پیار،محبت، امن و سکون بذریعہ طعام و سلام۔
(Talib Hussain Bhatti, Vehari)
روایت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کبھی
اکیلے کھانا نہیں کھاتے تھے بلکہ جب بھی کھانا کھاتے کسی کو بلا کر اکٹھے
مل کر کھاتے تھے۔ ایک دن کھانا کھلانے کیلئے کوئی آدمی نہیں ملا۔ متفکر ہو
کر دوردور تک دیکھنے لگے کہ شاید کوئی نظر آجائے۔ تھوڑی دیر کے بعد دور سے
ایک آدمی آتا ہوا نظر آیا۔ آپ نے اس کا انتظار کیا اور جب وہ آگیا تو اسے
اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی۔ دونوں کھانے کیلئے دستر خوان پر بیٹھے تو
مہمان نے بسم اللہ پڑھے بغیر کھانا شروع کر دیا۔ ابراہیم علیہ السلام نے
وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ میں بت پرست ہوں۔ آپ نے یہ سنا تو اسے
دسترخوان سے اٹھا دیا۔ اللہ تعالٰی نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس فوراَ
وحی بھیجی۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا: اے ابراہیم، تم نے آج اس بت پرست کو
کھانا کیوں نہیں کھلایا۔ میں تو روزانہ ہر ذی روح بشمول انسانوں کو کھانا
کھلاتا ہوں جبکہ اُن میں سے کئی ایسے ہیں جو مجھے نہیں مانتے اور میرے
بجائے بتوں کی پوجا کرتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے یہ سنا تو فورا اٹھ
کر دوڑے اور اُس شخص کو منا کر لائے اور اُسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا
کھلایا۔
دیکھو، ہر ایک جاندار بشمول انسان کو بھوک لگتی ہے جو کہ ایک فطری تقاضا ہے
۔ جس کا پیٹ )غربت کی وجہ سے( بھوکا ہوتا ہے وہ اپنی بھوک مٹانے کیلئے محنت
مزدوری یہاں تک کہ غلامی بھی کرتا ہے۔ پھر بھی اگر بات نہ بنے تو چوری
کرتاہے، ڈاکے ڈالتا ہے۔ اگرشرافت، کمزوری یا خوف کی وجہ سے ایسا نہ کرے تو
گھاس،پتےحتٰی کہ حرام یا مکروہ چیزیں بھی کھا لیتا ہے کہ کسی طرح اس کا پیٹ
بھر جائے۔مزید برآں یہ کہ ہر شخص خواہ وہ کسی ملک، مذہب، فرقے کا ہو، اسے
اپنی جان کی سلامتی کی فکر ہوتی ہے۔ اگر ہر شخص کو باعزت روزی کے مواقع اور
اپنی جان و مال کا تحفظ میسر ہو تو دیگر معاشرتی و سماجی مسائل مشاورت سے
حل کیے جاسکتے ہیں۔
نبی پاک محمد صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لوگوں کو کھانا
کھلایا اور اُنہیں سلام کیا کرو) یعنی اُنہیں سلامتی کی دعا دیا کرو( خواہ
تم انہیں جانتے ہو یا نہیں۔)اس میں بلا امتیاز ملک،مذہب،رنگ،زبان،نسل سب ہی
آگئے(۔ اس طرح تم میں )اور دوسرے لوگوں میں( محبت پیدا ہوگی، نفرت اور دوری
ختم ہو گی اور امن و سکون پیدا ہوگا اور ترقی ہو گی۔آپ صلی اللہ علیہ والٰہ
وسلم نےمزید فرمایا کہ دین دوسروں کی خیر خواہی کا نام ہے"۔ تم دوسروں کی
خیر چاہو گےتو وہ بھی تمہاری خیر چاہیں گے۔ اسلئے دوسروں کو کھانا کھلانا
اور ان کی سلامتی چاہنا عین اسلام اور عین انسانیت ہے۔
دیکھو، ہم انسان ہیں، جانور نہیں۔ جانور آپس میں لڑتے ہیں اور ایک دوسرے کو
کھاتے ہیں۔ اگر ہم بھی آپس میں لڑنے اور ایک دوسرے کو کھانے)قتل کرنے( لگ
جائیں تو ہم میں اور جانوروں میں کیا فرق رہ جائے گا؟ ہمیں ایک دوسرےپر رحم
کرنے، ایک دوسرے سے محبت کرنے، بانٹ کرکھانے اور ہر ایک کی جسے ہم جانتے
ہوں یا نہ جانتے ہوں سب کی خیر خواہی کرنی چاہیے۔ یہی انسانیت ہے۔ اسی میں
ہماری بھلائی ہے او ر اسی میں ہماری نجات ہے۔ |
|