غالب کی شاعری کے چہار محاسن

محترم ادبی احباب میں نے یہ مختصر سا کالم ’’غالب کی شاعری کے چہار محاسن‘‘لکھا ہے یہ میری پہلی ادبی تحریری کاوش ہے پڑھ کر اپنی قیمتی آرا دیں نیز میں اس کو کسی اخبار یا ادبی رسالہ میں شائع بھی کروانا چاہ رہا ہو جن احباب کو اس بارے میں علم ہو برائے کرم رہنمائی فرما دیں۔
’’پوچھتے ہیں وہ کہ کون ہے غالب
کوئی بتلاو کہ ہم بتلائیں کیا؟‘‘
’’ہوگاکوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے
شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے‘‘
’’ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازہ بیاں اور‘‘
اشعار بالا و عنوان پڑھ کر آپ یقینا یہ جان گے ہونگے کہ میں اس عظیم شاعر کی شاعری پہ خامہ فرسائی کرنا چاہ رہا ہوں جس کی مقروض اردو زبان اور اس سے منسلک ہوکر ناموری کمانے والے شعرا،ادبا اور نقاد ہیں۔

گو کہ غالب کی شاعری پہ بے شمار ادبا و مشاہیر اپنے انداز سے تحریریں اوراق پہ ثبت کر چکے کر رہے اور کرئیں گے۔
غالب کی شخصیت و شاعری پہ لکھنا بلا شک وشبہ جوئے شیر لانے یا سورج کو چراغ دکھانے کہ مترادف ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کسی بھی شاعر کی شاعری کو سمجھنے یہ دوسرے الفاظ میں تلامیذہ الرحمن کی سخن وری کو جاننے کے لیے دو چیزوں سے شناسائی و آگائی بہت ضروری ہے
۱۔شاعر کے مجموعی حالات زندگی۔
۲۔جس عرصہ شاعر زندہ رہا اس عرصہ میں اس ملک کے حالات [جہاں شاعر رہا]اور دنیا کے حالات مجموعی
اگر وجوہات بالا کو مدنظر رکھا جائے تو غالب دونوں طرح سے مغلوب رہا۔
میرزا جی کے سات بیٹے و بیٹیاں پیدا ہوے کوئی بھی پندرہ مہینے سے زاہد بقایا حیات نا رہا
اسی وجہ سے میرزا جی کا یہ شعر انکے مصاب وآلام کو بیاں کرتا ہے
’’رنج سے خو گر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑئیں مجھ پرکہ آساں ہوگئیں‘‘
حتی کہ ایک بھتیجا عارف لے کر پالا
وہ بھی اٹھارہ سال سےپہلے ہی داعی اجل کو لبیک کہہ گیا اس وجہ سے میرزا صاحب نےایک مرثیہ کہا جس کا اک شعر یہ تھا
’’جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت ہےگویا کوئی دن اور‘‘
اور دوسری طرف مغلیہ خاندان کا سورج کئی دہائیوں کی آب و تاب کے بعد جانب زوال[غروب]روانہ تھا
بالاآخر ستاون کہ غدر کے بعد مغلیہ خاندان کا تخت سے تختہ بن گیا اور انگریز مکمل طور پر اس خطہ اراضی پہ قابض ہوگے۔
غالب اپنی شاعری میں پڑھنے والوں کو دعوت فکر دیتا ہے کہ لمحہ موجود میں مجھ پہ بیتےہوے حالات تھوڑی دیر کے لیے خود پہ نافذ کر کے میری شاعری پڑھیں اور تخیل میں لائیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں
’’ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا‘‘
اب بات ہو جائے غالب کی شاعری کے چہار محاسن پہ
ویسے تو غالب کی شاعری کثیر و ان گنت محاسن رکھتی ہے لیکن میں صرف چہار نکات پہ خامہ فرسائی کروں گا۔
۱۔تکرار الفاظ
’کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہاے اس روز پشماں کا پشماں ھونا‘
’محبت میں نہیں ھے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ھیں جس کافر پہ دم نکلے‘
’’جان دی،دی ہوئی اسکی تھی
حق تویوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘
اس کے علاوہ بھی غالب کہ کئی اشعار ہیں جن میں تکرار الفاظ موجود ہیں اور یہ غالب کی شاعری کا ایک خاصہ ہے
۲۔استہفامیہ انداز
’درد ھو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ھوں تو کیا کیجے؟‘
’دل ناداں تجھے ھوا کیا ھے
آخر اس درد کی دوا کیا ھے؟
’’دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں‘‘
غالب کی بعض پوری کی پوری غزل استہفامیہ انداز مراد انکی ردیف ہی کیوں،کب،کہاں،کیسے وغیرہ ہے
اور کچھ غزلوں کے اشعار بیک وقت تکرار الفاظ واستہفامیہ انداز میں ہیں۔
۳۔واحدنیت[واحدۃ الوجود و شھود]
’عشرت قطرہ ھے دریا میں فنا ھو جانا
درد کا حد سے گزرنا ھے دوا ھو جانا‘
’نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ھوتا تو خدا ھوتا
ڈبویا مجھ کو ھونے نے، نہ ھوتا میں توکیا ھو؟
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا‘‘
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ علامہ نے واحدۃ الوجود و شھود کے بنیادی فلسفہ کو سمجھنے کے لیے ان اشعار سے بھی لازمی رہنمائی لی ہو گی
[یقینا بعض غالب شکن اور علامہ کے نام نہاد مداحین اس کو مشکل سے ہی ہضم کر پائیں گے۔]
۴۔نقش بے پا
ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا‘
درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں، کہ ہم
الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
غالب کی شاعری کا چوتھا محاسن جسے ہم غالب تعلی بھی کہہ سکتے ہیں
یعنی غالب نے ان راستوں کو ڈھونڈ کر ان پہ چلنے کی کوشش کی ہے جن پہ پہلے کوئی نا گیا ہو
[اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے]
غالب نے خود کہا کہ میرا ستارہ دور افق میں عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے اس کو دیکھنے کے لیے ہمیں عقابی نظر چاہیے۔
آل وکیل
imran majeed
About the Author: imran majeed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.