سعدی کے قلم سے
اﷲ تعالیٰ ہم سب کو’’صبر جمیل‘‘ عطا فرمائے. ہمارے حضرت(رح) بھی چلے گئے.
انا للہ وانا الیہ راجعون.
کیا یہ خبر سچی ہے؟. سب لوگ یہی بتا رہے ہیں. کوئی بتا رہا ہے کہ ہم خود
نماز جنازہ میں شریک ہوئے. کوئی بتا رہا ہے کہ میں نے مرقد مبارک پر حاضری
دی ہے. یہ سب لوگ سچ ہی کہہ رہے ہوں گے. جی ہاں، بہت کڑوا سچ. ہم سب کے لئے
کڑوا مگر میرے حضرت(رح) کے لئے میٹھا.وہ تو معلوم نہیں کب سے سامان باندھے
بیٹھے تھے. موت کا تذکرہ یوں فرماتے تھے جیسے کوئی دلہن اپنے پیا کے گھر
جانے کو بے چین ہو. لوگ اُن کے جانے کی خبریں سنا رہے ہیں. ستائیس رجب کے
دن پونے چھ بجے محبوب حقیقی کا ذکر فرماتے فرماتے اُسی کے پاس چلے گئے.
اکتالیس سال بخاری شریف کا درس دیا اور اس سال بھی اپنا نصاب پورا پڑھایا.
اس سال ترمذی شریف کا درس بھی دیا. اور عمومی وقت سے پہلے طلبہ کرام کو
اجازت حدیث بھی عطا فرما دی. روزانہ صدقہ دینے کا معمول تھا، آخری دن بھی
یہ معمول نہ چھوٹا. اور بہت سے فضائل اور مناقب. یہ ساری باتیں یہی سمجھا
رہی ہیں کہ حضرت(رح) چلے گئے. سعدی فقیر نہ تو اُن کے دیدار کے لئے جا سکا
اور نہ اُن کے جنازے کو کندھا دے سکا. اور نہ اُن کے مرقد پہ حاضر ہو سکا.
یہی سوچا کہ زیادہ سے زیادہ ایصال ثواب کی کوشش کروں. اور اُن کی باتوں اور
یادوں کو الفاظ میں سمیٹوں. مگر کوئی کوشش کامیاب نہیں جارہی. کل بھی کاغذ،
قلم اور آنسو لے کر بیٹھا رہا. اور آج بھی کئی گھنٹوں سے گُم سم بیٹھا ہوں.
ایسا لگتا ہے کہ حضرت(رح) مسکراتے ہوئے سامنے آگئے ہیں. اور بس پھر میں اُن
کی یادوں میں ڈوبتا چلا جاتا ہوں. ملاقات کا محبت بھرا دلکش انداز. حال
احوال پوچھنے میں ایک عجیب سی میٹھی اپنائیت. اولیا سلف جیسی حقیقی تواضع.
بادشاہوں سے بڑھ کر استغنا. اظہار بندگی ایسا کہ ’’عبدیت‘‘ کا معنی سمجھ
میں آجائے. پھر درس قرآن کی مجلس میں علوم اور معارف کی موسلا دھار بارش.
ایمان افروز نصائح. اور انمول علمی نکتے. اور سب سے بڑھ کر خلوت کی ملاقات.
اُن ملاقاتوں کی چاشنی تو شاید مر کر بھی نہ بھولے. ان ملاقاتوں میں بس تین
ہی موضوع ہوتے تھے.
﴿۱﴾ اﷲ جلّ شانہ کی محبت، معرفت، ادب کا تذکرہ.
﴿۲﴾ ذات نبوت ﷺ سے عشق و وفا کی باتیں.
﴿۳﴾ ہر طرح کے حالات پر شُکر گزاری کی نصیحت.
واقعی’’حضرت(رح) ‘‘ ہم سب کے لئے اﷲ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام تھے. اور اگر
یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ حضرت(رح) اپنے زمانے میں اپنی مثال آپ
تھے. اﷲ تعالیٰ نے اُن کو دو چشموں کا وارث بنایا. ایک علم کا چشمہ جو
انہیں اپنے والد صاحب(رح) اور اپنے علمی خاندان سے نصیب ہوا. مولویوں والا
یہ خاندان علم دین کی آبرو ہے. اور حضرت(رح) نے اپنی مسند نشینی کے زمانے
میں اس خاندان کے علمی رنگ کو مزید گہرا فرمایا. اور اس کے فیض کو دور دور
تک پھیلایا. ایک بار خلوت کی ملاقات میں ارشاد فرمایا. لوگوں کی مخالفت سے
پریشان اور اُداس نہ ہوا کرو. دیکھو! میری کتنی مخالفت بعض لوگوں نے کی.
مگر میں نے کسی کو جواب نہ دیا، آج اﷲ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ بلوچستان
کے چالیس مدرسوں کے مہتمم میرے شاگرد ہیں. آپ(رح) کا خاندان علوم و فنون
میں ایک مثالی شہرت رکھتا ہے. مگر حضرت(رح) نے تین علوم کو زیادہ توجہ دی.﴿۱﴾
علم تفسیر﴿۲﴾ علم حدیث﴿۳﴾ علم فرائض﴿میراث﴾
آپ کا دورۂ تفسیر اور دورۂ حدیث بہت عجیب شان کا ہوتا تھا. بندہ نے جب
بھی آپ کے کسی درس میں شرکت کی تو ہمیشہ آپ کی علمی شان سے بے حد متاثرہوا.
بیس پچیس سال کتابوں کی ورق گردانی سے ہم خود تو عالم نہیں بن سکے مگر
الحمدﷲ اس کی پہچان نصیب ہوگئی ہے کہ کون عالم ہے اور کون صرف مدّعی.
حضرت(رح) ماشا اﷲ بہت راسخ العلم اور متبحّر عالم تھے. اور علم آپ کے رگ و
پے میں سرایت کر چکا تھا. ابھی تین سال سے نظر کی کمزوری کا عارضہ لاحق
تھا. مگر اس کے باوجود آپ تمام اسباق زبانی پڑھا رہے تھے. ایک ملاقات میں
ارشاد فرمایا تھا. جب سبق پڑھانے بیٹھتا ہوں تو جوان ہو جاتا ہوں. اور میری
جوانی دیکھنے لائق ہوتی ہے. علم تفسیر کے ساتھ آپ کو عشق تھا. آپ نے عربی
میں تفسیر بدیع اور اردو میں تفسیر کوثری تصنیف فرمائی. اﷲ تعالیٰ ان
تفاسیر کا فیض پورے عالم میں جاری فرمائے. دوسرا چشمہ جس کا وارث اﷲ تعالیٰ
نے آپ کو بنایا وہ ’’معرفت‘‘ کا ہے. آپ قطب الاقطاب حضرت مولانا حماد اﷲ
ہالیجوی(رح) کے باقاعدہ خلیفہ مجاز تھے. حضرت ہالیجوی(رح) کے مقام کو
سمجھنے کے لئے حضرات اکابر کے چند ملفوظات ملاحظہ فرمائیے:
﴿۱﴾ شیخ الاسلام حضرت مدنی(رح) نے حضرت ہالیجوی(رح) سے فرمایا: حضرت! اگر
آپ دارالعلوم دیوبند تشریف لے آئیں تو آپ کا ہم پر بے حد احسان ہوگا، ہم آپ
سے روحانی فیض حاصل کرتے، آپ سے معرفت الہٰی اور تعلق باﷲ کے اسباق سیکھتے۔
﴿۲﴾ حضرت علامہ بنوری(رح) فرماتے ہیں: حضرت ہالیجوی(رح) متقدمین صوفیائ کی
صف کے فرد ہیں، تصوف میں اُن کا مقام بہت بلند ہے۔
﴿۳﴾حضرت امیر شریعت مولانا عطائ اﷲ شاہ بخاری(رح) فرماتے ہیں: حضرت
ہالیجوی(رح) کے دل پر گناہ کا تصور بھی نہیں آتا تھا، حضرت کا قلب مبار ک
ہمیشہ ذات ِ الہٰی کی محبت میں مشغول رہتا تھا۔
﴿تذکرہ مشائخ سندھ ص ۱۲۵﴾
حضرت بنوری(رح) پابندی سے حضرت ہالیجوی(رح) کی خدمت میں حاضری دیتے تھے.
اور اپنے جامعہ کے اساتذہ کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے. ہمارے حضرت(رح) نے
حضرت ہالیجوی(رح) کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دیا. اور پھر غلاموں کی طرح اُن
کی اتباع کی. اور اﷲ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے لئے وہ محنتیں اور
مجاہدے اٹھائے کہ اس زمانہ میں اُن کا تصور بھی محال ہے. خلوت کی ملاقاتوں
میں آپ کبھی کبھار اپنے ’’سفرِ معرفت‘‘ کا تذکرہ چھیڑتے تو دل حیرت اور
عقیدت میں ڈوب جاتا. فرماتے تھے کہ میں زمین میں گڑھا کھود کر اس میں بیٹھ
جاتا اور پھر گھنٹوں ذکر اﷲ میں ڈوبا رہتا. حضرت ھالیجوی(رح) بہت بلند پایہ
عالم بھی تھے. انہوں نے اپنے اس وفادار اور جانثار مرید پر خصوصی توجہ
فرمائی. اور بالآخر سند کمال سے نوازہ. حضرت(رح) کو اپنے شیخ سے فنا درجے
کا عشق تھا. شاید ہی کوئی مجلس اُن کے تذکرے سے خالی جاتی ہو. اور تو اور
اگر سندھ سے کوئی طالب علم آجاتا تو اُس کا بھی بہت اکرام فرماتے کہ یہ
میرے شیخ اور حضرت کے علاقے کا ہے. ایک ملاقات میں ارشاد فرمایا.
جب میں نے تفسیر کوثری لکھی تو بعض مخالف علما نے بھی اعتراف کیا کہ یہ
حضرت ہالیجوی(رح) کا فیض ہے. ویسے تو آپ سلاسل اربعہ میں کامل تھے. مگر
زیادہ رجحان سلسلہ قادریہ کی طرف تھا. اور اسی سلسلہ کے اسباق کی تعلیم
فرمایا کرتے تھے. اﷲ تعالیٰ نے آپ کو بہت سی علمی، عملی اور روحانی خوبیوں
سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا. آپ کو حدیث شریف کی ایک’’قُربی سند‘‘ بھی نصیب
ہوئی تھی. آپ نے اس مبارک سند کا فیض عرب و عجم کے اہل علم میں پھیلایا. آپ
نے خدمتِ قرآن مجید کے لئے ایک نیا سلسلہ ’’تفسیری‘‘ قائم فرمایا. آپ اس
سلسلہ کے بانی اور سرپرست تھے. آپ کا آبائی مدرسہ’’مولویاں والی بستی‘‘ میں
قائم تھا. آپ(رح) نے دین کی اشاعت کے لئے رحیم یار خان شہر کو عزت بخشی.
اور اپنی موروثی جائیداد بیچ کر یہاں ایک مقبول اور مستند دینی ادارہ قائم
فرمایا. آپ(رح) فریضہ جہاد فی سبیل اﷲ سے بے پناہ محبت فرماتے تھے اور اپنی
مجالس میں اپنے شوق شہادت کا والہانہ اظہار کرتے تھے. حضرت(رح) کا ہم پر
بڑا احسان تھا کہ آپ نے ہماری جماعت کو روزِ قیام سے اپنی محبت اور سرپرستی
سے نوازہ. بہت سے اہم معاملات میں خصوصی رہنمائی فرمائی. اور بہت سے مشکل
مقامات پر اپنی توجہ اور دعاؤں سے سہارا دیا. حضرت(رح) کے تشریف لے جانے
سے دل بہت غمگین اور بے چین ہے. انا للہ وانا الیہ راجعون. اللھم لاتحرمنا
اجرہ ولا تفتنابعدہ.
برادر مکرّم حضرت مولانا محمد خلیل اﷲ صاحب مدظلہ اور اُن کے بھائیوں اور
رشتہ داروں کے غم کا ہمیں کچھ اندازہ ہے. ہم اُن سے تعزیت کرتے ہیں. اور وہ
ہم سے تعزیت کریں. اور سب مل کر حضرت(رح) کے کام کو جاری رکھنے کی کوشش
کریں.
قارئین بھی. امام التفسیر حضرت مولانا محمد شریف اﷲ نوراﷲ مرقدہ
کے لئے ایصال ثواب اور دعا کا اہتمام فرمائیں. انشا اﷲ جب دل کا بوجھ ہلکا
ہوا تو حضرت(رح) کی بہت سی باتیں. آپ سب تک پہنچانے کی کوشش کروں گا. یا
اﷲ. یا ارحم الراحمین. ہمارے حضرت(رح) کے درجات بلند فرما اُن کو فردوس
اعلیٰ کا مقام نصیب فرما. اُن کے دینی ادارے، دینی خدمات. اور اہل و اولاد
کی حفاظت فرما. اور ہمیں حضرت(رح) کے فیوض سے محروم نہ فرما.
آمین یا ارحم الراحمین
اللھم صل علی سیدنا محمد النبی الامی والہ وبارک وسلم عدد کل معلوم لک
دائما ابدا. |