کہ ذاکر ذکر کرتا ہے خدا کے کارخانے میں

ایک سال قبل اگر یہ سوال کیا جاتا کہ کنھیا کمار کون ہے؟ تو جے این یو کے باہر شاید ہی کوئی اس سوال کا صحیح جواب دے پاتا لیکن آج حالت یہ ہے کہ نہ صرف ملک کا بچہ بچہ اس سے واقف ہے بلکہ عالمی ذرائع ابلاغ میں بھی وہ اجنبی نام نہیں ہے۔ اس دوران کنھیا کمار نے کون سا ایسا کارنامہ انجام دےدیا کہ جس نے اسےاس غیر معمولی شہرت کا حقدار بنادیا؟دراصل کنھیا کمار نے اپنے طور سے صرف یہ کیا کہ طلباء یونین کے صدر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے افضل گرو کی پھانسی کے خلاف منعقد ہونے والے ایک مظاہرے میں شرکت کی جس میں دو چار سو طلباء بھی شریک نہیں تھے۔ وہ احتجاج بھی کوئی نیا نہیں تھا بلکہ تیسری مرتبہ ہورہا تھا اور اس کی جانب کوئی توجہ دینے کی ضرورت تک محسوس نہیں کرتا تھا لیکن پھر یہ ہوا کہ سمرتی ایرانی کی پہ در پہ حماقتوں نےخودانہیں زیرو بنا دیا اور کنھیا کمارکو ہیرو بن گئے۔

کنھیا کے ساتھ یہ کیا گیا کہ پہلے اس کی تقریر کے پیچھے کشمیر کے مظاہرے کے نعرے جوڑ دئیے گئے ۔ اس کے بعد دو مرتبہ عدالت کے اندر پولس کی نگرانی میں سپریم کورٹ کے ہدایت کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اس کو سنگھ کے غنڈوں نے مارا پیٹا۔ تہاڑ جیل میں افضل گرو کے کمرے میں اسے قید کیا گیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ کنھیا کمار نوجوانوں کی آنکھوں کا تارہ بن گیا۔ کنھیا کو جس طرح غدارِ وطن قرار دیا گیا تھا اسی طرح ڈاکٹر ذاکر نائک کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ ڈاکٹر ذاکر نائک ایک نہایت ذہین مبلغ اسلام ہیں۔ انگریزی داں حلقوں اور خاص طور پر نوجوانوں میں وہ بے حد مقبول ہیں۔ بڑی محنت سے انہوں نے اپنا ٹیلی ویژن چینل قائم کیا جو دنیا کی کئی زبانوں میں اور مختلف ممالک میں دیکھا جاتاہے ۔

ڈاکٹر ذاکر نائک کو اول تو بنگلا دیش کے حملہ آوروں سے جوڑ کر خطرناک دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی گئی لیکن آگے چل کرہر دھماکے سے انہیں اس طرح جوڑا جانے لگا اور اندیشہ لاحق ہوگیا کہ کہیںان کی پیدائش سے قبل رونما ہونے والے تقسیم ہند کے تاروپود بھی ڈاکٹر صاحب سے نہیں جوڑ دئیے جائیں گے ۔ یہ الزامات اس قدر بودے تھے کہ ساری دنیا میں جگ ہنسائی کا سبب بنے رہے ۔ مثلاً بنگلا دیشی دہشت گرد کا فیس بک پر انہیں فولو کرنا۔ فیس بک پر تقلید کرنے والوں کی بنیاد پر اگر لوگوں کو موردِ الزام ٹھہرایا جانے لگے تو شاید ہی کوئی اہم سیاسی رہنما یا مشہور شخصیت جیل کے باہر نظر آئے اس لئے کہ ہر دہشت گرد یا بدمعاش جس کو چاہے فیس بک پر پسند کرسکتا ہے اور اس معاملے میں کسی کا کسی پر کوئی اختیار نہیں ہے۔ بنگلا دیش ہی کا ایک اور دہشت گرد شردھا کپور کا دلدادہ بھی تھا اوراس سے ملاقات بھی کرچکا تھا تو کیا شردھا کی بھی تفتیش ہوگی بلکہ کشمیر میں حزب الجاہدین کمانڈر برہان وانی کے فیس بک پیج پر سہواگ کی تصویریں بھی ملتی ہیں تو کیا وریندرسہواگ کو گرفتار کیا جائیگا؟

ڈاکٹر ذاکر نائک پر ایک الزام یہ ہے حافظ سعید کی ویب سائٹ پر ان کے ادارے کی لنک موجود تھی۔ اگر آئی آر ایف کی سائٹ پر حافظ سعید کی لنک موجود ہوتی تب تو ذاکر نائک کو اس کیلئے ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایک ویڈیو کی کلپ کوشرارتاً سیاق وسباق سے کاٹ کراس طرح پیش کیا جارہا ہے گویا وہ دہشت گردی کے حامی ہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر اسے مکمل دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف ہے اور یو ٹیوب پر دہشت گردی کی مذمت میں ڈاکٹر ذاکر نائک کے کئی ویڈیو موجود ہیں ۔ ڈاکٹر ذاکر نائک کا قصور تو صرف یہ ہے کہ ان کے آگےوزیراعظم کے گرو سری سری روی شنکر اپنا آرٹ آف لیونگ بھول جاتے ہیں اور ایسا دیگرلوگوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ان کے خلاف جو رپٹ لکھوائی جارہی ہے اس بابت اکبر الہ بادی نے کیا خوب کہا ہے ؎
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا اس زمانے میں

این ڈی ٹی وی پر شیکھر گپتا جیسے معروف صحافی کے ساتھ ڈاکٹر ذاکر نائک کا واک دی ٹاک والا انٹرویو کس کو یاد نہیں ۔ اس کے باوجودقومی ذرائع ابلاغ نے انہیں خطرناک دہشت گرد ثابت کرنے کی سپاری لے رکھی تھی ۔ذرائع ابلاغ میں جوآگ لگی ہوئی تھی اس میں راجناتھ سنگھ سے لےکرن رجیجو تک اور نائیڈو سے لے کر فردنویس تک تیل ڈال رہے تھے ۔ اس طرح کی حماقت سے ڈاکٹر ذاکر نائک کا تو کچھ نہیں بگڑالیکن ممکن ہے سمرتی ایرانی کی طرح ان میں سے کسی کی کرسی ڈانواں ڈول ہو جائے۔بی جے پی والےبار بار یہ بھول جاتے ہیں کہ شیش محل میں رہنے والےدوسروں کی جانب پتھر نہیں اچھالتے۔ مہاراشٹرمیں بی جے پی کے نہایت معمر سیاسی رہنما ایکناتھ کھڑسے پر داودابراہیم کے ساتھ مسلسل رابطے کا الزام ممبئی پولس نے لگایا ہے۔ مہاراشٹر میں وزارت داخلہ کا قلمدان خود وزیراعلیٰ فردنویس کے پاس ہے۔ وہ اس الزام کی تفتیش کرواکر حقائق کو سامنے کیوں نہیں لاتے؟ حکومت ایکناتھ کھڑسے کی دھمکی سے کیوں ڈرجاتی ہے کہ اگر انہوں نے زبان کھولی تو سیاسی زلزلہ برپا ہوجائیگا؟ سنگھیوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ جن کی اپنی چڈی ڈھیلی ہوتی ہے وہ دوسروں کی دھوتی نہیں کھینچتے۔

مذکورہ دھمکی کے اندر جو باتیں راز میں ہیں ان سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر جوکچھ طشت ازبام آچکا ہے اسے بھی دیکھیں ۔ سادھوی پرگیہ دہشت گردی کے الزام میں ہنوز جیل کے اندر ہےاور انہیں ضمانت دینے سے عدالت نے انکار کردیا ہے۔ راجناتھ سے لے کر پرتھوی راج چوہان تک نہ جانے کس کس بی جے پی رہنما کے ساتھ پرگیہ کی تصاویر سے گوگل اٹا پڑا ہے ۔ سمجھوتہ ایکسپریس کے دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے اسیمانند کو مودی اوربھاگوت کے ساتھ مصافحہ اور معانقہ کرتے ہوئے ہر اخبار کی ویب سائٹ پر دیکھا جاسکتا ہے ۔آریس ایس کے رہنما اندریش کمار پر این آئی اےدہشت گردی میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات لگا چکی ہے اور انہیں سنگھ پریوار نے مسلمانوں کی رجھانے کی ذمہ داری دے رکھی ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ مسلمانوں کو پھانسنے کیلئے سنگھ کو امت قتل و خون میں براہِ راست ملوث فرد کے علاوہ کوئی اور میسر نہیں آیا۔

گجرات کے فسادات کا اصلی مجرم ویسے تو اس دنیا کی عدالت سے ہنوز بچا ہوا ہے لیکن اس نسل کشی کیلئےجن لوگوں کو مختلف عدالتیں سزا سنا چکی ہیں ان کو دیکھیں ۔ کیا ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو وزیراعظم کا منظور نظر نہ رہا ہو؟ جو کھلے عام ان کو اپنا آئیڈیل نہ قرار دیتا ہو؟ اور جو سنگھ کے گہوارے میں پرورش یافتہ نہ اور اسے یرقانی پناہ نہ حاصل ہو؟ یہ ساری باتیں کسی تفتیش کی محتاج نہیں ہیں ۔ آفاق و انفس میں بے شمار اخباری مضامین، عدالتی مباحث، گواہوں کے بیانات، ججوں کے فیصلے اور اسٹنگ آپریشن کے ویڈیو بکھرے پڑے ہیں تاکہ ان کا مشاہدہ اہل دانش اپنی چشم بینا سے ان کا مشاہدہ کریں ۔ بابو بجرنگی جیسے لوگ اعلیٰ الاعلان وزیر اعظم کو خراج عقیدت پیش کرنےمیں بالکل نہیں ہچکچاتے۔نرودہ پاٹیا کے اندر قتل و غارتگری کے جرم میں عدالت سے عمرقید کی سزا پانے والی مایا کوندانی کو اس فساد کے بعد وزارت سے نوازنے والا اگر اس کے جرم میں شریک نہیں ہے تو کسی کا فیس بک پر کسی کو پسند کرلینا کیا معنیٰ رکھتا ہے؟

حکومت مہاراشٹر نے جب ڈاکٹر ذاکر نائک کی تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کو اس کام پر ۹ مختلف ٹیموں کو لگانا پڑا ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سرکاری افسران کام بہت دھیمے کرتے ہیں اور دوسرا سبب یہ ہے کہ مواد بہت زیادہ تھا۔ روزنامہ ہندو کے مطابق چار دنوں کی محنت و مشقت کے بعد ریاست مہاراشٹر کی انٹلی جنس ڈیپارٹمنٹ نے فی الحال ڈاکٹر ذاکر نائک کو کلین چٹ دے دی ہے۔ یہ کلین چٹ اس لحاظ سے مختلف ہے کہ عام طور یہ کام حکومت کے دباو میں کیا جاتا تھا اس بار دباو کے خلاف کیا گیا ہے ۔ باوثوق ذرائع کے حوالے سے ہندو نے خبر دی ہے کہ ڈاکٹر نائک کی آمد پران کو نہ تو گرفتار کرنا قانوناً ممکن ہے اور نہ اس کا امکان ہے ۔ ڈاکٹر نائک کے تمام لٹریچر اور ویڈیوز کودیکھنے کے بعد یہ ثابتتو نہیں ہوسکا کہ اس میں دہشت گردی کا کوئی عنصر شامل ہے اس لئےاب دیکھا جارہا ہے کہ انہوں نے کسی کی دلآزاری تو نہیں کی؟ اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہونے والے کون کون سے نوجوان ڈاکٹر صاحب سے متاثرتھے حالانکہ اس تحقیق کی عدالت میں کوئی اہمیت نہیں ہے وہاں عوامی جذبات کے بجائے حقیقت کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اس سے قبل عدالت عالیہ حکومت کیاس طرح کے کئی معاملات میں سرزنش کرچکی ہے۔

بنگلادیشی دہشت گردوں سے تعلق پرسابق اٹارنی جنرل سولی سورابجی کا موقف ہے کہ پہلے معروضی تفتیش ہو اور اس کے بعد قوانین کا اطلاق کیا جائے نہ کہ پہلے ۔ایسا لگتا ہے کہ سوراب جی ذرائع ابلاغ کے معاندانہ رویہ پر تبصرہ فرمارہے تھے۔مذہبی منافرت کے سوال پر مہاراشٹر کے سابق ایڈوکیٹ جنرل نے واضح کیا کہ اپنے مذہب کی پیروی کرنا اور اس کی تبلیغ ہندوستان کے اندر انسان کا بنیادی حق ہے۔ ہر کوئی اپنے مذہب کو دوسرے سے بہتر کہہ سکتا ہےالاّ یہ کہ اس کا ارادہ دوقوموں کے درمیان بدمزگی پیدا کرنے کا ہو۔ اسی صورت میں یہ بنیادی حق سلب ہوتا ہے۔ سینیر ماہر قانون امیت دیسائی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کسی بیان کو سیاق و سباق سے کاٹ کر نہیں بلکہ مجموعی طور پر دیکھنا چاہئے۔

وزیراعظم نے نفرت انگیز تقریرکے سماج کیلئے نقصان دہ قرار دیا۔اس بابت ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالت میں تقریر کے ثابت شدہ الفاظ کے ساتھ ساتھ مقرر کے ارادے کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ اگر دلآزاری عمداً نہیں بلکہ سہواً ہوئی ہو اور توجہ دلانے پر مقرر رجوع کرلے تو عدالت اس کے ساتھ نرمی کا سلوک کرتی ہے۔ جس زمانے ڈاکٹر ذاکر نائک کو لے کر ہنگامہ برپا تھا ۹ ماہ کے بعدہاردک پٹیل کی ضمانت منظور ہوگئی اور ان کی رہائی کا راستہ صاف ہوگیا ۔ ہاردک پٹیل نے تلوار ہاتھ میں لے کر جس طرح بزور قوت پورے نظام کو تہس نہس کرنے کا اعلان کیا تھا وہ سب کو یاد ہے۔ بعد میں بڑے پیمانے پر تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ اسی لئے اس پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا لیکن اب وہ بھی آزاد ہورہا ہے ایسے میں کسی ایسے شخص کو دہشت گرد قرار دینے کی کوشش جس کے قول و عمل سے کبھی بھی نقصِ امن کا خطرہ پیدا نہ ہوا ہو ایک حماقت سے زیادہ کچھ اور نہیں ہے۔

ڈاکٹر نائک کا معاملہ ایک ایسے وقت میں اٹھایا گیا جب ذرائع ابلاغ کے پاس کوئی گرماگرم کہانی نہیں تھی۔ اس کے سامنے پہلی خبر تو وزیراعظم کے غیر ملکی دورے کی تھی۔ اب ملک کے لوگ ان تماشوں سے اس قدر اوب چکے ہیں کہ افریقہ تو درکنار امریکی دورے کو بھی قابلِ اعتناء نہیں سمجھتے ۔ دوسرا بڑا الزام کانگریس نے یہ لگایا کہ حکومت ۴۵۰۰۰ہزار کروڈ کے ٹیلی کوم گھوٹالے پر پردہ ڈال رہی ہے ۔ کانگریس کی یو پی اے سرکار نے ۶ ٹیلی فون کمپنیوں پر ؁۲۰۰۶ سے؁۲۰۰۹ کے درمیان سرکاری بقایا جات ادا کرنے میں کوتاہی کیلئے تحقیقات کا حکم دیا تھا ۔ بی جے پی نے حزب اختلاف کے طور پر اس کی وجہ سے سرکاری خزانے کے متوقع نقصان پر خوب ہنگامہ کیا تھا اور کانگریس کے اوپر بدعنوانی میں ملوث ہونے کا الزام جڑ دیا تھا۔ اس وقت یہ خبر تمام ذرائع ابلاغ پر چھائی ہوئی تھی۔

اس قضیہ پر اب آڈیٹر جنرل کی رپورٹ آچکی ہے اور اس نےمذکورہ چار سالوں میں ۱۲ ہزار کروڈ سے زیادہ کے بقایا جات کو تسلیم کرلیا ہے اگر ان بقایہ جات کا ؁۲۰۱۶ تک کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ رقم ۴۵۰۰۰ہزار کروڈ بن جاتی ہے۔ اب جولوگ سرکاری خزانے کے نقصان پر ماتم کناں تھے وہ خزانے کے مالک بنے ہوئے ہیں لیکن سرکار اس عوام کے حق کو جرمانہ سمیت وصول کرنے کے بجائے سرمایہ داروں کو سہولت دینے کی کوشش کررہے ہیں ۔ سرکار کا ایسا کرنا بدعنوانی کی بلاواسطہ سرپرستی کے مترادف ہے۔ کانگریس کا الزام یہ ہے کہ اور اس طرح حکومت نواز کمپنیوں کو سزا سے بچایا جارہا ہے اور ان کے جرائم کی پشت پناہی کی جارہی ہے۔جب سے نئی سرکار اقتدار میں آئی ہے ذرائع ابلاغ کے اندراول توبدعنوانی کے الزامات اچھالےنہیں جاتے اور جو سامنے آبھی جائیں تو انہیں دبا دیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے ڈاکٹر ذاکر نائک کے معاملے کواس بدعنوانی کی جانب سے توجہ ہٹانے کیلئے بڑی چالاکی سے استعمال کیا گیا لیکن جب کشمیر کے تشدد کی بڑی خبر سامنے آگئی تو وہ بھی کافور ہوگیا۔

ویسے یہ بھی ایکحسنِ اتفاق ہے کہ گزشتہ چند سالوں کے اندر ہندوستان کی حد تک ڈاکٹر نائک کی سر گرمیاں ماند پڑنے لگی تھیں ۔اس دوران کوئی بڑی کانفرنس ،مشہور مباحثہ یا مناظرہ منعقد نہیں ہوا تھا ۔ خلیجی ممالک میں ملنے والے اعزازت کے علاوہ ان کے حوالے سے کوئی خبر ذرائع ابلاغ میں نہیں دکھائی دے رہی تھی لیکن میڈیا کی موجودہ شرارت اور حکومت کی حماقت نے ڈاکٹر ذاکر نائک کو پھر ایک بار شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ ان کے پیس چینل پر ہندوستان میں ویسے بھی پابندی تھی ۔ معدودے چند کیبل آپریٹرس کے علاوہ کوئی نیٹ ورک اس کو نشر نہیں کررہا تھااس لئے اس کی رسائی محدود تھی لیکن اب جو یہ ہنگامہ کھڑا کیا گیا اس کے بارے میں جاننے کے شائقین میں یقیناً غیر معمولی اضافہ ہوا ہوگا ۔ یہ نئے لوگ انٹر نیٹ اوریو ٹیوب پر جاکر یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ آخر حقیقت کیا ہے؟ جب وہ لوگ ڈاکٹر نائک کے ویڈیو دیکھیں گے تو ان کے سامنے ایک مختلف شخصیت آئیگی اور ناظرین ان کے ذریعہ سے دین اسلام سے بھی واقف ہوں گے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ بالآخر یہ ہنگامہ آرائی بہت سوں کو دین اسلام سے قریب کرنے میں مددگار ثابت ہو لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس دوران ملک میں ایک ممنوع چینل کا بانی و مالک سارے قومی چینلس پر موضوع بحث بنا رہا بلکہ چھایا رہا۔ اس میں شک نہیں کہ ان چار دنوں میں ہندی ذرائع ابلاغ پر مودی کا نہیں بلکہ نائک کا راج تھا۔
 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449394 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.