تنزل پذیر معاشرے کی قندیل

ہم بطور معاشرہ تنزلی کی جانب گامزن ہیں۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ہماری عادات و اطوار اس کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ معاشرے کی تشکیل ہمیشہ اجتماعی رویوں سے ہوتی ہے اور پچھلے کچھ دنوں میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے ہمارے مجموعی رویوں کی جھلک یہ دکھانے میں بالکل کوتاہی نہیں برت رہی کہ ہم تنزلی کی کس سطح کو چُھورہے ہیں۔ اور یہ تنزلی ہماری ترقی میں کس طرح روڑے اٹکائے ہوئے ہے ۔

ہم لکیر کے فقیر بننے کو نہ صرف ترجیح دیتے ہیں بلکہ فخریہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ کچھ دن قبل جب امجد فرید صابری کو ہمیشہ کی طرح نامعلوم حملہ آوروں نے نشانہ بنایا تو یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلنا شروع ہو گئی اور بہت جلد یہ ایک عالمی سانحے کا روپ دھار گئی ۔ نجی ٹی وی پر پڑھا گیا ان کا نعتیہ کلام پوری دنیا میں دیکھے اور سنے جانے والے ویڈیو خاکوں میں سب سے اُوپر گردش کرنے لگا پوری دنیا کا منظر نامہ امجد صابری کے بہیمانہ طور پر نشانہ بنائے جانے کو لعن طعن کر رہا تھا ۔ پوری دنیا میں جن جن لوگوں نے امجد صابری کے ساتھ کام کیا تھا وہ ان کی تعریفوں میں رطب اللسان تھے۔ مغربی و ہندوستانی میڈیا ان کے فن کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے تھے۔ لیکن ہم اپنی ڈیڈھ اینٹ کی مسجد بنائے اس بحث میں الجھے ہوئے تھے کہ انہیں ہلاک کہا جائے یا شہید۔ ہم یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ امجد صابری کی ہلاکت میں شہادت کا پہلو نمایا ں ہے یا قتل ہونے کا۔ جب پوری دنیا ان کو خراج عقیدت پیش کر رہی تھی تو ہم ان کے لیے جنت یا دوزخ میں جانے کے حوالے سے اپنی ناقص عقل کے ساتھ بحث و مباحثے میں مصروف تھے۔ ہماری اس بحث سے بالاتر ہو کر دنیا نے دیکھا کہ امجد صابری کا جنازہ پاکستان کی تاریخ کے بڑے جنازوں میں سے ایک تھا۔ راقم بھی ایک عام قاری کی طرح ہی اس بحث سے بالاتر ہو کر کہ وہ جنتی تھا یا دوزخی بس یہ دیکھ رہا تھا کہ لوگ اس کی لاش کو اپنی اپنی ایمبولینس میں ڈالنے کے لیے لڑ رہے تھے۔ کیوں کہ دنیا نے دیکھنا تھا کہ کس ادارے کی ایمبولینس میں اس کا جسد خاکی رکھا گیا ہے۔ اس کے جنازے میں علماء، فنکار، کھلاڑی، سیاستدان سب ہی سیلفیاں لے لے کر دنیا کو یہ باور کروا رہے تھے کہ ہاں ہم نے امجد کا جنازہ پڑھا ہے۔ اور اتنے دن گزر جانے کے باوجود بھی امجد صابری ایک مقبول عنوانات میں ایک اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔

کچھ ایسا ہی دوبارہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب ایدھی صاحب داعیء ملک عدم ہوئے۔ پوری دنیا نے ان کو خراج عقیدت پیش کیا۔ ان کی خدمات کو سراہا جانے لگا۔ ان کے ہاتھوں کے لگائے گئے پودے کا ساتھ دینے کا عہد کیا جانے لگا۔ عالمی میڈیا میں ایدھی صاحب کی وفات کی خبر کو مرکزی سرخی میں جگہ دی گئی۔ کہیں کسی عالمی اخبار نے انہیں رحمت کا فرشتہ لکھا تو کسی نے ان کو پاکستانی فادر ٹریسا کا خطاب دیا۔ غرض یہ کہ ہر کوئی ان کی خدمات اور ان کی زندگی کو مشعل راہ بنا کر پیش کر رہا تھا۔ اور ہم پاکستانی۔۔۔۔ ان کے ہاتھوں کو باندھنے اور کھولنے پہ نوحہ گری کر رہے تھے۔ ہم خدمت کے اس عظیم مینار کو کسی نہ کسی مخصوص فرقے سے وابستگی ثابت کرنے پہ تلے ہوئے تھے۔ ہم ان کی وفات کے بعد بھی ان کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہ رہے تھے۔ کوئی ان کو کسی ایک لقب سے پکارنے پہ انہیں بعد از مرگ بھی تنقید کا نشانہ بنا رہا تھا تو کوئی انہیں حرامی بچوں کی نگہداشت پہ طعنوں سے نواز رہا تھا۔ سمجھ نہیں آتی جب حرامی بچے ہماری حرامکاریوں سے جنم لیتے ہیں تب معاشرہ نہیں چیختا لیکن جب کوئی ایدھی جیسا ان کو تحفظ دے کر معاشرے کا کار آمد شہری بنا دیتا ہے تو تب اسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہم اس بحث میں الجھ گئے کہ ایدھی ملحد ہے یا جنتی ۔ ہم نے یہ سوچنا گوارا نہیں کیا کہ وہ بس ایدھی تھا۔ وہ اپنے حصے کا کام کر گیا۔ چاہے اچھا کیا یا برا۔۔۔ ہم نے کیا کیا؟

چھ ماہ پہلے تک کون جانتا تھا کہ فوزیہ عظیم عرف قندیل بلوچ کون ہے ۔سوشل میڈیا پراپنی بولڈ وڈیوزسے شہرت حاصل کرنے اور ملکی و غیرملکی میڈیا کی خبروں کی زینت بننے والی ماڈل کے قتل کے بعد بھی مختلف آراء کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کوئی اُسے پاکستانی مردوں اور مولویوں کے لیے خطرہ تھی ،قرار دے رہا ہے اور کوئی اُسے غیرت کے نام پر قتل قرار دے رہا ہے۔ بعض لوگ اُس کے قتل کومولویوں اور مفتیوں کے گلے میں ڈال رہے ہیں۔ چینلز کی ریٹنگ کے لیے میڈیا کو آئے روز چٹخارے دار خبروں کی ضرورت تھی اور قندیل کو شہرت کی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ دونوں کی دکانداری چل رہی تھی۔اس ساری بحث میں جانے سے پہلے یہ سوچنا ضروری ہے کہ اُسے فوزی سے قندیل بنانے والا کون تھا؟ کیا یہی تنزل پذیر معاشرہ اس کا ذمہ دار نہیں جسکی بھینٹ وہ چڑھ گئی؟ کم عمری میں پڑھنے کی شوقین لڑکی کو زبردستی شادی کے بندھن اور اسکے بعد جاہل شوہر اور دیوروں کی مار پیٹ اور ماں باپ کی بے رُخی سے مایوس ہوکر دارالامان سے بس ہوسٹس، جنوبی افریقہ، دبئی اور نہ جانے کہاں کہاں کی خاک اس کے نصیب میں تھی او ر پیٹ کے ایندھن کے لیے اسے نہ جانے کتنے پاپڑ بیلنے پڑے ہونگے۔ سوال یہ ہے کہ تب کہاں تھی ان غیرت مندوں کی غیرت جب وہ اُسکی حرام کی کمائی استعمال میں لانے کے لیے بے قرارہتے تھے۔ افسوس !اس ملک میں ایک اور آواز تنگ نظری اوغیرت کے نام کی بھینٹ چڑھ گئی لیکن بے حس معاشرہ ہمدردی کے چند لفظ کہنے کوبھی تیار نہیں۔ اس کا کردار چاہے جیسا بھی تھا آخروہ انسان بھی تو تھی۔بے شک مردوں کے نہیں جنگلی جانوروں کے اس معاشرے نے اسے تماشا بنایا، حدیہ کہ پورا رمضان بھی یہ تماشا چلتا رہا ، پھر انہیں میں سے ایک نے اس تماشے کا ریموٹ کنٹرول آف کر دیا۔میڈیا کو افسوس تو ہوگا کہ نفسیاتی مریضوں کی تفریح طبع کی ایک بنی بنائی اور گھڑی گھڑائی خبر کم پڑ گئی۔ اب کوئی نئی قندیل، وینا، میترا یا ایان علی تلاش کرو تاکہ چینلز کی رینٹنگ بڑھائی جا سکے۔

ہم بطور قوم احسان فراموش ہیں۔ امجد صابری نے جب آقا ﷺ کی ثنا خوانی پوری دنیا میں کی تو اس نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ وہ کوئی آسمان سے ٹپکا ہوا ہے کہ جس نے نعت خوانی و نعت گوئی شروع کر دی ۔ بلکہ اس کے نام کے ساتھ پاکستانی کا لاحقہ جڑا رہا۔ اور جب وہ آنکھیں موندھ گیا تو ہمیں اس فکر نے گھیر لیا کہ اسے شہید کہیں یا ہلاک۔ ایدھی پوری زندگی پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان بنا رہا ۔ جہاں جاتا یہ وہ ایدھی ہے جو پاکستانی ہے۔ جہاں پوری دنیا میں سب سے بڑے نجی ایمبولینس کے نظام کی بات آتی پاکستان کا ذکر آتا ساتھ ایدھی کا نام آتا ۔ تو ایدھی نے کس کا نام روشن کیا ۔ صرف پاکستان کا۔ اور آج اس پاکستان نے اس کو کیا صلہ دیا؟ جس پاکستان کی گلیوں میں وہ لاوارث لاشیں اٹھاتا رہا۔ اسی پاکستان کے باسی اس کے جنازے کے لیے ایک نیشنل سٹیڈیم تک نہیں بھر پائے۔ جس معاشرے کے گناہ وہ گلیوں اور کوڑے کے ڈھیر سے اٹھا کر انہیں معاشرے میں اپنے نام سے روشناس کرواتا رہا۔ اس پاکستان کے لوگوں نے ہی اس کے لیے جنت و دوزخ کے فیصلے سنانا شروع کر دیئے۔ یہی کچھ اب ہم قندیل کی تربت بنائے جانے کے بعد کرینگے-

کسی بھی معاشرے کی تنزلی کی یہ علامات ہوتی ہیں کہ وہ اپنے قومی تشخص کو بھولنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور یہی ہم پاکستان کر رہے ہیں۔ کسی معاشرے کی تنزلی کی علامات میں سے ہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے قومی اہمیت کے لوگوں کو لعن طعن کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور ہم مجموعی طور پر ایسا ہی کر رہے ہیں۔ تنزلی کی علامت یہی ہوتی ہے کہ لوگوں کی زندگی میں ان کی شان میں قلابے ملاتے ہیں اور بعد از مرگ ان کی برائیاں گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔ اور ہم یہی کر رہے ہیں۔

معاشرے ہمیشہ اس وقت ترقی کرتے ہیں جب وہ اپنے اجتماعی رویوں میں تبدیلی لاتے ہیں اور برداشت پیدا کرتے ہیں۔ ورنہ وہ تاریخ کے گمنام گوشوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ ہمارے اجتماعی رویے بھی اس وقت ہم کو تنزلی کی جانب کھینچ رہے ہیں۔ اگر ہم نے ان میں تبدیلی لانا گوارا نہیں کی تو وہ وقت دور نہیں ہو گا جب تاریخ ہمارے نام سے بھی واقف نہیں ہوگی۔معاشرے تاریخ میں تب ہی نام و جگہ پاتے ہیں جب وہ مثبت تبدیلیوں کو اپنی شناخت بناتے ہیں۔
Shahzad Hussain Bhatti
About the Author: Shahzad Hussain Bhatti Read More Articles by Shahzad Hussain Bhatti: 180 Articles with 168045 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.