تیشہ بر قلب ِمسلم

ابو لبید خان المظفر

پوری دنیائے اسلام میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی ہے، جگہ جگہ احتجاجی جلوس اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، مذمتی قراردیں پاس کی جا رہی ہیں، علمائے کرام، مشاہیرِ امت اور ہر دردِ دل رکھنے والا جذبات کا جوالہ مکھی بنا ہوا ہے، صحافیوں کے قلم جنبش میں آگئے ہیں، خطیبوں کو بذلہ سنجی بھولی ہوئی ہے اور درماندہ قلب وجگر میں اٹھنے والی ٹیسوں کو الفاظ کا جامہ پہنا کر افراد امت کے جذبات کو گرما رہے ہیں۔

جن کی انگلیاں حالِ دل کو الفاظ کے قالب میں ڈھال کر سپردِ قلم وقرطاس نہیں کر سکتیں ، ان کے دل پر پھیلی غم کی گھٹائیں اشکوں کی صورت میں برس رہی ہیں اور جن کی زبانیں شیرینی خطابت اور چاشنیِ تکلم سے نا آشنا ہیں ، وہ اپنی آہوں اور سسکیوں کے ذریعے اپنے چاک گریباں کا بخیہ کر رہے ہیں ؂
بسکہ روکا میں نے سینے میں ابھریں پے بہ پے
میری آہیں بخیۂ چاکِ گریباں ہوگئیں
(غالب)
لیکن یہ ایسا غم ہے جس کا بخیہ بھی نہیں ہوسکتا، ایسا زخم ہے جو مندمل نہیں ہو سکتا، ایسی مصیبت ہے جس کا مداوا ممکن نہیں، اس لیے کہ تیشۂ کفر نے آج پھر عمارت اسلام میں دراڑ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، نشترِ کفر نے پھر قلبِ مسلم میں چرکا لگایا ہے۔

ملعون سلمان رشدی، جو اپنے سیاہ کرتوت اور شیطانی اعمال کی وجہ سے عالم اسلام میں ’’شیطان رشدی‘‘ کے نام سے متعارف ہو چکا ہے، جس نے ستمبر 1988ء میں اپنے ناپاک خیالات اور پراگندہ تفکرات کو ایک کتابی شکل دی، جس کا نام اس نے Satanik Verses'' ''(شیطانی آیات) رکھا، جس میں حضرت اقدس، محمد مصطفی ﷺکے لیے رکیک الفاظ کا استعمال کیا، جس کی وجہ سے عالم اسلام کا بچہ بچہ شیطان رشدی کے خون کا پیاسا ہو گیا۔

14 فروری 1989ء میں خمینی نے اس ملعون کے خلاف فتوی جاری کیا اور اس کے سر کی قیمت ایک لاکھ ڈالر لگائی، جب کہ برطانیہ نے عین اسی حالت میں اس کو پناہ دے کر ہر طرح سے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا۔ اخباری ذرائع کے مطابق اسکاٹ لینڈ یارڈ نے اس کو اپنی حفاظت میں لیا اور اسپیشل برانچ وسینئر آفیسرز کو اس کی حفاظت پر مامور کیا، جو ہر وقت مسلح رہتے ہیں، اب تک 10 ملین پونڈ اس ملعون کی حفاظت پر خرچ کیے جا چکے ہیں، اس پر مستزادیہ کہ اس کو ''OBE'' (Order Of British Empire) کا خطاب بھی دلوایا جا چکا ہے۔

چند دن قبل ملکۂ برطانیہ نے اپنی سال گرہ کے موقع پر اس ملعون کو کفر کی کاسہ لیسی اور جبہ سائی کا بدلہ (Award) ''sir'' کے خطاب سے دیا، جس سے دنیائے اسلام میں ایک بار پھر غم وغصے کی لہر دوڑی، مسلمان اس غم کو نہیں بھولے تھے، جو انہیں ڈنمارک کے اخباروں میں چھپنے والے گستاخانہ خاکوں کی وجہ سے لاحق ہوا، کہ ایک اور غم نے ان کے جذبات کو موج زن (Excited) کر دیا۔

اگر دنیائے کفر کعب بن اشرف، ابو رافع، راج پال، سلمان رشدی جیسی ذریتِ شیطان کو تیار کر سکتی ہے، تو امت مسلمہ کی کوکھ سے محمد بن مسلمہ، عبداﷲ بن عتیک، غازی علم الدین اور عامر چیمہ جیسے جوان بھی پیدا ہو سکتے ہیں، جنہوں نے گستاخانِ رسول ﷺ کا قلع قمع کر کے ﴿إن شانئک ہو الأبتر﴾ کی عملی تفسیر پیش کر دیں۔

کفار کے لیے لمحۂ فکریہ:
برطانیہ، ڈنمارک اور دیگر ممالک کو چاہیے کہ مسلمانوں کے جذبات کو نہ ابھاریں، کیوں کہ یہ بعید نہیں کہ دوارب مسلمان یک آواز ہو کر کفار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، تو پھر کفر کو منہ چھپانے کی جگہ نہ ملے گی، اس لیے کہ مسلمان ایسی قوم ہے جب یہ اٹھتی ہے تو حالات کے رخ کو بدل دیتی ہے، اوراگر معاملہ تقدیسِ رسالت کا ہو تو پھر بات ہی کچھ اورہوتی ہے۔

ہم نے ہر دور میں تقدیس ِرسالت کے لیے
توڑ کر سلسلۂ رسمِ سیاست کا فسوں
ہم نے بدلا ہے زمانے میں محبت کا مزاج
مرحلے بند وسلاسل کے کئی طے کر کے

Aوقت کی تیز ہواؤں سے بغاوت کی ہے
اک فقط نام محمد سے محبت کی ہے
ہم نے ہر دل کو نئی راہ ونوا بخشی ہے
چہرۂ دار ورسن کو بھی ضیا بخشی ہے

نوٹ: یہ کالم ملعون کو سر کا خطاب ملنے کے موقع پر لکھاگیاتھا۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 817592 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More