صابر علی اور اس کی بیوی‘ زندگی کا آخری
موسم دیکھ رہے تھے۔ تمام بچے اپنے اپنے گھروں میں آباد ہو گئے تھے‘ بس حمید‘
جو سب سے چھوٹا تھا‘ کا گھر آباد کرنا باقی رہ گیا تھا۔ ان کی نظروں میں
اچھے اچھے رشتے بھی تھے‘ لیکن وہ شادی کے نام سے بدک جاتا تھا۔ ایک دن‘
میاں بیوی نے پروگرام بنایا کہ یہ اس طرح سے ماننے والا نہیں‘ زبردستی شادی
کر دیتے ہیں‘ شاید ہم بھی اس کی اولاد کا منہ دیکھ لیں۔ پھر انہوں نے‘ رشتہ
ڈنڈھ نکالا اور بات بھی پکی کر دی۔ حمید نے لاکھ عذر پیش کیے‘ لیکن انہوں
نے اس کی ایک نہ سنی۔ اشاروں کنائیوں میں‘ شادی نہ کرنے کی وجوہ بھی پیش
کیں۔ شاید انہوں نے‘ اس کی ایک بھی نہ سننے کی قسم کھا لی تھی۔
شادی کے دن طے ہو گئے۔ شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ گھر میں خوشیوں نے ڈیرے
ڈال لیے۔
جوں جوں شادی کے دن نزدیک آتے گئے‘ گھر میں خوشیاں رقص کرنے لگیں۔ بہنیں‘
رات کو ڈھولک لے کر بیٹھ جاتیں۔ ہنسی مذاق ہوتا‘ اور خوب چھیڑ چھاڑ چلتی۔
لباس زیر گفتگو آتے۔ بڑی بوڑھیوں میں‘ جہاں گھریلو اور مالی مسائل کا رونا
رویا جاتا‘ وہاں چغلیوں بخیلیوں کا بھی جمعہ بازار لگ جاتا۔ مردوں کی بےرخی‘
لاپرواہی اور ان کی‘ ان کے اپنوں پر شاہ خرچی کا دکھڑا بھی زیر بحث آتا۔ یہ
ہی نہیں‘ ان کی جنسی کم زوری وغیرہ کا بھی رونا رویا جاتا۔ ہر کوئی اپنے
حالات میں مست تھا۔
کسی نے حمید کی جانب توجہ نہ دی‘ کہ پریشان اور چپ چپ کیوں ہے۔ اسے غصہ
آتا‘ کہ یہ کیسے مائی باپ اور بہن بھائی ہیں‘ جو اس کی طرف کوئی توجہ ہی
نہیں دیتے۔ خیر‘ یہ اس کی غلطی بھی تھی‘ کہ وہ اپنے کسی کزن ہی سے بات کر
لیتا‘ کہ اس نے غلط کاری میں سب کچھ کھو دیا ہے اور اب وہ شادی کے قابل ہی
نہیں رہا۔ اپنے طور پر‘ حکیموں ڈاکٹروں کے نسخے آزماتا رہا۔ بہتری کی
بجائے‘ خرابی کا دروازہ ہی کھلا۔ کسی کو حمید کی رائی بھر فکر نہ تھی‘ کہ
وہ دن بہ دن‘ ذہنی اور جسمانی طور پر نیچے آ رہا تھا۔
بارات جانے میں‘ تین دن باقی رہ گیے تھے کہ حمید چارپائی لگ گیا۔ فورا
ایمرجنسی میں لے جایا گیا۔ وہاں بھی‘ اس کے گھر والوں سے مماثل لوگ‘ اقامت
گزین تھے۔ وہ تکلیف سے مر رہا تھا‘ لیکن ہسپتال والے اپنے حال میں مست تھے۔
بےبابائی لوگ‘ ہمیشہ ذلت کا شکار رہے ہیں۔ بابائی انڈر کیر تھے اور حمید
ابھی تک‘ محض ایمرجنسی کا مریض تھا۔ جھڑنے کے بعد‘ اس کی بھی سنی گئی۔ سترہ
گھنٹے وہ ایمرجنسی میں رہا۔ بوتلیں شوتلیں اور ٹیکے شیکے لگے تو بہتری کی
صورت نکلی۔ باقی وقت ہی کتنا رہ گیا تھا۔ انتظام ہو چکے تھے۔ پیغامات بھیجے
جا چکے تھے۔ حمید بستر سے اٹھ بیٹھا تھا۔ ہسپتال سے چھٹی لے لی گئی۔
بےسوادی میں ہی بارات گئی۔ باہر باپ اور بھائی‘ جب کہ اندر بہنیں‘ دلہا کے
پاس اور کنقریب رہیں۔ سسرال میں بھی چوں کہ اطلاع ہو چکی تھی‘ کہ دلہا
ہسپتال کی یاترا سے لوٹا ہے‘ لہذا کوئی ہلہ غلہ نہ کیا گیا۔ بس ہلکی پھلکی
ہنسی مذاق کا سماں رہا۔ دلہا کی خاموشی اور چہرے کی زردی کو بیماری کے
اثرات پر محمول کیا گیا۔ جب کہ اصل حقیقت کچھ اور ہی تھی۔ وہ آتے وقت کے
جنسی معاملات کے خوف سے نیلا پیلا ہو رہا تھا۔
پھر اس کا چہرا کھل اٹھا۔ اس اچانک تبدیلی پر‘ سب حیران تھے۔ سب نے اسے
شادی کی خوشی سمجھا۔ اصل بات کوئی اور تھی۔ حمید کو پہا خادم کا قول یاد آ
گیا تھا۔ مرحوم کا کہنا تھا‘ کہ خیالی پلاؤ میں رسد کی کمی خطرناک ثابت
ہوتی ہے۔ اس قول کے زیر اثر اس نے‘ آتے لمحوں کا منصوبہ تیار کر لیا تھا۔
حمید کے چہرے پر رقصاں شادابی کے بعد‘ خوشیوں کا ناک نقشہ ہی بدل گیا۔ دلہن
کے گھر لانے تک‘ ہر طرح کی رسمیں پوری کی گئیں۔ گھر آنے تک‘ رات کے نو بج
چکے تھے۔ دو گھنٹے لڑکیوں اور عورتوں نے لے لیے‘ سلامیاں وغیرہ ہوتی رہیں۔
ادھر لڑکے حمید کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں مصروف رہے۔ وہ بھی خوش دلی سے‘ اس
ہنسی مذاق میں شامل رہا۔
گیارہ بجے حمید‘ دلہن کے کمرے میں داخل ہوا۔ اس کا امتحان شروع ہو چکا تھا۔
وہ کمال کی اداکاری کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ اس کی اداکاری کو‘ دلیپ کمار بھی
دیکھ لیتا‘ تو عش عش کر اٹھتا۔ اس کا کمرے میں داخل ہونا‘ اداکار امریش
پوری سے مماثل تھا۔ دلہن کا گھونگھٹ اٹھانا‘ وحید مراد کا سا تھا۔ جعلی
بےاختیاری سے‘ واہ واہ کر اٹھا۔ وہیں سجدہ میں گر گیا۔ پھر دلہن کے پاس ہی
بیٹھ گیا اور کہنے لگا: اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے‘ کہ تم جیسی حسین بیوی
مجھے ملی۔ حوریں بھی کیا ہوں گی‘ تم لاکھوں میں ایک ہو۔ میں تمہارے مقابلے
میں کچھ بھی نہیں ہوں‘ دیکھو کبھی بھی میرا ساتھ نہ چھوڑنا۔
دلہن اس بات پر فخریہ مسکرائی۔ میک اپ نے اسے تھوڑا بنا سنوار دیا تھا‘
ورنہ حسن نام کی چیز اس میں سرے سے موجود ہی نہ تھی۔
پھر وہ تھوڑا فرینک ہو کر‘ اس کے پاس ہی بیٹھ گیا اور کہنے لگا: سب کچھ
ہوتا رہے گا‘ آج پہلے دن ہی زندگی کا منصوبہ بنا لیتے ہیں اور پھر‘ اس کے
بعد‘ اس منصوبے پر عمل کرکے‘ زندگی کو سکھی بنا لیں گے۔ تم ہی بتاؤ‘ کیسی
زندگی گزارنا چاہتی ہو۔
دلہن تھوڑا شرمائی اور کہنے لگی: جانو میں چاہتی ہوں‘ ہمارا اپنا ایک گھر
ہو‘ جہاں صرف اور صرف ہم دونوں ہوں۔ مجھے غیروں کی مداخلت قطعی پسند نہیں۔
دیر تک باتیں ہوئیں۔ عالی شان کوٹھی خریدی گئی۔ اس کوٹھی میں ضرورت کی ہر
چیز سجائی گئی۔ سواری کے لیے نئی اور اچھے والی کار خریدی گئی۔ باتوں کے
دوران اس نے ایسی کوئی حرکت نہ کی کہ کوئی گلاواں گلے پڑتا اور اصلیت کھل
جاتی۔ باتوں باتوں میٰں صبح کی آزان ہونے لگی۔
اف میرے خدا‘ تمہارے ساتھ گزرے لمحے کتنی جلدی گزر گیے ہیں کہ پتا بھی نہیں
چلا۔ کتنا اچھا ساتھ ہے۔ ہماری زندگی خوب گزرے گی۔ پریشانی کا دور تک نام و
نشان نہیں ہو گا۔ تم سے اچھا ساتھی مل ہی نہیں سکتا۔ اچھا اب تم سو رہو‘
میں مسجد جا رہا ہوں۔ نماز پڑھوں گا۔ تم سا ساتھی ملنے پر شکرانے کے نوافل
ادا کروں گا۔ مجھے تم مل گئی ہو‘ اب کسی اور چیز کی تمنا ہی نہیں رہی۔ دلہن
مسکرائی‘ اس کی مسکراہٹ میں بلا کی گرمی تھی‘ کوئی اور ہوتا تو وہیں ڈھیر
ہو جاتا۔ ہر ایمرجنسی اور جلدی ساکت و جامد ہو جاتی۔ وہ بھی ٹھٹھکا‘ مگر
گزرے کل کی غلطیوں نے‘ اسے دروازے سے باہر دھکیل دیا۔ مجبوری تھی‘ کیا کر
سکتا تھا۔ دلہن دکھائے گئے سبز باغوں کی آغوش میں چلی گئی اور سکون کی نیند
نے اسے آ لیا۔
صبح ہوئی‘ سب خیر خیریت سے گزر گیا۔ رات گئی بات گئی۔ دلہن خوش تھی کہ اسے
اتنا اچھا شوہر مل گیا ہے۔ پھر میکے والے آئے اور اسے ساتھ لے کر چلے گیے۔
دلہن نے ماں کے گھر جا کر حمید کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ دلہن کے گھر
میں خوشیاں منائی جا رہی تھیں کہ پہلی رات میں ہی دلہا کو گھٹنوں تلے رکھ
لیا گیا ہے‘ ورنہ اس میں کچھ تو وقت لگتا ہی ہے۔ اس نے عالی شان کوٹھی‘
کار‘ فریج کی خریداری کے علاوہ لاکھوں روپیے کی شاپنگ کی۔ شادیانے تو بجنے
ہی تھے۔
ادھر حمید نے مسئلہ کھڑا کر دیا کہ میں اس عورت کے ساتھ زندگی نہیں گزار
سکتا‘ جو پہلے روز ہی ماں باپ اور بہن بھائیوں سے مجھے دور کر رہی ہے‘ آتے
وقتوں میں پتا نہیں کیا کیا گل کھلائے گی۔ اگر نہیں یقین آتا تو یہ
ریکارڈنگ سن لیں:
جانو میں چاہتی ہوں‘ ہمارا اپنا ایک گھر ہو‘ جہاں صرف اور صرف ہم دونوں
ہوں۔ مجھے غیروں کی مداخلت قطعی پسند نہیں۔
ریکارڈنگ سن کر‘ سب سیخ پا ہو گیے۔ طرح طرح کے بیانات جاری ہوئے۔ صابر اور
اس کی بیوی کو بڑا دکھ ہوا۔ حمید کی ماں بولی‘ بوتھی سے کتنی شریف اور
بھولی بھالی لگ رہی تھی۔
صابر بولا‘ بڑی سیانی بنی پھرتی ہو‘ تم نے ہی میرے بیٹے کی زندگی برباد کی
ہے۔
دونوں میں کافی بحث چلی۔ کنیز کا یہ بیان برادری کیا‘ آس پاس میں خوب مشہور
ہوا۔ کئی ماہ دونوں خاندانوں میں ٹھنی رہی اور آخرکار طلاق ہو گئی۔ چؤًں کہ
حقیقت پس پردہ تھی‘ اس لیے حمید کی کامیاب اداکاری کی‘ کوئی داد نہ دے سکا۔ |