پاکستان انگلینڈ میں آسٹریلیا کے
خلاف ہوم سیریز کھیل رہا ہے۔ ٹوئنٹی 20 میں جس طرح پاکستان کو فتح ملی، اس
سے پاکستانیوں کو جہاں تفریح کا سامان مہیا ہوا، وہیں ٹیم کے اعتماد میں
بھی اضافہ ہوا۔ شاہد آفریدی جس طرح ٹیم کی رہنمائی کررہے تھے، اور خود بھی
بہتر کھیلنے کی کوشش کررہے تھے، اس سے پاکستان کی ٹیم کافی بہتر ہوگئی تھی۔
اس کے برعکس، ٹیسٹ ٹیم کی حیثیت سے پاکستان کی ٹیم اتنی اچھی نہیں، کیونکہ
اکثر پرانے اور تجربہ کار ٹیسٹ کھلاڑی ٹیم سے باہر ہیں۔ شاہد آفریدی نے خود
بھی کئی سال سے ٹیسٹ کرکٹ نہیں کھیلی۔ اس لئے ان کو بطور ٹیسٹ کپتان مقرر
کرنا بہت لوگوں کی نظروں میں غلط تھا۔ لیکن پھر بھی پاکستانیوں کے دل میں
ایک امید تھی کہ پاکستان میچ جیت سکتا ہے۔
پہلے ٹیسٹ میچ میں جس طرح پاکستان کو شکست ہوئی، اس سے آسٹریلیا نے پاکستان
کے خلاف لگاتار 13 میچ جیتنے کا ریکارڈ قائم کرلیا۔ سلمان بٹ کے علاوہ باقی
کھلاڑیوں کا کھیلنے کا انداز ٹیسٹ کرکٹ والا بالکل نہیں تھا۔ ایسا لگ رہا
تھا کہ ٹوئنٹی 20 کا میچ ہورہا ہے۔ خاص کر آفریدی اور عمر اکمل کے اسٹائل
سے تو یہی لگ رہا تھا۔
ہار جیت ہر کھیل کا حصہ ہے۔ ہم پاکستانی اگرچہ اس معاملے میں کچھ زیادہ
جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ ہم ہر جیت پر خوشی کے شادیانے بجاتے ہیں اور ہر ہار
پر ٹیم کو کوستے ہیں، ان کو برا بھلا کہتے ہیں۔ یہ جذباتیت ہمارے معاشرے کا
اہم حصہ بن چکا ہے۔ ہمارا طرزِ عمل ہر معاملے میں ایسا ہے۔ چاہے کھیل کا
میدان ہو یا سیاست کا اکھاڑہ، جذباتی نعرے ہی ہم پر حاوی ہوتے ہیں۔
اس جذباتی طرز عمل کی تازہ مثال شاہد آفریدی کا آسٹریلیا کے خلاف پہلے ٹیسٹ
میچ میں شکست کے بعد ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان ہے۔ ایسے نازک موقع
پر یہ اعلان اگرچہ شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے لیکن جس طرح ہمارا میڈیا اس
واقعے کو پیش کررہا ہے، وہ کسی بھی طور پر مناسب نہیں۔ جیو ٹی وی کے نیوز
اینکرز بار بار مختلف ماہرین اور نمائندوں سے یہ بات کہلوانے کی کوشش کررہے
ہیں کہ ٹیم میں اختلافات ہیں اور آپس میں کچھ جھگڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے
آفریدی مایوس ہو کر ریٹائرمنٹ کا اعلان کررہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی
نے بھی ان اینکرز کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی، لیکن شاید ان کو یہی میسج تھا
کہ کسی بھی طرح کسی نمائندے یا کسی تجزیہ نگار سے یہ بات کہلوانی ہے کہ ٹیم
میں اختلافات ہیں۔
اس طرح کی رپورٹنگ سے پاکستان اور کرکٹ ٹیم کو نقصان کے علاوہ کچھ نہیں ملے
گا۔ بریکنگ نیوز کی خاطر غلط رپورٹنگ کرنا کسی بھی صورت صحافت کی خدمت
نہیں۔ میڈیا کے ذمہ داران کو سوچنا چاہیے کہ ہمارا میڈیا، جو پہلے ہی کافی
متنازعہ ہے، اس طرح کے طرز عمل سے مزید متنازعہ ہوجائے گا۔ |