ریزرویشن کسی کی وراثت نہیں....

جموں وکشمیر ہائی کورٹ جموں ونگ کے ڈویژن بنچ نے 9اکتوبر2015کو ایک تاریخی فیصلہ میں کہاکہ جموں وکشمیر کے اندر پرموشن میں ریزرویشن کا فائیدہ نہ دیاجائے ۔ عدالت عالیہ نے جموں وکشمیر ریزرویشن ایکٹ2004کی سیکشن 6 اور جموں وکشمیر ریزرویشن رولز 2005کے رولز 9, 10اور34کوبھی کالعدم قرار دیا۔ یہ فیصلہ عدالت نے AEسے AEEاور AEEسے XENsکی پرموشن کو چیلنج کرنے سے متعلق دائر متعدد عرضیوں پر سنایاتھا۔ جسٹس حسنین مسعودی اور جسٹس جنک راج کوتوال پر مشتمل عدالت عالیہ کے ڈویژن بنچ کی طرف سے سنایا گیا یہ تاریخی فیصلہ ہے جس کو اگر وسیع تناظر میں دیکھاجائے تو اس کی عمل آوری سے سب کی بہتری ہے۔ اس فیصلہ کے خلاف مخصوص طبقہ جات بالخصوص درجہ فہرست قبائل(ST)اور درجہ فہرست ذاتوں(SC)سے وابستہ نہ صرف گزیٹیڈ، نان گزیٹیڈ کے علاوہ درجہ چہارم ملازمین نے زبردست تحفظات کا اظہار کیابلکہ مختلف سیاسی جماعتیں بھی ان کے حق میں آئیں۔ حزب اختلاف نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے اس کے خلاف احتجاجی دھرنوں کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔ حزب اختلاف کے لئے سیاست کرنے کیلئے یہ ایک اہم مدعا بن گیا ہے جس کو وہ کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتیں۔ اس کی مثال گذشتہ روز پونچھ میں پرموشن میں ریزرویشن کا فائیدہ نہ دیئے جانے سے متعلق عدالت عالیہ کے فیصلہ کیخلاف ایس ٹی /ایس سی ملازمین کی طرف سے منعقدہ ایک ریلی میںدیکھنے کو ملی جہاں پر موجودہ متعدداراکین قانون سازیہ کے علاوہ کئی سرکردہ شکست خوردہ سیاسی لیڈران بھی ایک ہی پلیٹ فارم پر نظر آئے جنہوں نے لمبی چوڑی تقریریں کر کے خوب واہ واہ بٹوری ۔ آئین ہندکے پارٹ تھرڈ میں بنیادی حقوق کے زمرہ میںریزرویشن کو خاص طور سے اس مقصد سے لایاگیا تھا کہ سماجی وتعلیمی طور پسماندہ طبقہ جات کو دیگر ترقی یافتہ طبقوں کے شانہ بشانہ زندگی گذارنے کا موقع فراہم کیاجائے لیکن ریزرویشن کا مقصد تو پورا نہیں ہوا البتہ اس کا غلط استعمال ضرور کیاگیا۔ ریزرو طبقہ جات سے وابستہ جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کو تعلیم کیلئے ریزرویشن کے تحت سکالرشپ ملتا ہے، اعلیٰ تعلیمی وپیشہ وارانہ اداروں میں ریزرویشن کی بنیاد پر داخلہ ملتا ہے۔ ریاستی وملکی سطح کے تقابلی امتحانات میں ریزرو کٹاگری کی بنیاد پر سلیکشن ہوتی ہے اور پھرسرکاری ملازمت بھی ریزرویشن کی بنیاد پر....پرموشن بھی ریزرویشن کی بنیاد پر ہو۔ اس شخص کی اولاد مشہور ومعروف اور مہنگے ترین نجی تعلیمی اداروں دہلی پبلک سکول،بیسکو سکول، سیٹ پیٹرز،کے سی پبلک سکول، ایس پی سمارٹ، کرائس سکولوںمیں تعلیم حاصل کر نے کے علاوہ مہنگے مہنگے ٹیوشن سینٹر ز سے ٹیوشن حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ریزرویشن کے تحت سکالر شپ بھی حاصل کریں اور پھر ملازمت بھی ریزرویشن کی بنیاد پر پائیں ۔موجودہ ریزرویشن نظام سے تو بظاہر ایسے لگ رہا ہے کہ اس کو ایک خاندانی وراثت تصور کیاجارہاہے۔ کہ دادا ریزرویشن کے تحت حاصل مراعاتوں کا فائیدہ اٹھاکر اعلیٰ عہدے پر فائض ہوا پھر، اس کے بیٹا اور آگے پوتا بھی ریزرویشن کی لاٹھی کا سہار ا لیکر چلے۔ ریزرویشن کی ہر دس برس کے بعد نظرثانی بھی کرنی ہوتی ہے لیکن ہندوستان میں ایسا نہیں ہورہا کیونکہ ریزرویشن اس وقت سیاسی جماعتوں کیلئے ایک بہت بڑا ’ووٹ بنک سیاست‘کا مدعا بن چکی ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک گزیٹیڈ ملازم جوریزرویشن کی بیساکھی کا سہارا لیکر یہاں تک پہنچا، اس کی اولاد بھی ریزرویشن کے مزے لوٹے۔اس کو ہندوستان کا المیہ کہے کہ یہاں ریزرویشن کا سہارا لیکر ڈی سی، ایس پی، پروفیسر ، لیکچرر، ڈاکٹر اور انجینئرز جیسے وقاری عہدوں پر فائض ہونے والے افسران کے بیٹے، بیٹیاں بھی ریزرویشن حاصل کر رہی ہیں۔ ریزرو کٹاگری کا فائیدہ اٹھاکر جب ایک شخص سرکاری نوکری حاصل کرتا ہے تو وہ اقتصادی طور مستحکم ہوجاتا ہے اور اہ اپنی اولاد کو عصر حاضر کے ساتھ ساتھ جدید ترین تعلیم کے زیور سے آراستہ کرانے کے علاوہ انہیں جینے کیلئے ایک بہترین ماحول فراہم کرسکتا ہے۔ ریزرویشن اگر ہوبھی تو یہ صرف یکمشت ہونی چاہئے یعنی کے ایک شخص کو اس کا صرف ایک ہی مرتبہ فائیدہ ملے چاہئے وہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرئے یا پھر نوکری پائے۔ ہر جگہ ریزرویشن ریزرویشن کا سہارا لینا جنرل کٹاگری ،جس کی شرح 60فیصد مجموعی آبادی ہے، کے ساتھ سراسر نا انصافی اور ان کے حقوق پر شب خون ماری ہے۔ تمام تر نظریات اور وابستگیوں سے بالاتر ہوکر قانون دانوں کو اس ملک وریاست کی ہمہ جہت ترقی کیلئے یکجا اور متحدہوکر اس بات کی وکالت کرنی چاہئے کہ ریزرویشن ذات ونسل کی بنیاد پر نہ ہوبلکہ بلالحاظ رنگ ونسل، ذات پات ان سب لوگوں کو ملے جن کی اقتصادی حالت بہتر نہیں ہے۔ آئین ہند کے پارٹ تھرڈ کے تحت بنیادی حقوق زمرہ میں ریزرویشن کو لانے کا ہندوستان اور جموں وکشمیر کے اندر سیاسی جماعتیں غلط فائیدہ اٹھارہی ہیں جوکہ اس کو ووٹ بنک سیاست کے طور استعمال کر کے اپنا الو سیدھا کر رہی ہیں۔ ذات پات کی بنیاد پر ریزرویشن دیئے جانے سے ذات پرستی، فرقہ پرستی نے جنم لیا ہے جوکہ ملک وریاست کی یکجہتی و اتحاد کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔کوئی بھی سروے یا تحقیق اس دلیل کو غلط ثابت نہیں کرسکتی کسی مذہب ، ذات ، رنگ ونسل سے وابستہ لوگوں کی مکمل طورسماجی ، تعلیمی واقتصادی حالت مستحکم ہے۔ جموں وکشمیر ریاست کے اندر مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی، گوجر بکروال، پہاڑی، کشمیری ، ڈوگرہ حتیٰ کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے ،جو بڑی مشکل سے اپنا وقت گذار رہے ہیں، ان کے لئے ضروریات زندگی کو پورا کرنا، تعلیم حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جن طبقہ جات کو ریزرویشن کے زمرہ میں لایاگیا ہے، ان میں سے بھی 90فیصد لوگوں کی حالت جوں کی توں ہی نہیں، صرف 5سے10فیصد لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ریزرویشن کانہ صرف بھرپور استعمال کیا ہے بلکہ اس کے تحت سرکار ی خزانہ کو خوب لوٹا ہے۔ حالیہ عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے حالیہ فیصلوں کو وسیع ترتناظر میں دیکھاجانا چاہئے ۔ ان فیصلوں کی مخالفت کے بجائے فوری عمل آوری کے حق میں آواز بلند کی جائے کیونکہ اس سے بڑے پیمانے پر ہر ایک کا فائیدہ ہے۔ ہر معاملہ کو سیاست کی نظر کرنا بھی ٹھیک نہیں۔
Altaf Hussain Janjua
About the Author: Altaf Hussain Janjua Read More Articles by Altaf Hussain Janjua: 11 Articles with 6554 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.