس کے پیچھے پڑ جاتی‘ اسے جان چھڑانی
مشکل ہو جاتی۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی کوئی ہاں کی نہ کرتا‘ بل کہ جان چھڑنے
میں ہی عافیت سمجھتا۔ ساس نندیں تو ایک طرف‘ چودھری باغ علی کا علاقے میں
وجکرہ اور بڑا ٹوہر ٹپا تھا‘ وہ بھی ممو سے کنی کتراتا تھا۔ نادانی کے پیار
کی سزا بھگت رہا تھا۔ جو بھی سہی‘ اسے ممو کے پیار اور کردار پر پورا پورا
بھروسہ تھا۔ اس کا کہنا تھا:
ممو میری بیوی ہے‘میں اسے جانتا ہوں‘ وہ زبان کی تلخ اور کوتھری ضرور ہے‘
لیکن دل کی بری نہیں۔
زمانہ بھی کتنا منافق ہے‘ منہ پر سچ کہنے سے کتراتا ہے۔ بہنیں ممو کی اصلیت
سے آگاہ تھیں لیکن وہ بھی چپ کے روزے میں رہتیں۔ کیا کرتیں‘ وہ جانتی تھیں
کہ ان کا بھائی‘ بیوی کی ہی مانے گا اور وہ منہ کی سلام دعا سے بھی جائیں
گی۔ اپنوں کی یہ حالت تھی تو کسی غیر کو کیا پڑی کہ آ بیل مجھے مار کی راہ
لیتا۔ اس کی بیوی ہے‘ وہ جانے اور اس کا کام جانے۔
چودھری باغ علی‘ بنیادی طور پر شریف آدمی تھا۔ گھر میں سادہ لباس پہنتا‘ جب
پرے پنچایت مٰیں آتا تو پورے بن ٹھن کے ساتھ آتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بات
اور قول کا بڑا پکا اور سچا تھا۔ جو کہتا یا وعدہ کرتا‘ ہر حال میں پورا
کرتا۔ ایک طرف پوری دنیا‘ یہاں تک کہ ممو بھی ہوتی‘ چودھری اپنی بات سے
رائی بھر بھی ادھر ادھر نہ ہوتا، یہ ہی وجہ تھی کہ لوگ‘ دل سے اسے اپنا
چودھری تسلیم کرتے تھے۔ زندگی کے ہر معاملے میں‘ اس کا اعتبار کرتے اور اس
کا ساتھ دیتے۔ دکھ سکھ میں‘ اس کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ بہنیں اسے رن مرید
سمجھتی تھیں حالاں کہ اصولوں پر سمجھوتا کرتا ہی نا تھا۔ جو کرتا راہ خدا
کرتا۔
بھلوں کے ساتھ آزمائش ہمیشہ کھڑی رہتی ہے۔ ممو ہر معاملے میں فٹ فاٹ تھی۔
گوشت کی دو دو پلیٹں ڈکار جاتی۔ تیز تیز چلتی‘ فٹا فٹ بولتی بل کہ چلاتی‘
مجال ہے‘ جو کبھی دم آیا ہو۔ دیکھنے میں چنگی بھلی تھی۔ عجیب بات ہے‘ دسمبر
کی سردیوں میں بھی‘ اسے سخت گرمی لگتی تھی۔ چودھری نے کوئی حکیم‘ ڈاکٹر‘
پیر فقیر نہ چھوڑا‘ لیکن کہیں سے فیض نہ ملا۔ اب تو وہ مایوس سا ہو گیا
تھا۔
پرائمری سکول کے ساتھ ہی‘ ایک یک کمرہ مسجد تھی۔ مسجد کے پچھواڑے میں‘ ایک
شخص پڑا رہتا تھا۔ لوگ اس کی جانب کوئی دھیان نہیں دیتے تھے۔ پتا نہیں صبح
و شام‘ اسے روٹی کون دے جاتا تھا۔ ایک کتا اس کے پاس آتا رہتا تھا۔ کچھ دیر
بیٹھتا اور چلا جاتا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کتا‘ اس کے لیے روٹی لاتا
ہے۔ کتے کے منہ کی روٹی کھاتا۔ لوگوں کی نفرت کے لیے یہ انکشاف کافی تھا۔
لوگ شاید اسے گاؤں سے نکال ہی دیتے‘ لیکن چودھری نے ایسا کرنے سے سختی سے
منع کر دیا تھا۔ لوگوں نے اسے کبھی بولتے یا کسی سے بات کرتے نہیں دیکھا
تھا۔ جب کبھی موڈ میں ہوتا تو کہتا
واہ مالکا توں توں ای ایں یعنی واہ مالک تم تم ہی ہو
ایک دن چاروں طرف سے مایوس چودھری‘ اس کے پاس چلا گیا۔ چودھری حیران ہوا کہ
لوگ کہتے ہیں‘ اس سے بدبو آتی ہے۔ اسے بدبو کی بجائے‘ اس سے ایسی خوش بو
آئی کہ اس کے تن بدن میں عجیب طرح کی تازگی اور سرشاری گردش کرنے لگی۔ وہ
سب کچھ بھول گیا۔ دیر تک ٰیوں ہی اس کے پاس بیٹھا رہا۔ دونوں طرف گہری
خاموشی کا عالم طاری رہا۔ پھر اس نے اشارے سے اٹھ جانے کو کہا اور وہ اٹھ
کر چلا گیا۔ وہ اپنا تجربہ اوروں سے بھی شیئر کرنا چاہتا تھا‘ لیکن اس نے
سوچا ایک فقیر کا بھید ہے‘ جسے کھولنے کا اسے کوئی حق نہیں۔
پھر وہ وہاں آنے جانے لگا اور خوش بو سے حظ لینے لگا۔ کئی دن یہ سلسلہ چلتا
رہا۔ وہاں جا کر‘ وہ سب کچھ بھول جاتا۔ اسے ان جانا سا آنند ملتا۔ ایک دن‘
تھوڑی دیر ہی بیٹھا ہو گا‘ کہ وہ بندہءخدا بولا: رزق حرام‘ بد نیتی‘ مالک
سے غداری‘ ناشکری اور تکبر سے بھرے جسم میں زمین پر ہی جہنم رکھ دی جاتی
ہے۔ یہ مسلہ ممو کا ہی نہیں‘ سب کا ہے۔“ اس کے بعد اس نے چودھری کو وہاٰں
سے اٹھا دیا اور ایک لمحہ بھی مزید بیٹھنے کی اجازت نہ دی۔
وہ سارے رستے غور کرتا رہا‘ اس درویش کا کہا غلط نہ تھا۔ چودھری کی بڑے بڑے
چودھریوں سے ملاقات رہتی تھی۔ دو منٹ کے لیے یہ چودھری‘ اے سی والے کمرے سے
باہر آ جاتے تو ان کی جان لبوں پر آ جاتی۔ وہ سارے پرلے درجے کے حرام خور‘
بد نیت‘ ناشکرے اور متکبر تھے۔
اصل گھتی تو ممو کی تھی۔ چودھری حرام رزق کھانا تو دور کی بات‘ اس پر
تھوکنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔ اسی طرح باقی چاروں باتیں بھی‘ حیرت سے
خالی نہ تھیں۔ اسے یقین تھا کہ وہ درویش غلط بھی نہیں کہہ سکتا۔ کہیں
ناکہیًں گڑبڑ ضرور ہے۔ پھر اس نے حقیقت کھوجنے کا ارادہ کر لیا۔ اسے دکھ ہو
رہا تھا کہ وہ ممو پر اندھا اعتماد کرتا رہا۔ وہ اس کے اعتماد کو بڑی
بیدردی سے پائمال کرتی رہی۔ غصہ کیا آنا تھا‘ دکھ کا ہمالہ اس پر آن گرا
تھا۔
اس نے پوری دیانت کے ساتھ‘ پانچوں امور کی تہہ تک جانے کی کوشش کی۔ وہ نہیں
چاہتا تھا کہ اس سے غصہ کے عالم میں کچھ غلط سلط ہو جائے۔
ممو متکبر تو شروع ہی سے تھی۔ اسے اپنے خوب صورت ہونے کا احساس‘ کچھ زیادہ
ہی تھا۔ خیر اب تو وہ چودھرین تھی‘ گویا
ایک کریلا اوپر سے نیم چڑھا۔
کھوج کی تکمیل کے بعد‘ اسے مزید دکھی ہونا پڑا‘ جسے وہ سیتا و مریم کی طرح
پوتر سجھ رہا تھا‘ وہ گندگی کے ڈھیر سے زیادہ نہ تھی۔ اب اسے سجھ آیا‘ کہ
وہ اپنے کپتےپن سے‘ اپنے کرتوتوں پر پردے ڈالنا چاہتی تھی۔ اردگرد کے لوگ
اس کے اس کپتےپن سے ڈر کر‘ منہ پر چپ کے تالے ڈالے رکھیں۔ وہ اپنے اس ہنر
کی بدولت‘ سب کچھ کرکے بھی‘ عموم و خصوص میں بی حجن بنی ہوئی تھی۔
چور کو پکڑ کر بھی‘ چودھری اسے چور نہیں کہہ سکتا تھا۔ بچے اس کے پاؤں کی
زنجیر بنے ہوئے تھے۔ عین ممکن ہے‘ ان میں سے کوئی بچہ بھی اس کا نہ ہو۔ اس
نے انہیں بڑے لاڈ پیار سے پالا تھا‘ اب وہ انہیں چھوڑ بھی نہیں سکتا تھا۔
اسے ان سے بڑا پیار تھا۔ اس نے بڑا سوچا کہ کوئی حل ڈھونڈ نکالے‘ لیکن سارے
رستے جیسے بند ہو گئے تھے۔
جب سوچ سوچ کر تھک گیا اور کوئی حل تلاش نہ سکا تو اس درویش کی جانب چل
دیا۔ اسے یقین تھا‘ کوئی ناکوئی رستہ نکل ہی آئے گا۔ جب وہاں پہنچا تو
دیکھا‘ وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ کافی دیر وہاں بیٹھا رہا لیکن درویش لوٹ کر نہ
آیا۔ کتا بھی دور تک دکھائی نہ دے رہا تھا۔ جانے والے لوٹ کر کب آتے ہیں۔
اگر انہیں لوٹ آنا ہو تو جائیں ہی کیوں۔
اب ممو کے بدن میں دہکتا جہنم‘ اسے قدرت کی جانب سے کردہ کا انتقام محسوس
ہوا۔ وہ بڑ بڑایا ممو کو تامرگ اس جہنم میں جلتے رہنا ہو گا۔ قدرت اسے پیار
اور اعتماد سے سے غداری کی سزا دے رہی ہے۔ پھر اس کے منہ سے بےاختیار نکل
گیا
واہ مالکا توں توں ای ایں
اس نے پگڑی کھسہ اتارا اور پرے روڑی پر پھینک دیا اور خود آنکھیں بند کرکے‘
اس درویش کی جگہ پر بیٹھ گیا۔ لوگ اسے فرار کا نام دے رہے تھے‘ لیکن اس کے
دل میں یہ بات گھر کر گئی‘ کہ دنیا رہنے کی جگہ نہیں۔ اس کا اور دنیا کا
رستہ‘ ایک نہیں ہو سکتا۔ |