سلمان کا ہاتھ اٹھتےاٹھتے رک گیا ....اس کی
آنکھوں میں سرخی کی لہر دوڑ رہی تھی ...… وہ لڑکی سلمان کے اس رد عمل پہ
ششدر رہ گئی ...
سلمان نے بمشکل خود کو کنٹرول کیا .…۔وہ سب کچھ بھلا دینا چاہتا تھا ...
مگر اس کو لڑکی کے مجنوں کہنے پہ اسے شدید غصہ تھا ....وہ دونوں مٹھیاں
بھنچے اسے گھور رہا تھا ...
وہ لڑکی نظریں نیچی کیے کھڑی تھی ...وہ خوف زدہ تھی ...
چلی جاؤ
یہاں سے ...
یہ نہ ہو ....،،کہ ...،،
سلمان کچھ کہتے کہتے روک گیا ...
وہ لڑکی خاموشی سے وہاں سے چلی ائی ....وہ حیران تھی کہ اس نے ایسا کیا کہہ
دیا ... کہ ایک دم اس کا رویہ بدل گیا ....،،وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی چھت
کی دیوار پھلانگ کر دوسری طرف چلی گئی ....،
جبکہ سلمان کی آنکھوں میں بہت سے مناظر آنسو بن کر چبھنے لگے ....کچھ لمھے
صرف آنسوؤں کی نظر ہو جاتے ہیں اور اس کا tw فرح کے ساتھ گزرا ہر لمحہ ہی
آنسو کی نظر ہو چکا تھا ...چاہے وہ لمحہ خوبصورت تھا ...یہ تکلیف کا
کچھ لوگ ہماری زندگی میں فقط تکلیف اور درد چھوڑ جاتے ہیں ....مگر ہماری
زندگی کا حصہ رهتے ہیں ... ایسے لوگوں کو بھلانا بے حد مشکل ہوتا ہے ...
اس لمھے سلمان بھی اس درد سے نجات چاہتا تھا ...
مگر وہ مجبور تھا ...
خود میں اتنی ہمت نہیں رکھتا تھا
کہ
سب کچھ بھلا دے
اس کا خیال اپنے ذہن... اپنے دل سے نکال دے ...
کتنی ہی دیر وہ روتا رہا ....
تڑپتا رہا ...
..........................................
صفحہ نمبر 23
روشنی آج کتنے ہی دنوں بعد دل سے تیار ہوئی تھی ....
آنکھوں میں کاجل لگاتے ہوے اس کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں ....
تو نے اپنے دل میں اٹھتے وسوسے کو بہت پیچھے دھکیل دیا تھا
روشنی اب وہ جینا چاہتی ...
دل سے خوش ہونا چاہتی تھی ...
یہ سب تیاری اس نے رضا کے لئے کی ....جو آج کل بہت ڈسٹرب دکھائی دے رہا تھا
...
وہ سب باتیں بھلا کر رضا کی خواہش کے مطابق اپنی نی زندگی کا آغاز کرنے جا
رہی تھی ...
لمبی پنک رنگ کی گھیرے دار فراک پہنے ...گیلے بالوں کو کھلا چھوڑے وہ
آنکھوں میں کاجل کی سلائیاں لگا رہی تھی ...
پھر وہ کچن کی طرف گئی اور فرج سے کھیر کا باول اٹھا کر موم بتیوں اور دیگر
اشیا سے سجے میز پہ لا کر رکھنے لگی ....
اس کے چہرے پہ خاص مسکراہٹ سجی ہوئی تھی ....
دروازے پہ اچانک دستک ہوئی
روشنی کے چہرے پہ سجی مدھم مسکان مزید گہری ہو گئی ...
عجیب سی چمک اور شرمیلا پن اس کے چہرے پا موجود تھا ...
آنے والے کا انتظار اور اس سے بے پناہ محبت روشنی کی آنکھوں سے ظاہر تھا
اس نے مسکراتے ہوے آگے بڑھ کر جلتی ہوئی لائٹ اوف کی ..
اور دروازہ کھولنے کے لئے آگے بڑھی
.…اور مسکراتے ہوے آنے والے کے کندھے سے جا لگی ...
اس نے روشنی کی کمر پہ ہاتھ رکھا ...اور اس کے سلکی بالوں
میں انگلیاں پھیرنے لگا ...
میں کب سے آپ کا انتظار کر رہی تھی ...،،
کتنی دیر لگا ڈی آپ نے آنے میں ...،،روشنی خفا خفا سی مدھم آواز میں بولی
...
اس اندھیرے میں سامنے والے کا واضح نظر نہیں آ رہا تھا ...
آپ بولتے کیوں نہیں رضا ...،،
مگر وہ گھمبیر خاموشی سے کھڑا رہا ...
روشنی کو کچھ عجیب سا احساس ہوا ...
یہ لمس رضا کا تو نہیں تھا ....
اور
نہ ہی یہ خوشبو اس کی تھی ...
روشنی نے پیچھے ہٹنا چاہا
مگر
اب پیچھے ہٹنا بہت مشکل تھا ...
وہ بہت مضبوط ہاتھوں میں تھی ...
رضا ...،،
رضا۔..،،
چھوڑئیے مجھے ...،،اس کی کوشش جاری تھی ...
اسے انہونی کا احساس ہوا ...
کون ہو تم ...،،
چھوڑو مجھے ...،،روشنی چلائی ...
اس شخص نے روشنی کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا ...
شش ....،،چپ ...،،آواز نہ آے تمھاری ...،،
روشنی اس آواز کو پہچان گئی تھی ...اور کیسے نہ پہچانتی ....
یہ وہی شخص تھا ...جس کی آنکھوں میں اس نے بے حسی اور عجیب شیطانی چمک
دیکھی تھی ...
جس کی وجہ سے وہ ہر دم خوف و ہراس اور تکلیف میں رہتی ...
آج وہ شخص حقیقت کی تصویر بنا اس کے سامنے کھڑا اس کی زندگی کے انہدھرے میں
مزید اضافہ کرنے والا تھا ...
اس نے اپنی پنٹ کی جیب سے موبائل نکالا اور ٹارچ لائٹ آن کی ...،،
وہ روشنی کو گھسیٹتا ہوا لاونج میں پڑے ہوے صوفے تک لے گیا ...
خبر دار جو چلائی تو ...،،ورنہ اسی چھری سے تمھاری زبان کاٹ دوں گا ...،،جس
سے تم اپنے پیارے سے ..،، دو کوڑی کے محبوب کے لئے ....کیک کاٹنے والی تھی
...،،فراز نے اسے غصے میں گھورتے ہوے کہا ...
اس نے روشنی کے منہ سے ہاتھ ہتا دیا ....
چلو اب اٹھو اور لائٹ آن کرو ...،،
سہمی سہمی سی روشنی کا سارا وجود کانپ رہا تھا ....،،
وہ اٹھی اور لڑکھڑا کر گرتے گرتے بچی ...
وہ آج رضا کو خوش خبری سننے والی تھی کہ وہ اس پرگننٹ ہے ...اسی وجہ سے وہ
کمزوری اور نقاہت محسوس کر رہی تھی ...
اس نے لائٹ آن کی ...اور کھلے دروازے کی طرف دوڑنا چاہا مگر
پیچھے سے فراز کی مضبوط گرفت نے اس کے قدم جکڑ لئے ...
کہاں جا رہی ہو .....،،میری جان ....،،
فراز مسکراتے ہوئے بولا ...
ہر دروازہ بند ہے میری جان ...،،اور جو نہیں بند ...وہ تم خود کرو گی
...،،اپنے ان خوبصورت ہاتھوں سے ...
اس نے روشنی کے خوبصورت مہندی سے سجے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر روشنی کے
سامنے کیے ...
روشنی کے آنسو اس کی ہتھیلی پہ گرنے لگے ...
بہت خوبصورت ہاتھ ہیں ...،،
مگر
ان ہاتھوں کی لکیروں میں بسا ہوا نصیب خوبصورت نہیں ...،،
ہا ہا ہا ...،،حیرت کی بات ہے ویسے ...،،تم جیسی خوبصورت حسین و جمیل طوائف
کو ...،،اس کنگلے رضا میں کیا نظر آیا ....،،
چلو ..آو ..،،دروازہ بند کریں ...،،اس کمینے رضا کی طرف کھلتا ہوا ہر
دروازہ آج تم اپنے ہاتھوں سے بند کرو گی ...،،
خوف و ہراس میں جکڑی روشنی سے بولنا مشکل ہو رہا تھا ....
کہاں ہے رضا ...،،
مجھے رضا کے پاس جانا ہے ...،،
ارے ...،،میں جو ہوں تمھارے پاس ...،،تو تمھیں رضا کی کیا ضرورت ہے ...،،
اور ویسے بھی تم طوائف زادیوں کو ہر روز نے مرد اور اس کے پیسے سے مطلب
ہوتا ہے ...،،
وہ روشنی کا ہاتھ پکڑ کر دروازے تک لے گیا ...
دروازہ بند کرو ...،،
مگر روشنی وہیں کھڑی بے آواز آنسو بہاتی رہی ...
دروازہ بند کرو ...،،ورنہ ...،،اس نے روشنی کے بالوں زور سے بھینچا ...
روشنی نے کانپتے ہاتھوں سے روشنی کے اس دروازے کو بند کیا ...
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر صوفے تک لے گیا ...بیٹھو ...،،اب فراز نے اس کا ہاتھ
چھوڑ دیا تھا ...
آنسو صاف کرو ...،،اتنی محنت سے کیے گئے میک اپ کو اتنی آسانی سے خراب کر
رہی ہو ...،،
ابھی تو تمھیں جی ببہر کے دیکھا بھی نہیں ...،،
رضا ....،،
رضا کہاں ہے ...،،
کون رضا ....،،اس وقت تمھارے سامنے میں ہوں ...،،اس لئے صرف میری بات کرو
...،،
بھول جاؤ رضا کو ...،،
رضا کا استمعال صرف تمھیں اس کوٹھے کے اندھیروں سے نکالنے کے لئے کیا تھا
...،،
وہ اب کبھی واپس نہیں اے گا ...،،
کیوں نہیں آے گا واپس ...،،کہاں ہے میرا رضا ...،،
ہا ہا ہا ...
ایک شرط پہ اسے واپس لیا جا سکتا ہے ....،،
شرط ...،،کیسی شرط ...،،روشنی حیرانی سے بولی ....
..............…۔..…۔.....…۔......
شاہ زر کو سامنے پا کر پارس کے چہرے پہ مسکراہٹ دوڑ گئی ....
وہ اٹھنا چاہتی تھی ....
اس لمحے اس نے خود کو بہت بے بس و لا چار محسوس کیا ...شاہ زر سپاٹ سا چہرہ
لئے اس کی طرف بڑھا ....
اسپتال کے روم میں بیڈ پہ لیتی پارس
بہت کمزور دکھائی دے رہی تھی ...
آج اسے یہاں ایڈمٹ ہوے تیسرا دن تھا ...اور شاہ زر وہاں اب پہنچا تھا
....پارس چاہتی تھی وہ تین منٹ میں شاہ زر اس کے پاس پہنچ جاتا ...
اتنی توہین اور بے حسی کے باوجود بھی وہ ااس کا جگنو تھامے تھامے بیٹھی تھی
....
کسی ہو پارس ...،،
شاہ زر مدھم لہجے میں بولا ...
فکر مت کرو ...،،بہت جلد ٹھیک ہو جاؤ گی …۔.،،
اس کے لہجے سے اس کی محبت نہیں ... ہمدردی عیاں تھی ....
تھی
وہ محبت جس کی میں پارس کی آنکھیں شاہ زر کے حسین چہرے پہ ٹکی ہوئیں تھیں
...
وہ محبت نہ تھی ....
نہ شاہ زر تڑپا تھا
نہ حیران ہوا
وہ چاہتی تھی شاہ زر .... محبت سے اس کا ہاتھ تھام کر کہے گا ...یہ کیا ہو
گیا پارس ....،،اتنا بڑا حادثہ کیسے گیا ...
میں ہر لمحہ ہر پل تمھارے ساتھ ہوں ...
میں تمھیں چھوڑ کر کبھی نہیں جاؤں گا ...،،
مگر
وہ اس لمحے واپسی کی بات کر رہا تھا ....
شاہ کی نظر موبائل پہ تھی ...
اوکے ..،،پارس ...،،میں اب چلتا ہوں ....،،
ایک ضروری ہے کچھ دیر میں۔..آؤں گا پھر ...کسی وقت
...
اور پھر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا شاہ زر کمرے سے نکل گیا ...
پا رس کی نظر کمرے میں لگے کلاک پہ تک گئیں ...
سات منٹ ...،،
صرف سات منٹ ہی تو ٹھہرا تھا وہ ....
سات سالوں کی دوستی کے سات منٹ ...،،
پارس منہ میں ...
بربرائی آو
سات سال کی محبت کے بدلے ایک لمحہ بھی نہیں ....
یہ سات منٹ صرف دوستی سبب کے تھے ... اس محبت کا کیا ہوا جو میں نے تم سے
سات سالوں کے ہر منٹ میں کی ہے ...،،
اس نے نعمان کو
کمرے میں ہوتے اور اپنی طرف آتے دیکھا ......
وہ خاموشی سے اس کے پاس
آ کر کھڑا ہو گیا ...،.
...بہت تعریف سنی ہے تمھاری ذہانت کی ...،،
بھلا حساب لگا کر بتاؤ ... ،،سات سالوں میں کتنے منٹ ہوتے ہیں ...،،
مشکل سوال ہے نہ ...،
ہم ......،،چلو چھوڑو اس بات کو .مگر بات چھوڑنے والی نہیں ..،،..یہ بتاؤ
..،،
کیا سات سال کی محبت ... ،،ارے نہیں نہیں ...،،محبت ...،،نہیں محبت بہت دور
کی بات ہے ... ،،
کیا سات سال کی دوستی کا حق سات منٹ میں ادا کیا جا سکتا ہے ...،،
پھر وہ .....
مسکرائی
تم بھی سمجھ رہے ہو گے چوٹ کہیں اور نہیں پہ لگی ہے ...،،
وہ بھی یہ ہی سجھ رہا تھا ...
کہ چوٹ شاید میرے دماغ پہ لگی ہے ....،،
جب انسان کے جسم کے کسی حصے پہ کوئی چوٹ لگتی ہے ....،،اور جب وہ بے بس و
لاچار جاتا ہے ...،،تو اس کے بعد لوگوں کے رویوں سے ملنے والی سب چوٹیں دل
پہ لگتی ہیں ...،،
مگر ...،،
تم .....،،
کچھ پل کو پارس رکی ...
تم کیوں !...،، میرے ان زخموں پہ ہاتھ رکھنا چاھتے ہو ....،،
ہمدردی کر رہے ہو مجھ سے ...
تم سےنہ تو میری دوستی تھی اور نہ محبت ..،،
کہ میں لا چار ہوں ...،،بے بس ہوں ..،،
تم بھی چلے جاؤ مجھے چھوڑ کر ...،،
مجھے کسی کی ہمدردی نہیں چاہیے ...،،
جاؤ یہاں سے ...،،
تم بھی چلے جاؤ ...،،
وہ چلائی ...
جاری ہے ...
|