ہاتھی

اسلام آباد کے چڑیا گھر کے ہاتھی کی قسمت بھی جاگنے کو ہے، کیونکہ معاملہ ایوانِ بالا کی قائمہ کمیٹی کے ہاتھ آگیا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ نے اسلام آباد کے مسائل پر بہت گہرا غور و خوض کیا، پولی کلینک ہسپتال کی کارکردگی پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا، چیئرمین قائمہ کمیٹی سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ پولی کلینک ہسپتال میں خون کے فروخت ہونے کی خبریں ہیں، پمز ہسپتال میں صفائی کا مسئلہ ہے، ڈاکٹرز کے خلاف التواء کا شکار انکوائریوں کی بھی بات ہوئی، چڑیا گھر کے کاون ہاتھی کی حالت پر تشویش کا اظہار کیا گیا، دیگر جانوروں کی حالت زار پر بھی افسوس کا اظہار ہوا، ارکان کی بحث کے بعد چیئرمین نے فیصلہ سنایا کہ کاون ہاتھی کی حالت پر دنیا بھر کو تشویش ہے، اس لئے اسے کسی ماحول دوست ملک بھیج دیا جائے ۔قائمہ کمیٹی کی مہربانی ہے کہ اس نے اسلام آباد کے بہت سے مسائل پر اپنی تشویش اور پریشانی وغیرہ کا اظہار کردیا ہے۔ کمیٹی نے کوئی انوکھا یا نیا کام نہیں کیا، بلکہ جب منتخب ایوانوں میں مختلف مسائل پر کمیٹیاں تشکیل دی جارہی ہوتی ہیں، تو بہت سی باتیں پیشِ نظر ہوتی ہیں، مثلاً ایک بات یہ بھی ذہن میں ہوتی ہے کہ کمیٹی میں نام آنے سے معزز رکن کی اہمیت میں اضافہ ہو جاتا ہے، دوسری بات یہ کہ کمیٹی میں نام آنے کے بعد آمدنی میں بھی معقول اضافہ ہو جاتا ہے۔ تیسری اور اہم بات شاید یہ بھی ذہن میں ہوتی ہو کہ کمیٹی کے فیصلوں کے ذریعے عوام یا علاقے کے مسائل حل کرنے ہیں۔ مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ ان کمیٹیوں کے فیصلوں پر عمل کم ہی ہوتا ہے۔ کمیٹیوں نے بھی شاید کبھی عمل نہ ہونے کا برا نہیں منایا، کیونکہ اُن کا کام ہو جاتا ہے، نام بھی بن جاتا ہے اور جیب بھی گرم ہو جاتی ہے۔

اسلام آباد میں اگر چڑیا گھر میں موجود کاون ہاتھی کی حالت تشویش ناک ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ اس پر انتظامیہ کی توجہ نہیں، ظاہر ہے ہاتھی کا خیال حکومت نے براہ راست تو رکھنا نہیں، یہ کام چڑیا گھر انتظامیہ کے کرنے کا ہے، مگر چڑیا گھر والے بھی کیا کریں، انہیں اور بھی بہت سے کام ہوتے ہیں، ایک یہ کہ چڑیا گھر کے جانوروں کی نگرانی کرنی ہے، آیا وہ پورے ہیں یا کسی بڑے صاحب کے گھر کی رونق میں اضافہ ہو چکا ہے۔ پھر یہ دیکھنا ہے کہ آیا تمام جانوروں کی صحت درست ہے یا کسی کو کسی بیماری وغیرہ نے گھیر رکھا ہے۔ اس بات کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے کہ چڑیا گھر کے جانوروں کی خوراک اعلیٰ معیار کی تو نہیں آگئی، کیونکہ خوراک جتنی اچھی ہوگی اسی قدر اس پر اخراجات زیادہ اٹھیں گے، اس لئے کسی حد تک بچت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسی بچت میں سے ہی انتظامیہ کے لئے کچھ اضافی آمدنی کی گنجائش نکالی جاتی ہے۔ پاکستان کے چڑیا گھروں میں جانوروں کی خوراک کا معیار بھی دیکھے جانے کے قابل ہے۔ بہاول کے چڑیا گھر میں شیروں کے لئے جو زندہ گائے ذبح کرنے کے لئے لائی جاتی ہے وہ اپنے قدموں پر چل کر نہیں آسکتی۔یہ دلچسپ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ چڑیا گھروں کے جانوروں کی خوراک وہاں کی انتظامیہ کے لئے بڑی مرغوب ہے۔

اسلام آباد چڑیا گھر کے ہاتھی کا معاملہ کافی سنجیدہ ہے، کیونکہ یہ ہاتھی یہاں اکلوتا ہے، ورنہ اسلام آباد میں سفید ہاتھیوں کی کمی نہیں۔ چڑیا گھر سے نکل کر شہر کی طرف ہو لیں تو ہر طرف سفید ہاتھیوں کے غول دکھائی دیں گے۔ اگر یہی قائمہ کمیٹی کبھی سفیدہاتھیوں کا حساب کرے، اور دیکھے کہ ان کی حالت کیسی ہے؟ تو وہ حیران رہ جائے کہ سفید ہاتھیوں کے لئے اسلام آباد کی آب وہوا اور ماحول بہترین ہے۔ کمیٹی کے اجلاس کی خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ چڑیا گھر کے ہاتھی کی حالت کیوں خراب ہے، اسے کس قسم کے ماحول کی ضرورت ہے ، کہ اب اسے کسی ماحول دوست ملک میں ہی رکھا جاسکتا ہے؟ اسے اگر اسلام آباد میں بھی اس کی ضرورت کے مطابق ماحول فراہم نہیں کیا جاسکتا تو چڑیا گھر کے دیگر جانوروں کا کیا ہوگا؟ اگرچہ کمیٹی نے دیگر جانوروں کا ذکر بھی کیا ہے، مگر انہیں کسی ماحول دوست ملک میں بھجوانے کی بات نہیں کی۔ اب قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کردیا ہے، چڑیا گھر کا ہاتھی تو ممکن ہے کسی ماحول دوست ملک میں بھیج دیا جائے، مگر چڑیا گھر کے دیگر جانور اور شہر میں رہنے والے سفید ہاتھیوں کے بارے میں کمیٹی نہ جانے کب اور کیا فیصلہ کریگی؟
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472737 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.