1999ء میں اچانک لاہور میں ہل چل مچ
گئی کہ جب ایک جاوید اقبال نامی شخص کی جانب سے پولیس اور میڈیا کو اطلاع
دی گئی کہ جو سو سے زائد بچہ اغوا ہوا انہیں میں نے تیزاب میں جلا کر مارا
ہے جس پر قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس فوری ایکشن میں آئی اور اس
شخص کو اس کے معاون ساتھی سمیت گرفتار کر لیا لیکن اس اعتراف جرم کے بدلے
میں ثبوت مانگے گئے جو کہ اس شخص نے پولیس کے حوالے کر دئیے ۔جس جگہ بچوں
کو اغوا کر کے لایا جاتا اور مارا جاتا وہاں ایک مکمل انتظام موجود تھا قید
خانہ اور اس میں باندھنے کیلئے ایک مکمل نظام اسکے بعد اتنا زہریلا تیزاب
کہ جس میں کسی شخص کو ڈبویا جاتا تو وہ بالکل جل کر پانی بن جاتا جس کے ڈرم
کافی تعداد میں موجود پائے گئے جب اس شخص سے وجہ پوچھی گئی کہ ایسا کیوں
کیا اور تمہیں ذرا رحم نہ آیا کہ اتنے کم سن بچوں پر اتنا بڑا ظلم کیا ؟تو
جاوید اقبال نے بتایا کہ ایک دفعہ مجھے بھی اپنی ماں سے دور کر دیا گیا تھا
جس پرمیری ماں بہت چیخی اور تڑپتی رہی تھی !اسی دن میں نے یہ فیصلہ کر لیا
تھا اورقسم کھا لی تھی کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ میں بھی پوری سو ماؤں کو
ایسے ہی تڑپاؤں گا !آج اس لئے خود کو قانون کے حوالے کر دیا کیونکہ میری
قسم پوری ہو گئی !جس کے بعد جاوید اقبال کو تعزیرات پاکستان زیر دفعہ 302
سزائے موت سنائی گئی تھی ۔جاوید اقبال اور اس کا ہمنوادوران قید میڈیا پر
نقطہ بحث بنا رہا جس میں سب سے اہم سوال یہ اٹھایا گیا کہ جو شخص پہلے جیل
میں رہا ہو اور اسکا ذریعہ معاش بھی قابل ستائش نہ ہو تو وہ شخص اتنا
خوبصورت اور عالیشان گھر کیسے بنا سکتا ہے؟ کیونکہ جب اسکو پکڑا گیا اور
اسکے گھر کا منظر دکھایا گیا تو وہ کوئی گھر نہیں بلکہ نہایت شاندار قسم کا
بنگلہ تھا جس میں سوئمنگ پول تو بنا ہوا تھا لیکن وہ سارا شیشے سے ڈھکا ہوا
تھا اور کافی زیادہ رقبے پر محیط تھا !!سوال یہ تھا کہ ہو سکتا ہے یہ شخص
ان بچوں کے اعضاء جن کا ٹرانسپلانٹ ہو سکتا ہے نکال کر بیچتا ہو لیکن یہ
بات ابھی یہیں تھی کہ 2001 ء میں اس جاوید اقبال اور اس کے معاون ساتھی نے
خود کشی کر لی جو کہ میڈیا کیلئے ایک نئی بحث بن گیا ۔ پہلے والا معمہ ابھی
جوں کا توں تھا اب ایک نیا واقعہ ہو گیا کہ انتہائی سخت قید میں جب دونوں
ساتھی الگ الگ قید تھے تو ایک ہی دن ایک ہی وقت میں دونوں نے خود کشی کیسے
کر لی؟ ان کو پھندا بنانے کیلئے سامان کس نے فراہم کیا کہ جس پر لٹک کر
انہوں نے خود کشی کی؟ لیکن ان کی موت کے ساتھ ہی یہ کہانی بھی بند ہو گئی
اور معمہ کی تہہ تک پہنچے بغیر ہی معاملہ رفع دفع کر دیا گیا ۔اغواہ ہونے
اور مرنے والے بچوں کی عمریں بھی چھ سے سولہ برس کے در میان تھیں جو کہ
اعدادو شمار پہلے تو نہیں جاری کئے گئے تھے جاوید اقبال کے پکڑے جانے کے
بعد ہی منظرعام پر لائے گئے ۔ایک بات یہ بھی سچ ہے کہ لاہور میں اتنا بڑا
گناہ ہوتا رہا لیکن پولیس مجرموں تک پہنچنے اور ان کا سراغ تک لگانے سے
مفلوج نظر آئی ۔ اگر دیکھاجائے تویہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہی جاوید اقبال
آج تک اس کام میں لگا رہتا تو بھی پولیس کبھی اس کو پکڑ نہ سکتی تھی ۔افسوس
کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ صرف اٹھارہ برس گزرنے کے بعد تاریخ نے خود کو
دوہراتے ہوئے ایک نیا جاوید اقبال پیدا کر دیا لیکن اس بار وہ جاوید اقبال
نہیں ہے کہ جس نے سو ماؤں کو اپنے لخت جگر سے محروم کر کے ہاتھ اٹھا لئے
تھے اور اپنی قسم تک رک گیا تھا۔ بلکہ یہ جاوید اقبال بہت زیادہ خطر ناک ہے
جس نے صرف سات ماہ میں چھ سو سے زائد بچوں کو اغواہ کر لیا ہے اوراتفاق کی
بات ہے کہ ان بچوں کی عمریں بھی چھ سے سولہ برس کے درمیان ہی ہیں ۔چیف جسٹس
نے بہت اچھا اقدام کرتے ہوئے اس بات کا نوٹس لیا اور فوری رپورٹ طلب کی کہ
پولیس اور دیگر تحفظ فراہم کرنے والے ادارے کیا کر رہے ہیں ؟اس سے زیادہ
نہیں تو کم از کم پولیس ان معاملات پر سختی تو کرے گی اور روزانہ کی بنیاد
پر درج ہونے والی درخواستوں پر غوروخوض کر کے اس گھناؤنے کھیل کو روکنے کی
کوشش تو کرے گی !لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بار وقت کے ساتھ جیسے
جیسے جاوید اقبال بدلا ہے کیا پولیس بھی بدلی ہے؟کیاپولیس جدید مشینری کو
استعمال کر کے ان بچوں کو موت کے منہ میں سے نکال پائے گی ؟یا ماضی کی طرح
مائیں اپنے لخت جگر کو کھو دیں گی؟ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو لوگ
وفات پاجاتے ہیں ان پر تو صبر آجاتا ہے لیکن جو نظروں سے اچانک اوجھل ہو
جائیں ان کا زخم ساری عمر نہیں بھرتا ۔اگر یہ معاملہ جوں کا توں جاری و
ساری رہا تو پاکستان میں ایک نئی قسم کا انقلاب آئے گا جس میں مرد سڑکوں
پرنہیں بلکہ مائیں سڑکوں پر نکلیں گی اور اپنی اولاد نرینہ کے بین کریں
گی۔کچھ توجہ اگر ملک میں جاری حالات کی جانب مرکوز کی جائے تو ملک میں آج
تک جتنے بھی خود کش حملے ہوئے ان خود کش حملہ آوروں کی عمریں بھی سولہ سے
سترہ برس تھیں اور آپریشن ضرب عضب کے کامیاب ہونے سے جو دہشتگردوں کا نقصان
ہوا ہے انکی بھرپائی کرنے کی بھی انہوں نے بھرپور کوشش کرنی ہے !یہاں سوال
یہ ہے کہ کیا یہ کام دہشتگردوں کا تو نہیں ؟کئی دفعہ خبروں میں بھی اور
مختلف ٹی وی پروگرامز میں یہ باتیں سننے میں آئیں کہ مختلف نجی ہسپتالوں نے
نیا کاروبار شروع کر رکھا ہے !جو بھی مریض آتاہے اسکا اپینڈکس کا آپریشن
کرتے ہوئے گردے نکال لیتے ہیں !اسطرح دس سے زیادہ عضلات ایسے ہیں جنکا
ٹرانسپلانٹ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ غائب ہونے والے ان بچوں
کے ساتھ کہیں یہ سلوک تو نہیں کیا رہا؟کچھ بچے والدین اور اساتذہ کے ڈ ر سے
گھر سے بھاگ جاتے ہیں کہ جب ان سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے تو انہیں مار
نہ پڑے جو پھر ان ناپاک اور شیطان صفت لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں والدین
کو بھی بچوں کا خاص خیال اور اچھی تربیت دینی چاہئے تاکہ مستقبل میں ایسی
پریشانیوں سے بچا جا سکے ۔یوں تو محکمہ پولیس عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے
بڑے بڑے وعدے کرتا ہے لیکن یہ وقت اس محکمے کیلئے ایک چیلنج بن کر ابھرا ہے
جس میں انکے اہل اور قابل افسران کا کڑا امتحان ہونے والا ہے۔کیونکہ اس
جاوید اقبال کامعمہ تو سترہ برس گزر جانے کے باوجود آج تک حل نہیں کیا جا
سکا کہ اب پھر نئی کہانی شروع ہو گئی ہے اور صوبائی حکومت اور پنجاب پولیس
کو بھی چاہئے کہ وہ اس معاملے کو آسان نہ سمجھے ۔ |