فضائل اہلِ بیت

قائم ہو بدن سے جب کفن کی نسبت
چہرے سے عیاں ہو پنج تن کی نسبت
یا رب مری تقدیر میں لکھ دے تا حشر
زہرا (رض) و حسین (رض) اور حسن (رض) کی نسبت

خالقِ کائنات کا صد شُکر و ہزارہا احسان اور میری خوش نصیبی ہے کہ اہل بیتؓ و اطہار کی مدح خوانی کا شرف حاصل ہوا۔

اُس ذاتِ پاک کا ہوں دل و جاں سے میں غلام
دعویٰ غلط نہیں ہے، مگر ڈر کے ساتھ ہے

پنجتن پاکؓ کی برکت و ایثار کے سبب رب ذوالجلال نے اسلام کو سربلندی عطا فرمائی۔ ایسا کیونکر نہ ہو کہ توحید و رسالت کا درس ہو یا جرات و شجاعت کا، حق گوئی کی بات ہو یا عہد و وفا کی پاسداری کی، سخاوت و ایثار کا بیان ہو یا عزم و استقلال کا، جبر و نخوت کے خلاف جنگ کا ذکر چلے یا حق و باطل میں تمیز کا تو یقیناً تصور میں پنجتن پاکؓ کے گھرانہ ہی آتا ہے۔ کیونکہ یہ تمام اوصافِ حمیدہ پنجتن پاکؓ کے گھرانے کا ہی خاصہ ہیں۔

اُن کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں
''آیۃ تطہیر'' سے ظاہر ہے شانِ اہل بیتؓ

اگرچہ یہ ایک طویل بحث ہے تاہم جمہور علماء کرام کے مطابق اہل بیتؓ سے مُراد پنجتن پاکؓ کا گھرانہ ہے۔ مسند احمد، ترمذی، درمنشور سیوطی، المنذو حاکم میں ہے کہ '' انسؓ بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ چھ مہینے تک حضرت فاطمۃالزہراؓ کے دروازے پر جا کر فرماتے رہے۔

" الصلوۃ یا اہل بیت انما یریداللہ لیذھب عنکم الرجس اھل بیت و یطہرکم تطہیرا''

ایسے ہی طبقات ابن سعد، تفسیر ابن ابی حاتم، طبرانی میں ہے کہ حضرت امام حسنؓ فرماتے ہیں کہ
'' ہم لوگ وہ اہل بیت ہیں جن کے حق میں آیت تطہیر نازل ہوئی''۔

مصداقِ فضلِ آیہ تطہیر، بالخصوص
زہراؓ و حیدرؓ و حسنینؓ اند و مجتبیؓ

قرآن مجید او اہل بیتؓ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ قرآن مجید نے بہت سے مقامات پر اہل بیتؓ کی فضیلت بیان کی اور ایسے ہی احادیث مبارکہ و اکابرین سلف و خلف کے ارشادات سے بھی اہل بیتؓ کی فضیلت و محبت جھلکتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید و احادیث مبارکہ اور سلف صالحین کے ارشادات کی روشنی میں اہل بیتؓ کی محبت فرضیت کا درجہ رکھتی ہے تو برحق ہے۔

حضرت علامہ جلال الدین سیوطی ؒ کی مشہور تصنیف در منثور میں حضرت ابن عباسؓ سے یوں مروی ہے، انصاری صحابہ فرماتے ہیں۔ کہ اہل بیتؓ نبوت نے ہم لوگوں کے قول و فعل سے فخر محسوس کیا۔ تو حضرت عباسؓ نے فرمایا کہ ہمیں تم لوگوں پر فضیلت حاصل ہے۔ جب یہ بات رسول اکرمﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ ان لوگوں کی مجلس میں تشریف لے گئے۔ اور فرمایا اے گروہِ انصار کیا تم لوگ بے عزت نہیں تھے تو اللہ تعالیٰ نے تمھیں میرے ذریعہ عزت عطا فرمائی؟ انصار نے عرض کیا۔ ہا ں یا رسول اللہ ﷺ ! حضورﷺ نے فرمایا کیا تم مجھے جواب نہیں دیتے؟ انصار نے عرض کیا حضورؐ ہم کیا کہیں؟ فرمایا کیا تم لوگ یہ نہیں کہتے کہ کیا آپؐ کی قوم نے آپؐ کو نہیں نکال دیا تھا تو ہم نے آپؐ کو پناہ دی؟ کیا اُنھوں نے آپﷺ کو نہیں چھوڑ دیا تھا تو ہم نے آپؐ کی امداد کی؟ حضور ﷺ اسی طرح فرماتے رہے یہاں تک کہ انصار گھٹنوں کے بل کھڑے ہو گئے اور عرض کیا '' اَموالنا وما فی ایدینا لللہ و رسولہ''۔

یعنی ہمارے مال اور ہماری سب ملکیت اللہ اور اُس کے رسول کے لئے ہے تو یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی '' قل لا اسئلکم علیہ اجرا الاالمودۃ فی القربیٰ'' در منثور میں اور بہت سے دیگر مفسرین نے اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابنِ عباسؓ سے نقل کیا کہ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ ! آپؐ کے وہ کون سے رشتہ دار ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ فرمایا علیؓ، فاطمہؓ اور اُن کی اولاد رضی اللہ تعالی عنھم۔

اسی طرح آیۃ '' و اعتصمو بحبل اللہ جمعیا ولا تفرقو(اور مضبوطی سے پکڑ لو اللہ کی رسی سب مل کر اور جُدا جُدا نہ ہونا) کے تحت صواعق محرقہ میں ہے کہ'' جناب امام جعفرؓ صادق فرماتے ہیں کہ حبل اللہ سے ہم لوگ یعنی اہل بیتؓ مراد ہیں''۔

قرآن پاک کی ایک اور آیت '' ولسوف یعطیک ربک فترضی'' (اور بے شک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے) کے بیان میں قرطبی اور ابن جریر، حضرت ابنِ عباسؓ سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ اس بات سے راضی ہو گئے کہ اُن کے اہل بیتؓ میں سے کوئی دوزخ میں نہ جائے گا۔ (صواعق محرقہ، مناقب ابن المغازلی، سیوطی)۔

دنیائے تجلّیا ت ملتی ہے اُسے
کیا ذکرِ صفات، ذات ملتی ہے اُسے
ممکن نہیں ہر کسی کو اِس کا ملنا
جو اُن پہ مَرے، حیات ملتی ہے اُسے

ابن مردویہ، در منثور و کنز العمال میں قرآن پاک کی سورۃ رعد کی آیت '' الا بذکراللہ تطمعن القلوب'' (اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے) کے تحت جناب حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی کریمﷺ نے فرمایا '' یہ دل وہ ہیں جو اللہ، رسول اور اہل بیت سے سچی محبت رکھتے ہیں جھوٹ کا ان میں دخل نہیں ہوتا''۔
اللہ، اہل بیتِ پیغمبر ؐ کے ساتھ ہے
اسلام کا وقار اِسی گھر کے ساتھ ہے
آلِ نبیؐ کو ذاتِ نبیؐ سے جُدا نہ مان
ہر موج کا وجود سمندر کے ساتھ ہے

یوں توْ قرآن پاک میں جا بجا فضیلت اہل بیت بیان کی گئی ہے مگر یہاں قرآن پاک کی چند مزید آیات بیان کرنے کے بعد احادیث مبارکہ کی روشنی میں اہل بیتؓ کی فضیلت کا مطالعہ کریں گے۔

سورۃ نور کی 36 ویں آیت ہے '' فی بیوت اذن اللہ ۔ ۔۔ ۔ ۔ الخ '' (ان گھروں میں حکم دیے ہیں اللہ نے کہ بلند کئے جائیں اور لیا جائے ان میں اللہ تعالیٰ کا نام۔ اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں ان گھروں میں صبح اور شام)۔

سیوطی اور منشور میں اور ابن مردویہ اپنی مسند میں حضرت انسؓ اور حضرت بریدہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ '' جب آپؐ نے یہ آیت پڑھی تو ایک شخص نے پوچھا '' یا رسول اللہ ﷺ ، یہ کون سے گھر ہیں؟ آپ ؐ نے فرمایا '' یہ انبیا ؑ کے گھر ہیں '' ۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ نے جناب علیؓ اور حضرت فاطمۃالزھراؓ کے گھر کے بارے میں دریافت کیا '' کیا یہ گھر انہی میں سے ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا '' یہ ان میں سے بہترین گھروں میں سے ہے"۔

وہ اک مکاں کہ جسکا مکیں بابؓ علم تھا
اپنا تو رابطہ ہی اُسی گھر کے ساتھ ہے
Tanveer
About the Author: Tanveer Read More Articles by Tanveer: 5 Articles with 13983 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.