ایک شخص جو پوری قوم کو یتیم کر گیا،ایک
شخص جو پوری فضاکو سوگوار کر گیا،ایک شخص جس نے اُس قوم کی سوچ کویکجا کر
دیاجو منقسم سوچوں کی حامل قوم ہے۔ کھدر میں ملبوس ،پھٹے پرانے جوتے ،سفید
داڑھی، پرانی طرز کی جناح کیپ سے سر اور ماتھا ڈھکا ہوا،لب کھولے تو آواز
ایسی جو کانوں میں رس گھول دے۔اس کا رُوآں رُوآں محبت سے سرشار تھا ، میں
اُس شخص کی سوانح حیات بیان نہیں کرونگا میں اسکی کارکردگی پر بھی مختصر ہی
لکھوں گاکیو نکہ اس کے لئے تو مجھے زمین جیسی طویل کا غذ اور سمندر جتنی
سیاہی کی ضرورت ہوگی ۔میں تو اپنی قوم ، حکمرانوں سیاسی وغیر سیاسی کٹھ
پتلیوں،شہرت کے شوقین سیلفی بازوں سے چند سوالات کرنے کی جسارت کرونگاکہ
کیا 19.2کروڑ کی آبادی میں کوئی شخص تو ا یسا ملے گا جو اس مفلس نما شہنشاہ
کے ہم پلہ ہو،کیاکوئی ایسا انسانیت کامسیحاملے گا جس نے کوڑے میں پڑے ایک
بھی بچے کو بھی اُٹھایا ہو اور اسے اپنے باپ ہونے کا نام دیا ہو؟اُس
انسانیت کے مسیحا نے تو 22000بچوں کو اپنی ولدیت دی، کیاکوئی زندہ دل شخص
ایسا ملے گا جس نے مردہ شخص کے کھدر کے لباس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا
ہو، جس نے1لاکھ32ہزار مسخ شدہ لاوارث بدبو دار لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے
نہلایا ہو انھیں مشکدار بنایااپنے ہاتھوں سے کفنایا ہو اور اپنے ہاتھوں سے
دفنایا ہو۔کوئی تو موت سے غافل نہ رہنے والا شخص ایسا ملے جس نے اپنی موت
سے پہلے قبر بنا لی ہو اور وصیت کی ہو کہ میرے جسم کے اعضا ء میری قوم پہ
قربان کر دینا ؟میں قربان جاؤں اسکے لواحقین پر جنھوں نے فورا انکی وصیت کو
پورا کیا ہے۔کوئی تو شخص ایسا ہو جس کا جسم منوں مٹی تلے دبا ہو جس کی روح
قفس عنصری سے پرواز کر گئی ہو لیکن اسکی آنکھیں دنیا کو دیکھ رہی ہوں؟ وہ
عظیم شخص امر ہوگیا ۔اتنی بڑی آبادی میں کوئی تو ایسا ہو جو اس کی تقلید
کرے اور اپنے اعضاء دوسروں کے لئے عطیہ کرئے؟ ارے تمھیں شاید علم نہیں کہ
اس کے خاندان نے اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کی سوچ کا احترام کرتے ہوئے
اپنے اعضاء عطیہ کرنے کے مسودے پر دستخط کر دئیے ہیں اور ہم گفتار کے غازی
سوچوں کے دریا میں نقش آب پر خطاطی میں مصروف ہیں۔
میں سوال کرونگا اس بٹی ہوئی قوم سے کہ اے پاکستانیوں !کیا تم نے ایک
شہنشاہ کو نہیں کھو دیا؟ کیا ایسے شخص کوکسی مسند اعلیٰ پر بیٹھنے کا کوئی
حق نہیں تھاجو ہمہ وقت قوم کے دکھوں ،تکلیفوں کو اپنے سینے میں سمائے رکھتا
تھا، بلارنگ و نسل ہر شہری کو انسان سمجھتا تھاوہ اپنے لئے مفلس تھا لیکن
غریبوں کے لئے بادشاہ تھا۔ اس باصلاحیت شخص نے ایک ایمبولنس سے دو ہزار
ایمبولنس کردی تھیں اپنے ادارے کو بین الاقوامی شہرت کا حامل بنایا اسی لئے
عالمی میڈیا نے بھی اسے زبردست خراج تحسین پیش کیا ۔تو کیا حرص و ہوس کی
لعنت سے پاک اُس شخصیت میں یہ صلاحیت نہیں تھی کہ وہ پاکستان کو فرش سے عرش
تک پہنچاتا؟ کیا اس شخص نے ریاست کے شہریوں کو انسان نہ سمجھنے والے
حکمرانوں کو یہ پیغام نہیں دیا کہ دولت لوٹنے کے لئے نہیں ہوتی بلکہ ایک
ہاتھ سے لینے اور دوسرے ہاتھ سے دینے کا نام ہوتی ہے؟۔ان حاکموں نے توزندگی
میں رتی برابر اس کی قدر نہیں کی تھی ، کیا ان موقع پرستوں نے اس کی موت پر
تصویریں کھنچواکر وڈیوز بنواکر اپنے آپ کو بے حسی کی کیفیت سے نکالنے کی
بھونڈی سی کوشش نہیں کی؟
ایک عہد سازمفلس شہنشاہ کے عہد کا خاتمہ ہو گیا۔اے میرے ہم وطنوں!تم نے اور
میں نے ایسے شہنشاہ کی قدر کیوں نہیں کی ؟ ہم اگر اسکو مسند اعلیٰ کا اہل
اورمستحق سمجھتے تو آج پاکستان کا ستارہ دنیا کے اُفق پر چمک رہا ہوتا اب
بھی وقت ہے ہوش میں آجاؤ ۔اس کا خاندان اس کی تربیت میں رہنے والے افراد
ابھی زندہ ہیں اُن پھولوں کو چنو، اپنے دامن میں سمولو ۔ زندگی میں کئے گئے
فیصلے ہی خوشحالی اور بربادی کا تعین کرتے ہیں اور سوچو کہ اب تک تم نے اور
میں نے آنے والوں کے لئے کیا کیا ہے ؟صرف کانٹے ہی بوئے ہیں اور بو رہے ہیں
اس کی تم کو مجھ کو اور آنے والوں کو سزا تو ملے گی اور برابر ملے گی اورمل
بھی رہی ہے۔
شیخ محمد ہا شم۔کراچی
|