سوتیلی لڑکی
(Rana Tabassum Pasha(Daur), Dallas, USA)
ہمارے معاشرے میں ایسی لڑکیوں کی کمی نہیں
ہے جو اپنی عزت کی حفاظت کرنا جانتی ہیں ۔ اپنے حالات یا وقت کی ضرورت کے
تحت گھر سے باہر نکل کر کام کرتی ہیں نہایت ہی پامردی اور بلند ہمتی سے
اپنے گھرانے کی کفالت میں کردار ادا کرتی ہیں ۔ اور اپنے والدین و خاندان
کی ناموس پر آنچ بھی نہیں آنے دیتیں ۔ مگر کچھ بچیاں تربیت کی کمی ، کچھ
اپنی ناسمجھی اور دینی تعلیمات سے دوری کے سبب غلط راستوں اور غلط ہاتھوں
میں پڑجاتی ہیں ۔ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے بعد ماں باپ کے ہاتھوں سے نکل
جاتی ہیں اپنی من مانیاں کرنےلگتی ہیں ۔ اور کچھ والدین بھی جان بوجھ کر
چشم پوشی کرتے ہیں ۔ وہ جاننے کی کوشش تک نہیں کرتے کہ آخر بچی کی کیا
مصروفیات ہیں وہ مناسب تعلیم تک نہ ہونے کے باوجود یہ اندھا دھند رقمیں کس
عہدے پر فائز ہو کر لا رہی ہے ۔ انہیں صرف اپنی ضروریات کی تکمیل سے سروکار
رہ جاتا ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی چاہتے ہیں کہ بس ایسے ہی بات بنی رہے کبھی نہ
کُھلے گذارا چلتا رہے ۔ اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے کے باوجود ان کے
مردوں کی غیرت و عزت کا تصور عورت ہی کی ذات سے وابستہ ہوتا ہے ۔ مگر قندیل
کے آدھا درجن لالچی مسٹنڈے بھائی اس کی ملک و بیرون ملک سرگرمیوں کی نوعیت
سے انجان بنے اس کی کمائی سے اپنا اپنا اُلو سیدھا کرنے میں لگے ہوئے تھے ۔
اسے نہ معاشی سرپرستی حاصل تھی اور نہ ہی دینی سطح پر رہنمائی ۔ وہ ایان
علی یا وینا ملک اور نرگس کے جیسا نصیب لے کر دنیا میں نہیں آئی تھی ۔ وہ
بھٹکتی پھری شارٹ کٹ کے چکر میں ایک بےہدایت مسافر بنی اور اپنے خودغرض
کنگلے بہن بھائیوں کی کفیل بھی بن گئی ۔ اس کا قصور یہ تھا کہ وہ سب کچھ
کُھلے عام کر رہی تھی ۔ اوپر سے مولویوں مفتیوں سے بنا کر رکھنے کی بجائے
ان کی پگڑیاں اچھال رہی تھی ۔ اور اسے پذیرائی بخشنےوالوں کی بھی کمی نہیں
تھی ۔ لوگ اسے گالیاں بھی دیتے تھے اور اس کی گلیوں کے چکر لگانا بھی
چھوڑتے نہیں تھے ۔
پورن ویب سائٹس کی سرچ کرنے والے ممالک کی ٹاپ ٹین لسٹ میں شامل ملک کے کچھ
بزعم خود پارسا و شرفاء خامہ فرساء مسلسل ایک مقتول بچی کے اندر پڑے ہوئے
کیڑوں کو ایسے چُن رہے ہیں جیسے اُس کی سوشل میڈیا پر آمد سے پہلے تو پورے
ملک میں شرم و حیا اور پاکیزگی و پاکدامنی کی نہریں بہہ رہی تھیں ۔ ان کی
آل اولادیں فیس بک پر بیٹھ کر نفلیں پڑھ رہی ہوتی تھیں ۔ پورے ملک میں
پھیلی ہوئی بےحیائی اور بےراہروی کی بس ایک وہی واحد ذمہ دار تھی ۔ یہ ملک
جس کی آبادی اُنیس کروڑ ہے اور فیس بک پر اس کے رجسٹرڈ یوزرز کی تعداد تئیس
کروڑ ہے ۔ مارک زکربرگ انگشت بدنداں ہے کہ یہ ماجرا کیا ہے ۔ اکیلی قندیل
سارے سقراطوں بقراطوں پر بھاری پڑ گئی ۔ سارے نیک پرویزوں کا ایمان و اخلاق
غارت کر کے رکھ دیا ۔ کمبخت ماری نے سیدھےسادے بھولے بھالے پاکستانیوں کی
مت مار دی انہیں اپنی ایسی ویسی جیسی تیسی وڈیوز اور پکس کو کروڑوں بار
دیکھنے پر مجبور کیا ۔ ساری غلطی اس کی تھی اس کو ٹھکانے لگائے جانے کے بعد
کیا سب کچھ ٹھیک ہو گیا؟ ملک پھر سے مسجد بن گیا؟ اب ہونا تو یہ چاہیئے کہ
انتہائی دردناک موت سے ہمکنار کی جانے والی اس بدنصیب مظلوم بچی کا اب
پیچھا چھوڑ دیا جائے ۔ نہ تو اس کی بغاوت کو انقلاب کا نام دیا جائے اور نہ
ہی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کو جواز ۔ اس کے اعمالوں کی تفصیلات بیان
کر کر کے سوالات داغنے والے خود کوئی بہت دودھ کے دھلے ہیں کیا؟ کسی کو
اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے؟ بےشک وہ لائق تقلید
نہیں تھی لائق اصلاح تو تھی ۔ کیا پتہ زندہ رہتی تو خدا کبھی نہ کبھی اسے
توبہ کی توفیق دے ہی دیتا ۔ ہو سکتا ہے ابھی بھی خدا نے اسے معاف کر دیا ہو
اسے اپنے جوار رحمت میں جگہ دے دی ہو ۔آخر تھی تو اس کی بندی ۔ اس کے کئے
کی سزا اسے خدا کی بجائے اس کے ایک غیرتی بندے نے دے دی ہے اور اس کے پس
منظر میں جو ایک پورا نیٹ ورک موجود ہے وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے
۔ سارا ہی قصور تو اس کا نہیں تھا پورا معاشرہ ہے اس کی تباہی کا ذمہ دار
اور اس کا قاتل ۔ کسی کے ہاتھ صاف نہیں ہیں اس کے خون ناحق سے ۔ |
|