سرینگر میں آزادی، مظفر آباد میں اقتدارکی جنگ

 آج یوم الحاق پاکستان ہے۔1947کو اسی دن سرینگر میں کشمیریوں نے قیام پاکستان سے پہلے ہی پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔اگر چہ قوم پرست اس الحاق کو بھی مہاراجہ کے بھارت کے ساتھ الحاق جیسا ہی سمجھتے ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ سردار محمدابراہیم خان عظیم اور مخلص کشمیری تھے۔ان کے گھر پر الحاق کا فیصلہ ہوا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے آج کے دن کی مناسبت سے یوم سیاہ منانے کا فیصلہ فوری تبدیل کر دیا۔ آج کے دن اتفاقاً یوم سیاہ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اب یوم سیاہ 20جولائی کو ہو گا۔ 21جولائی کو آزاد کشمیر میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں۔پاکستان میں بھی کشمیری مہاجرین کی 12نشستوں کے لئے ووٹ ڈالے جائیں گے۔

مرحوم سردار ابراہیم خان، سردار عبدالقیوم خان، سردار فتح محمد کریلوی، راجہ حیدر خان، چودھری نور حسین قد آور رہنما تھے۔ آج آزاد کشمیر پر ان کی اولادوں کا عمل دخل ہے۔ کہتے ہیں کہ جب انتخابی مہم میں سردار ابراہیم خان اور سردار عبد القیوم خان صاحب آمنے سامنے آجاتے تو وہ سواری سے اتر کر ایک دوسرے کو گلے لگاتے ۔ لیکن آج ان کے جانشین ایک دوسرے کی گردنیں اڑا رہے ہیں۔ یہ اقتدار کی ہوس ہے۔
69سال سے یہ تماشہ لگا ہوا ہے۔ تحریک آزادی کا بیس کیمپ میں اقتدار کا کھیل جاری ہے۔ بیس کیمپ کا کردار آزادی کے سر فروشان اور مجاہدین کے لئے ہر لمحہ منصوبہ بندی، پالیسی سازی، سفارتی ، سیاسی، سیاسی ، میڈیا اور دیگر محاذوں کو گرم رکھنا، نئی کمک و رسد روانہ کرنا ہے۔ بیس کیمپ میں ہر لمحہ لوگ الرٹ رہتے ہیں۔ دشمن کے عزائم کو ناکام بنانے کے لئے منصوبے بناتے ہیں۔ یہی لوگ مجاہدین کے لئے’’ او پی‘‘ کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان کا کام انتہائی اہم ہوتا ہے۔ یہی میدان جنگ میں دشمن کی نقل و حرکت پر گہری نگا ہ رکھتے ہیں۔ لیکن جب بیس کیمپ کے لوگ آرام طلب بن جائیں۔اقتداراور مراعات کے لئے باہم دست و گریبان ہوں۔ تو اس تحریک کا کیا ہو گا جس کے وہ نگران ہیں۔

آج پوری مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر لہو لہو ہے۔ 50سے زیادہ افراد کو شہید کر دیا گیا ہے۔ ان میں کم عمر نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔3ہزار سے زیادہ کشمیری اب بھی وادی کے ہسپتالوں میں تڑپ رہے ہیں۔ کوئی آنکھوں سے محروم ہوچکا ہے،کسی کی ٹانگ کاٹی جارہی اور کسی کا بازو۔ یہ لوگ عمر بھر کے لئے معذور بن گئے ہیں۔ بھارت نے قتل عام اور نسل کشی کو چھپانے کے لئے سرینگر کے اخبارات پر پابندی لگا دی ہے۔پریس سر بمہر کردیئے ہیں۔ کیبل نیٹ ورک ، انٹرنیٹ ، موبائل سروسز منقطع کر دی ہیں۔

چند برس قبل کی رپورٹ کے مطابقکشمیر میں 2لاکھ 83ہزار بچے یتیم تھے۔ ان میں سے صرف 20کی ہی دیکھ بھال ہو رہی تھی۔ دیگر اڑھائی لاکھ کا اﷲ ہی حافظ تھا۔ بیواؤں کی تعداد بھی دس ہزار سے زائد تھی۔ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ نیم بیواؤں کی اصطلاح بھی کشمیر میں متعارف ہوئی ہے۔ ان کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ یعنی یہ وہ خواتین ہیں۔ جن کے شوہر لاپتہ ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا کسی بے نام قبر کی زینت بن چکے ہیں۔ ان پر در انداز اور غیر ملکی دہشت گرد کا لیبل لگا دیا گیا ہے۔

آج پورا کشمیر ماتم کناں ہے۔ کیوں کہ شہداء،یتیموں ، بیواؤں اور معذوروں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ان کا کوئی پرساں حال نہیں۔ یہ کہاں جائیں ۔ ان کی تعلیم، دو وقت کی روٹی۔ کون کمائے گا۔ کیا دھندہ کریں گے۔ ان مجبوروں کو کرسچن مشنری مذہب تبدیل کرنے پر آمادہ کر رہے ہیں۔ یہ لوگ کب تک ان سے بچ سکیں گے۔ نوجواں لڑکیاں گھروں میں بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہیں۔ کون ان کے ہاتھ پیلے کرے گا۔ ان کے سر پر سایہ نہیں۔ ان کے بھائی مزار شہداء یا کسی غار ، ٹیلے ، پہاڑ، جنگل کی غذابن چکے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال ہے۔ لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ کر فیو توڑ رہے ہیں۔ گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ مار دھاڑ ہو رہی ہے۔ مقدمے بن رہے ہیں۔ کالے قوانین ان پرہی نافذہونے کے لئے بنائے گئے ہیں۔لوگوں کا غم و غصہ ہے۔ اس کا اظہار کرنے کی بھی انہیں اجازت نہیں۔ اس حالت میں انہیں آزاد کشمیر کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ وکیل پاکستان کی جانب نظریں اٹھتی ہیں۔لیکن یہاں اقتدار کا وہی قدیم کھیل جاری ہے۔ چوہے اور بلی کا کھیل۔

آزاد کشمیر میں کرسی کی جنگ کو ہی ہمیشہ ترجیح دی گئی۔یہاں آزاد ی کی جنگ کی جانب متوجہ ہونے کی فرصت نہیں۔یہاں اقتدار اور مراعات کے لئے سیاسی رقیب بھی رفیق بن جاتے ہیں۔ یہ کیسا نظام ہے۔ کیسے بھائی ہیں۔ کیسے پشتی بان ہیں۔ باڑ ہی فصل کو کھا رہی ہے۔ کشمیر کو آزاد کرانے کے بجائے یہ آپس میں لڑ مر رہے ہیں۔ شرم ان کو مگر نہیں آتی۔

لوگ چہرے بدل بدل کر سامنے آتے ہیں۔ نظام کیسے تبدیل ہو گا۔ کبھی نہیں۔ کرسی پر بیٹھنے کی یہ سب باریاں ہیں۔ عام آدمی کی حالت اس طرح نہیں بدل سکتی ہے۔ ایک طرف ستم زدہ کشمیری سراپا احتجاج ہیں، دوسری طرف کرسی کی جنگ پھر سے شروع ہو چکی ہے۔ راجہ فاروق حید ر خان، شاہ غلام قادر، بیرسٹر سلطان محمود چوھدری،چودھری لطیف اکبر، یا کسی اور کی ایمانداری اور دیانت پر کوئی شک نہیں ہو سکتا۔مگر بھارتی جارحیت اور نسل کشی کو نظر انداز کرتے ہوئے برادری ازم، علاقہ پرستی، فرقہ واریت کی آڑ میں گالم گلوچ، مار دھاڑکی سیاست کو عروج مل رہا ہے۔ کشمیر کی تہذیب و ثقافت، اعلیٰ ارسوم ورواج،ا قدار، منفرد انسانیت پسندی کی یہ لوگ تذلیل کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ن لیگ قیادت اکثریت حاصل کرنے کی صورت میں شاہ غلام قادر کو وزیراعظم منتخب کرنے پر غور کر رہی ہے۔ کیوں کہ وہ علاقہ یا برداری کے نام پر کشمیریوں کو تقسیم کرنے کی گھٹیا حرکت کے ابھی تک مرتکب نہیں ہوئے ہیں۔ آج قوم کو تقسیم کرنے کے بجائے متحد ہو کر کشمیر کی آزادی کے لئے سرگرم کردار ادا کرنے کا وقت ہے۔ کشمیریوں کی پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش کو اقتدار کے بھوکے عناصر متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555033 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More