بچوں کی تربیت کے اسلامی خدو خال
(Farooq Tahir, Hyderabad)
درس و تدریس اورتعلیم و تربیت اسلام کا جزو
لاینفک ہے ۔قرآن کے تقریبا اٹھتر ہزارا لفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو اﷲ
تعالی نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل فرمایا وہ اقراء ہے جس کے معنی
پڑھنے کے ہوتے ہیں۔قرآن کی چھ ہزار آیتوں میں سب سے پہلے جو پانچ آیتیں
نازل ہوئیں ہیں ان سے قلم کی اہمیت اور علم کی عظمتظاہر ہوتی ہے۔اسلام کا
اولین اعلان اقراء تھا۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم کی بعثت کے مقاصد کو جن
آیتوں میں بیان کیا گیا ہے ان میں تین مقاصد بیان کئے گئے ہیں۔ایک تلاوت
قرآن دوسرا ظاہری و باطنی ہر طرح کی گندگی اور نجاست کو پاک کرنااور تیسرا
کتاب و حکمت کی تعلیم دینا۔ان تعلیمات میں علم کے ساتھ تربیت کو مربو ط
کردیا گیاہے۔ اسلام جہالت کی ضد ہے۔اسلام اپنے ماننے والوں کو حصول علم کی
ہر پل تلقین و ترغیب دیتا ہے ۔اسلام حکم دیتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کومضر
نہیں بلکہ مفیدبنائے۔علم کو نفع بخش بنانے کے لئے علم و عمل کو قرآنی اصول
اور نبوی تعلیمات کے تحت لانا ضروری ہے ۔ تعلیم صرف معلومات کو اکٹھا کرنے
کا نام نہیں ہے بلکہ ان معلومات کا مستقل اور صحیح استعمال حقیقی تعلیم
ہے۔تربیت ہیعلم کو مضر کے بجائے مفید بناتی ہے۔حضرت سید سلیمان ندوی ؒکے
مطابق’’ تعلیم کا مقصد انسان کو بتا نا نہیں بلکہ بنانا ہیــ‘‘اس حکیمانہ
قول میں کئی راز پوشیدہ ہیں جن کو جاننے کی ہم کو اشد ضرورت ہے۔ہمارے اسلاف
تعلیم کے مقصد سے ہم سے بہتر طور پر آگاہ تھے جس کی وجہ سے قدرت نے ان کو
عروج بخشا جس پر آج بھی ہم فخر کرتے ہیں ۔ہمارے آبا و اجداد نے تعلیم کو
ہمیشہ تربیت سے مربوط رکھاجس سے ان کی شخصیات کومادی اور روحانی استحکام
حاصل ہوا۔لیکن اسی رشتہ کو آج ہم مجروح کر رہے ہیں جس کی وجہ سے تعلیم نفع
بخش ہونے کے بجائینقصان رساں بن گئی ہے۔دور حاضر میں تعلیم کا بلند پایہ
مقام ہماری تنگ نظری اور فکری جمود کے باعث تقریبا مسخ ہوچکا ہے۔مسلمانوں
کے نزدیک تعلیم دینی و دنیوی علوم کے حصول کا نام تھا ۔ان علوم کے درمیان
کسی قسم کی تفریق کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔اسلامی تعلیم گاہوں میں علم
نجوم،ہیئت ،ریاضی ،فلکیات،جغرافیہ،،کیمیا،تاریخ،حدیث،فقہ ،قرآن ،تفسیروغیر
ہ کی مشترکہ تعلیم دی جا تی تھی۔دنیاوی علوم کے دینی امتزاج نے مسلمانوں کو
اخلاقی اور مادی دونوں اعتبار سے مستحکم ا ور مضبوط بنا دیا تھا ۔ہمارے اس
دور کے حالات اسی لئے آج کے حالات سے لاکھ درجے بہتر تھے۔قرآن مجید خیر و
بھلائی کا منبع ہے۔قرآن میں بڑوں،بچوں اور سبھی کے لئے ہدایت و رہنمائی کے
سامان موجود ہیں۔بچوں کی تعلیم و تربیت کے بھی قرآن کی مختلف سورتوں (سور ہ
لقمان،۱۳۔۱۹،بنی اسرائیل۲۳۔۳۹،آل عمران۳۱، ۱۸۶،
احزاب۲۱،حجرات۱۱۔۱۳،نور۳۱،۵۸۔۵۹، نساء ۸۶،غافر۶۷،اور جمعہ۲) میں واضح
اشارات ملتے ہیں۔سور ہ لقمان میں بچوں کی جسمانی ،ذہنی ،فکری ،معاشرتی ،اصلاحی
و تہذیبی تربیت کا عظیم الشان دستور عمل موجود ہے۔ان آیا ت کریمہ کی رو سے
بچوں میں اﷲ کی وحدانیت کو راسخ کرنا،شرک سے باز رکھنا،اﷲ کا شکر عبادات و
اطاعت کے ذریعہ بجالانا،ما ں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا،والدین سے نرمی سے
گفتگو کرنا،دین کے مطابق والدین کی فرمانبرداری کرنا،ماں سے زیادہ حسن سلوک
کرنا،بچوں کو اس بات سے واقف کرناکہ انسان کا کوئی بھی عمل اﷲ سے مخفی و
پوشیدہ نہیں ہے،بچوں کو نماز کے اہتمام کی تاکیدکرنا ،نیک کام کرنے کی
ترغیب دینا،برائیوں سے بچنے کا حکم دینا،مصائب و تکلیفوں میں صبر و برداشت
کرنا ، اﷲ سے مدد طلب کرنااورنشست و برخاست (اٹھنے بیٹھنے ،چلنے پھرنے)کے
طریقوں کے ذریعہ بچوں کی تربیت کرنا مقصود ہے۔آپ ﷺ نے بڑوں کی تربیت کے
ساتھ بچوں کی تربیت بھی فرمائی ہے جن خو ش نصیب بچوں نے نبی کریم ﷺ سے
تربیت کی سعادت حا صل فرمائی ان میں بنات طاہرات رضی اﷲعنہن(رسول اﷲ ﷺ کی
صاحبزادیاں)،حضرت علی ؓ،،حضرت زید بن حارثہؓ،حضرت اسامہؓ، حضرت حسنؓ،حضرت
حسینؓ،حضرت عبداﷲ بن عباسؓ،حضرت عمر بن ابی سلمہ ؓ،حضرت ام خالدبنت
خالد،حضرت ام سعد بنت سعد بن ربیعؓ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔آپ ﷺ کی بچوں کی
تربیت کے نمونوں سے احادیث اور سیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔نبی کریم ﷺ کی
سیرت سراپا رحمت ہے آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ سے تعلیم و تربیت کے کئی قیمتی
پہلو اجاگر ہوتے ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں ایک دن وہ سواری پر آپ ﷺ
کی پیچھے بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اے بچے میں تمہیں چند باتیں
سکھاتا ہوں کہ (۱) تم اﷲ کے حقوق کی حفاظت کر و تو اﷲ تعالی تمہاری حفاظت
کریں گے۔(۲)تم اﷲ کو یاد کر و گے تو تم اﷲ کو اپنے سامنے پاؤ گے۔(۳)جب بھی
تم کو کچھ مانگنا ہوتو اﷲ ہی سے مانگو۔(۴)جب تم کو مد د کی ضرورت ہوتو اﷲ
تعالی سے ہی مدد مانگو۔(۵)جان لو کہ اگر ساری امت اس بات پر جمع ہوجائے کہ
تجھے فائدہ پہنچائے تو و ہ سب تمہیں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچاسکتے مگر اسی
چیز کا جو اﷲ تعالی نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اور اگر تمام لوگ اس بات پر
جمع ہوجائیں کہ تجھے نقصان پہنچائیں تو وہ تجھے نقصان نہیں پہنچاسکتے مگر
اس چیز کا جو اﷲ تعالی نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے،قلم اٹھالئے گئے اور صحیفے
خشک ہوگئے۔(۶)فراخی و کشادگی میں اﷲ تعالی کو یاد کر و تو اﷲ تعالی تجھے
تنگی اور پریشانی میں یا د رکھیں گے۔(۷)یقین کر و کہ مدد صبر کے ساتھ ہے
اور کشادگی تکلیف کے ساتھ ہے اور آسانی مشکل کے ساتھ ہے۔(ترمذی)اس حدیث میں
اﷲ کے حقوق کی پاسداری ،یاد الہی کی تلقین،اﷲ ہی سے مدد و نصرت طلب کرنے کی
تلقین و ترغیب نہایت ہی موثر و جامع انداز میں کی گئی ہے۔بچوں کی تربیت
انجام دینے والوں کے لئے اس حدیث میں تربیت کے جامع سامان موجود ہیں۔حضرت
انس ؓ کو آپ ﷺ کی خدمت کی سعادت نصیب ہوئی آپ فرماتے ہیں آپ ﷺ نے مجھ سے
فرمایا کہ اے میرے پیارے بچے تم جب گھر میں داخل ہوتو(گھر والوں) کو سلام
کیا کرو،یہ تمہارے لئے اور تمہارے گھر والوں کے لئے خیر و برکت کا باعث
ہوگا۔(ترمذی)حضرت عمر بن ابی سلمہؓ ؓبھی آپ ﷺ کی تربیت سے فیضیاب ہوئے،آپ
فرماتے ہیں کہ ’’میں بچہ تھا،آپ ﷺ کی تربیت میں تھا،(کھانے کے دوران) میرا
ہاتھ پیالہ میں گھوم رہاتھا،(کھانے کا طریقہ بتاتے ہوئے)آپ ﷺ نے مجھ سے
فرمایا کہ اے بچے (جب کھانا شروع کروتو پہلے)’’بسم اﷲ ‘‘پڑھ لو،داہنے ہاتھ
سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔(بخاری)حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ایک حدیث
میں بچوں کو باپ کے احترام کا عمدہ اسلوب سکھایا گیا ہے۔’’حضرت نبی کریم ﷺ
نے ایک آدمی کو دیکھا ،اس کے ساتھ ایک بچہ تھا تو آپ ﷺ نے اس بچے سے پوچھا
کہ یہ آدمی کون ہیں؟بچے نے جواب دیا کہ یہ میرے والد ہیں،آپ ﷺ نے فرمایا کہ
(بچے) ان کے آگے مت چلنا،ان کی عار و بدنامی کے سبب بننے والے کام مت کرنا
،ان سے پہلے مت بیٹھنا اور ان کا نام لے کر ان کو مت پکارنا۔(ابن سنی)
قرآن و احادیث کے تربیت کے زرین اصول و آداب کے علاوہ صحابہ کرام ؓ اور
اسلاف عظام کے مفید ہدایات اور اقوال بچوں کی تعلیم و تربیت میں نہایت
اہمیت کے حامل ہیں۔حضرت عمر فاروق ؓ نے بچوں کی تربیت اور طریقہ کار کا
تعین کیا اور فرمایا کہ ’’ایک سے سات سال تک،بچے کے ساتھ کھیلو،سات سے چودہ
سال تک بچے کو (قرآن اور حدیث وغیرہ کی) تعلیم دو اور آداب و اخلاق کی
تربیت دو، اور چودہ سے اکیس سال تک ان کو اپنے ساتھ رکھ کر اور ان سے دوستی
کر کے ان کو (زندگی گزارنے کا سلیقہ) سکھاؤ(الجفوۃ بین الآباء و الابناء)
اور آپ ؓ نے فرمایا کہ ’’تم لوگ بچوں کو اس چیز سے روکو جس سے اﷲ تبارک و
تعالی نے تمہیں روکا ہے، اور تم انھیں ان باتوں کا حکم دو جن باتوں کا اﷲ
تعالی نے تمہیں حکم دیا ہے ،یہ چیز (امرونہی) ان کے اور جہنم کے درمیان آڑ
اور رکاوٹ ہوجائے گی۔‘‘(اولاد کی تربیت خلیل جمعہ)بچوں کی فوز و فلاح کے
لئے اﷲ سے دست بہ دعا ہونا ضروری ہوتا ہے ماں باپ اور اساتذہ کی عبادت و
ریاضت بچوں کی فلاح و کامرانی میں کلیدی کردار انجام دیتی ہیں۔ اس ضمن میں
حضرت سعید بن المسیبؒ کے عمل سے ہم کو رہنمائی و ہدایت حا صل ہوتی ہے آپ
اپنے بیٹے سے فرماتے ہیں ’’ میں اپنی نماز میں تیری وجہ سے اضافہ کرتا ہوں
،ہوسکتا ہے کہ اﷲ تعالی میر ی وجہ سے تیری رعایت کردے، پھر آپ نے یہ آیت
کریمہ ’’و کان ابوھماصالحا‘‘(سورہ کہف ۸۲) تلاوت فرمائی،علامہ حافظ ابن
کثیر ؒ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ آیت اس با ت کی دلیل ہے نیک
آدمی کے سبب اس کی اولاد کے ساتھ رعایت کی جا تی ہے اور والد کی عبادت کی
برکات اسے دنیاو آخرت دونوں میں حاصل ہوتی ہیں۔‘‘(اولاد کی تربیت)خلیل جمعہ
بچوں کو درجہ بہ درجہ ایک بہ دیگر علوم و معارف کو سکھانے کی تلقین کرتے
ہیں تاکہ ان میں تعلیم سے دلچسپی اور یکسوئی برقرار رہے۔’’انہیں کتاب اﷲ کی
تعلیم دو، اس کے لئے انہیں مجبور نہ کرو کہ وہ اکتا جائیں اور نہ انھیں
کھلا چھوڑ و کہ وہ اسے چھوڑدیں،انہیں پاکیزہ ترین بات بتاؤ ،انہیں عفیف
ترین شعر سناؤ ،انہیں ایک علم سے دوسرے علم کی طرف نہ لگاؤ جب تک وہ پہلے
علم کو مضبوط کرلیں۔‘‘(اولاد کی تربیت)اس اصول کی روشنی میں جدید تعلیمی
نفسیات اسلام کے اصول تعلیم و تربیت کی خوشہ چیں نظر آتی ہے ۔بتدریج اور
ترجیحا علوم کی ترسیل اسلامی اصول تعلیم و تربیت کے لئیکوئی نئی بات نہیں
ہے جس کی تلقین آج کی جدید تعلیمی نفسیات کررہی ہے۔
علمی و عملی ترقی میں حلال و پاکیزہ کمائی کو بہت زیادہ اہمیت حا صل ہے
حرام کھانے سے قلب کا نور سلب ہوجاتا ہے ۔حضرت مفتی محمود حسنؒ سے کسی نے
دریافت کیا کہ ’’حضرت اب پہلے جیسے علماء کیوں پیدا نہیں ہوتے ؟ تو آپ نے
پوچھا کہ پہلے بتلاؤ کہ تم اپنے والد جیسے کیوں نہیں ؟ تمہارے والد تو ایسے
ایسے تھے تم ایسے کیوں نہیں؟پھر فرمایا کہ پہلے جیسے استاذ ہوتے تھے ویسے
ہی ان کے شاگرد ہوتے تھے۔‘‘(اسلاف کی طالب علمانہ زندگی)ہمارے اسلاف کی
زندگی بالخصوص جو تعلیم و تربیت کے پیغبرانہ کام کو انجام دیتے تھے، تقوی و
طہارت سے مزین تھیں،احکام شرع میں معمولی معمولی چیزوں میں بہت زیادہ
احتیاط برتتے تھے۔کوفہ میں کسی شخص کی ایک بکری چوری ہوگئی حضرت امام اعظم
ابو حنیفہؒ نے سات سال تک بکری کا گوشت نہیں کھایا کیونکہ بکری کی طبعی عمر
سات سال ہوتی ہے(مفتاح العادۃ)اس واقعہ سے ہمارے اساتذہ کا تقوی کے اعلی
معیار پر فائز ہونے کا پتہ چلتا ہے۔تعلیم و تربیت کے فرائض انجام دینے والے
حضرات کو اسلاف کی تقوی و پرہیز گاری اور فرض شناسی سے آج فیض اٹھانے کی
سخت ضرورت درپیش ہے۔ایک استا د و مربی کا فریضہ ہے کہ وہ دنیائے علم سے
گوہر ہائے گراں مایہ کو تلاش کرے اور طلباء کو ان سے متعارف کروائے۔اپنے
شاگردوں کو قوم و ملت کے فکری ،ملی،تاریخی ،تہذیبی اور تقافتی ورثے سے واقف
کروائے۔آج ہمارے معاشرے میں زیادہ تر تعلیم و تربیت کے ماخذ مغر ب سے حاصل
کردہ ہیں جس سے ہمارے نو نہالوں کے ذہنوں پر مغرب کا اثر واضح نظر آنے لگا
ہے۔جس کے سبب ایک ایسی نسل ابھر رہی ہے جو نہ تو اسلامی ہے اور نہ
فرنگی،تعلیم و تربیت کا مقصد طلباء میں علمی وسعت پیدا کرنا ہی نہیں ہوتا
ہے بلکہ ان میں نافع علوم کا ادراک پیدا کرنا اور اس کے استعمال سے واقف
کرنا بھی شامل ہوتاہے۔بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک خاص کسوٹی کی ضرورت
ہوتی ہے۔ جس کے ذریعے ہم بچوں کی فکری اور عملی کردار کی جانچ
کرسکیں۔اسلامی تعلیمات میں بچوں کی تربیت کے خاص اصول و ضوابط موجود ہیں جن
میں صرف نظری ہی نہیں بلکہ ان کی عملی صورت سرکار صلی اﷲ علیہ و سلم کی ذات
گرامی میں موجود ہے۔اساتذہ اور والدین کے لئے امام غزالی ؒکے بیان کردہ
تعلیم و تربیت کے اصول آج بھی سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں علامہ شبلی
نعمانیؒ نے امام غزالیؒ کے تعلیم و تربیت سے متعلق فرمودات کو اپنی کتاب
الغزالی میں نہایت ہی عمدہ اسلوب میں پیش کیا ہے جس سے استفادہ تعلیم و
تربیت سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کے لئے ضروری ہے۔ علامہ شبلیؒ نے الغزالی
میں تعلیم و تربیت کے ضمن میں جن نکات کو بیان کیا ہے ان میں قابل ذکر بچے
میں جس وقت تمیز کے آثار ظاہر ہوں ، اسی وقت سے اس کی دیکھ بھال کرنی
چاہیئے،بچے میں سب سے پہلے غذا کی رغبت پیدا ہوتی ہے، اس لئے تعلیم کی
ابتدا یہیں سے ہونی چاہیئے، اس کو سکھانا چاہیئے کہ کھانے سے پہلے بسم اﷲ
پڑھ لیا کرے، دسترخوان پر جو کھانا سامنے اور قریب ہو، اسی کی طرف ہاتھ
بڑھائے،ساتھ کھانے والوں پر سبقت نہ کرے،کھانے کی طرف یا کھانے والوں کی
طرف نظر نہ جمائے،جلد جلد نہ کھائے،نوالہ اچھی طرح چبائے،ہاتھ اور کپڑے
کھانے سے آلودہ نہ ہونے پائے، زیادہ کھانے کو معیوب ثابت کیا جائے،کم
کھانا،معمولی کھانے پر اکتفا کرنا، دوسروں کو کھلانے کی برکت جیسے اوصاف کو
بچوں کے دل میں بٹھایا جائے۔سفید کپڑے پہننے کا شوق دلایا جائے،رنگین اور
زرق برق کپڑوں کے استعمال سے منع کیا جائے۔بچے کو آرام پرستی اور ناز و
نعمت سے متنفر کیا جائے۔جب بچے سے کوئی پسندیدہ فعل ظہور میں آئے تو تعریف
و انعام کے ذریعے اس کا حوصلہ بڑھایا جائے۔ناپسندیدہ بات کے وقوع پذیری پر
اغماض کرے تاکہ برے افعال کی انجام دہی پر جری نہ ہوجائے ۔خصوصا جب وہ خو د
اس کام کو چھپانا چاہتا ہو،اگر دوبارہ وہ فعل اس سے سرزد ہوتو تنہائی میں
اس کو نصیحت کرنی چاہیئے،والدین کو لحاظ رکھنا چاہیئے کہ ہر وقت زجر و
توبیخ(ڈانٹ پھٹکار) نہ کرتے رہیں،کیونکہ باربار کہنے سے بات کا اثر کم
ہوجاتا ہے اور بچہ زجر و توبیخ (ڈانٹ پھٹکار ) کا عادی ہوجاتا ہے۔بچہ کو
تاکید کریں کہ کوئی کام چھپا کر نہ کرے۔بچے برے کام چھپا کر کرتے ہیں جب
کام کو چھپا کر کرنے کی عادت چھوٹ جائے گئی تو خو د بخود برائیاں بھی چھو ٹ
جائیں گی۔بچوں کو کچھ نہ کچھ فاصلہ پیدل چلنے اور ورزش کرنے کی تلقین کریں
تاکہ ان میں افسردگی اور سستی نہ آئے ۔ہاتھ پاؤ کو کھلے نہ رکھنے دیں،تیز
تیز چلنے سے باز رکھیں،دولت ،مال ،لباس،غذا ،قلم ،غرض کسی چیز پر فخر نہ
کرنے دیں۔مجلس میں تھوکنا ،جمائی اور انگڑائی لینا ،لوگوں کی طرف پیٹھ کر
کے بیٹھنا،پاؤ ں پر پاؤں رکھنا ،تھوڈی کے نیچے ہتھیلی رکھ کر بیٹھنا ان تما
م باتوں سے منع کرنا چاہیئے۔قسم کھانے سے بالکل روکنا چاہیئے ،گو سچی قسم
کیوں نہ ہو،بات خود نہ شروع کریں،بلکہ کوئی پوچھے تو جواب دے،مخاطب کی بات
کو توجہ سے سنے،فضول گوئی ،فحش ،دشنام طرازی اور سخت کلامی سے منع کریں۔جن
بچوں کو اس کی لت پڑگئی ہو ان سے دور رکھیں۔اسکول سے پڑھ کر آنے پر کچھ وقت
کھیلنے کودنے کے لئے دیں کیونکہ ہر وقت پڑھنے لکھنے میں مصروف رہنے سے دل
بجھ جاتاہے،ذہن کند ہوجاتا ہے،طبیعت اچٹ جاتی ہے۔‘‘(الغزالی)
مفکر اسلام حضرت علی میاں ندوی ؒ بچوں کی اسلامی تعلیم و تربیت کے مقاصد کے
متعلق گویا ہیں ’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے اپنے پیغام اور اپنی دعوت
کے ذریعے جس فرد کو تیار کر کے کارگہہ حیات میں اتارا تھاوہ اﷲ پر سچاایمان
رکھنے والا،نیک خوئی پسند کرنے والا،اﷲ کے خوف سے ڈرنے والااور لرز نے
والا،امانت کا پا س رکھنے والا،دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والا،مادہ کو
حقیر سمجھنے والا اور روحانیت سے مادیت پر غالب آنے والاتھا۔وہ اس با ت پر
دل سے یقین رکھتا تھا کہ دنیا تو میر ے لئے بنائی گئی ہے لیکن میں آخرت کے
لئے پیدا کیا گیا ہوں۔پس یہ فرد اگر تجارت کے میدان میں اترتا تو نہایت سچا
اور ایماندار ثابت ہوتا،اگر مزدوری کا پیشہ اختیار کرتا تو نہایت محنتی اور
بہی خواہ مزدورثابت ہوتا،اگر مالدار ہوتا توایک رحم دل فیاض دولت مند ثابت
ہوتا ،اگر غریب ہوتا توشرافت کو قائم رکھتے ہوئے مصیبتوں کو جھیلتا ،اگر
کرسی عدالت پر بیٹھادیاجاتا تو نہایت سمجھداراور منصف جج ثابت ہوتا،اگر آقا
ہوتا تو رحم دل اور منکسرالمزاج ہوتا،اگر نوکر ہوتا تو نہایت چست اورفرماں
بردارنوکر ہوتا ،اگر قوم کا مال و دولت اس کی تحویل میں آجاتا توحیرت
انگیزبیداری اور باخبری سے اس کی نگرانی کرتا۔‘‘
آج ہم تعلیم و تربیت بلکہ ہر معاملہ میں مغرب کی تقلید کو باعث فخر سمجھ
رہے ہیں۔مغربی اقوام اپنی تاریخ ،تہذیب اور ثقافت پر فخر کررہی ہیں جوعظمت
سے خالی ہے۔اسلامی تاریخ ،تہذیب و ثقافت انسانی تہذیب و تشکیل کی عظیم
داستانوں سے معمور ہے جس پر ہم کو فخر کرنا چاہیئے اور انہی اساس پر مستقبل
کا چیلنج قبول کرنا چاہیئے۔مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ایک
بہت بڑی غلطی ہوگی کیونکہ اگر سائنس مذہب کے تابع نہ ہوگی تب یہ انسانو ں
کے لئے سوہان روح ثابت ہوگی۔مذہب انسا ن کے اندر ایک پاکیزہ جذبہ اور احساس
ذمہ داری کو جا گزیں کرتا ہے جو طلباء کو حصول علم کو ایک مذہبی فریضہ کی
حیثیت سے اداکرنے کی طرف مائل کرتا ہے۔دور حاضر میں اکثر والدین ،اساتذہ
اور طلباء کے لئے حصول علم دولت کمانے کا ذریعہ ہے۔طلبا کے ذہنوں میں پیوست
کر دیا گیا ہے کہ تعلیم کا مقصد حصول روزگار کے سواکچھ اور نہیں ہے۔بڑے بڑے
تعلیمی ادارے طلباء کو چاردیواری میں انسان کے بجائے مشین بنارہے ہیں۔اب
ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم ہماری نئی نسل کو ایک مشین بنا نا چاہتے ہیں یا
ایک ایسا انسان جس پر انسانیت اور دنیا ناز کرے- |
|