شہیدوں کے زخم کبھی نہیں بھرتے کیونکہ

 مسجد نبوی میں ایک عظیم الشان مجلس برپا تھی ۔نبی کریم ﷺ منصب صدارت پر تشریف فرما تھے۔ صحابہ کرام اور اولیاء اﷲ سے مسجد نبوی بھری ہوئی تھی ۔میں بھی ایک کونے میں بیٹھا یہ پرکیف روحانی منظر دیکھ رہا تھا۔ سب کے سروں پر سفید رنگ جبکہ نبی کریم ﷺ کے سر مبارک پر سبز رنگ کی دستا ر تھی ۔اچانک ایک غیبی آواز نے مجھے چونکا دیا ۔قاضی ریاض تم بھی اپنے سر پر دستار باندھ لو ۔ پھر سرخ رنگ کی ایک دستا ر مجھے عالم غیب سے دی گئی ۔جونہی میں نے دستار پہنی تو میں سب میں نمایاں ہوگیا ۔ میری آنکھوں سے خوشی کے آنسوبہہ ہی رہے تھے کہ خواب کا منظر ختم ہوگیا ۔ یہ بات کیپٹن قاضی جواد شہید کے والد قاضی ریاض نے مجھے اس وقت سنائی جب میں بیٹے کی شہادت پر اظہار تعزیت کے لیے انکے گھر پہنچا ۔ایک ہجوم بیکراں گھر میں موجود تھا۔ کیپٹن قاضی جواد کی والدہ ثمینہ ریاض کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی وہ بار بار شہیدبیٹے کے میڈل اور کیپ پکڑ کر سینے سے لگاتی اور بے ساختہ چومنے لگتی ۔ان کا دل ٗ زبان اور جسم سب بیٹے کی جدائی میں نڈھال تھے ۔لوگ انہیں حوصلہ دے رہے تھے وہ کہتی میرا تو حوصلہ ہی جواد تھا۔ نہ جانے اس کے بغیر میں زندہ کیسے رہوں گی۔ ابھی دو دن پہلے کی بات تھی کہ ہم سب ٹی وی پر کارگل کے شہیدوں کا پروگرام دیکھ رہے تھے تو اسی شام بیٹے جواد کا فون آیا اور کہا امی جان آپ پریشان مت ہونا ہم توشہادت کے لیے ہی آرمی میں شامل ہیں ۔نوکریاں تو اور بھی بہت ہیں لیکن جو مزا اور اعزاز وطن عزیز پر قربان ہونے کا ہے وہ کسی اور جگہ نہیں ہے۔ جواد نے پھر کہا امی جان وہ شخص اپنی قسمت پر ناز کرتا ہے جس کو شہادت ملتی ہے ۔ میں خواب میں خود کو کئی مرتبہ شہید ہوتا دیکھ چکا ہوں میری منزل بھی شہادت ہی ہے ۔ ماں سے کیپٹن جواد کی یہ آخری ملاقات تھی ۔ 26جولائی 1999ء کا سورج طلوع ہوا تو وادی کارگل کی برف پوش چوٹیوں پر ایک عجیب روحانی منظر طاری تھا۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے کیپٹن جواد اپنے جوانوں کے ساتھ دشمن سے برسرپیکار تھے ۔ دشمن اندھادھند گولہ باری گرتا ہوا آگے بڑھتا پھر کیپٹن جواد اور پاک فوج کے فولادی جذبوں سے ٹکرا کر واپس بھاگ جاتا۔ اس پوسٹ کے کچھ ہی فاصلے پر واقع ارشد نامی پوسٹ پر لیفٹیننٹ فیصل ضیاگھمن اور ان کے ساتھی دشمن کی گولہ باری کی زد میں آکر شہید ہوچکے توموقعہ غنیمت جان کر بھارتی فوج نے اس پر قبضہ کرلیا ۔ جونہی ہائی کمان تک ارشد پوسٹ پر بھارتی قبضے کی خبر پہنچی تو کیپٹن جواد کو ارشد پوسٹ واپس حاصل کرنے کا ٹاسک ملا ۔ بے شک یہ بہت مشکل اور دشوار معرکہ تھا لیکن کیپٹن جواد اوران کے ساتھیوں نے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے شدید ترین اور دست بدست جنگ کے بعد ارشد پوسٹ پر قبضہ کرکے سبز ہلالی پرچم لہرا دیا ۔ابھی اس کامیابی کی خوشی کم نہ ہوئی تھی کہ ہائی کمان کی جانب سے کارگل کی ان پوسٹوں کو خالی کرکے واپس آنے کا حکم مل گیا جن پرپاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے سخت ترین موسم اور بدترین دشمن سے لڑتے ہوئے قبضہ کیاتھا ۔ایک جانب دشمن کی مسلسل فائرنگ تو دوسری جانب بلند و بالا اور خطرناک پہاڑی چوٹیوں سے ہتھیاروں سمیت نیچے اترنامشکل ترین مرحلہ تھا ۔ جونہی پسپائی کا یہ عمل مکمل ہوا تو سبز ہلالی پرچم پوسٹ پرہی لہراتا رہ گیا۔ قومی پرچم کو اتارنے کا ٹاسک ایک بار پھر کیپٹن جواد کے سپرد کیا گیا ۔ کیپٹن جواد دو ساتھیوں کے ہمراہ ایک بار پھر برستی گولیوں میں برفانی چوٹی پر چڑھنے لگے ۔ انہوں نے پرچم کو سلیوٹ کرکے اتارا اور جونہی اپنے دامن سے پرچم کو لپیٹ کر نیچے اترنے لگے تو بھارتی توپ کاایک گولہ ان کے قریب آگر ا جس کے ٹکڑے کیپٹن جواد کے جسم میں پیوست ہوگئے ۔جسم سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے ٗ ساتھیوں نے سہارا دے کر پہاڑی سے نیچے تو اتار لیا لیکن زیادہ خون بہنے کی وجہ سے وہ جام شہادت نوش کرگئے ۔ جونہی جی ایچ کیو سے کرنل سجاد کا فون قاضی ریاض کو موصول ہوا تو انہیں چند دن پہلے دیکھا ہوا مسجد نبوی کا وہ خواب یاد آگیا جس میں انہیں کہا گیا تھا کہ قاضی ریاض تم بھی دستار پہن لو اور انہیں سرخ رنگ کی دستار پہننے کے لیے دی گئی تھی ۔ بے شک شہادت ایک عظیم انعام ہے لیکن بحیثیت انسان بیٹے کی شہادت کا غم قاضی ریاض کو دیمک کی طرح چاٹنے لگا۔ وہ بظاہر تو مسکراتے ہوئے شہید بیٹے کی داستان شجاعت سناتے لیکن دل ہی دل میں نہ جانے کب تک روتے رہتے ۔ وہ ہر سال 26 جولائی کو بیٹے کی شہادت کی یاد کو تازہ کرنے کے لیے ختم پاک کا اہتمام کرتے ۔ اسی دوران قاضی ریاض کے داماد کیپٹن ساجد سے ملاقات ہوئی جو بہت باوقار ٗ پر جوش اور محبت کرنے والا فوجی افسر تھا ۔ کیپٹن ساجد ترقی کرکے پہلے میجر پھر لیفٹیننٹ کرنل بنا۔ کچھ ہی عرصے بعد ان کو یونٹ سمیت جنوبی وزیر ستان میں دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے بھیج دیاگیا ہے جہاں کرنل ساجد کی قیادت میں کئی مشکل ترین مہمات کو سرکیا ۔ پھر 12 جون 2013ء کو ایک اور اہم مشن کی تکمیل کے لیے وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دہشت گردوں کا تعاقب کررہے تھے کہ بارودی سرنگ پھٹنے سے کرنل ساجد موقع پر ہی شہید ہوگئے ۔ بیٹے اور داماد کی پے درپے شہادتوں کے بعد قاضی ریا ض ریت کی دیوار بنتے گئے ۔انہیں پھیپھڑوں کا کینسر ہوگیا جس انہیں نے نڈھال کردیا پھر 29اگست 2013 کی شام قاضی ریا ض بھی اس جہان میں جا پہنچے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ 26 جولائی کا دن شہیدوں کے اس خاندان کی یاد مجھے ہمیشہ دلاتا ہے کیونکہ جس طرح شہیدوں کے زخم نہیں بھرتے اسی طرح شہیدوں کے لواحقین کے زخم بھی ہمیشہ تازہ ہی رہتے ہیں ۔کیپٹن جواد کی عظیم ماں( ثمینہ ریاض) آج بھی اپنے دل پر دوبیٹوں کی شہادت کے زخموں لیے زندہ اور ہم سب کے لیے عظمت کی مثال ہیں اﷲ انہیں اجرعظیم اور صحت کاملہ سے نوازے ۔بے شک ایسی ہی عظیم ماؤں کی عظمت پر پوری قوم فخر کرتی ہے ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 786374 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.