بچیوں کی تعلیم کا خیال رکھنا ہمارا مذہبی اور قومی فریضہ ہے
(Dr. Tahira Kaukab, Islamabad)
آج ہمارے معاشرے میں والدین کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ اپنی بچیوں کو اچھی تعلیم سے مستفید کریں، عصری علوم کے حصول سے انہیں دور نہ رکھیں، انکے اندر اعتماد پیدا کریں، اگر وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گی تو اپنے گھر اور خاندان کو بہتر انداز سے پرورش کرسکیں گی، ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ پڑھی لکھی بچیاں ، جب شادی کے بعد مشکل معاشی حالات سے دوچار ہوئیں تو انہیں ان حالات کا مقابلہ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی، اور وہ اپنے شوہر اور بچوں کی کفالت کی ذمہ داری نبھانے میں کامیاب ہوئی، اور ایسی بھی کئی مثالیں جب خواتین شادی کے بعد معاشی مسائل کی وجہ سے اور ان پڑھ ہونے کی وجہ سے سخت ترین حالات سے دوچار ہوئیں، اور ان کے خاندان کا شیرازہ بکھر گیا۔دین اسلام کی تعلیمات کی رو سے اور عصر حاضر کے تقاضوں کی روشنی میں بچیوں کو اچھی تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے، جس سے ان میں زندگی کا حقیقی شعور پیدا ہو گا اور وہ خود اعتمادی سے زندگی گذاریں گی، ملکی و قومی ترقی میں اہم کردار کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کی بھی اچھی تربیت کریں گی۔
|
|
|
تعلیم بچیوں کا بھی حق ہے |
|
تازہ ترین سروے کے مطابق ملک بھر میں ان
پڑھ خواتین جن کی عمریں پندرہ سال سے زیادہ ہیں کی تعدادتین کروڑ، تئیس
لاکھ، چونتیس ہزار، پانچ سو چھیاسی(3,23,34,586) ہے۔خواتین کی خواندگی کی
شرح2013-2012-میں48فیصد سے کم ہو کر47فیصد ہو گئی۔جبکہ اس کے مقابلے میں کل
مردوں کا 70 فیصد خواندہ ہے۔2012-2013میں پنجاب میں خواتین کی شرح خواندگی
54فیصد سے کم ہو کر52فیصد ہو چکی ہے۔جبکہ مردوں کی71فیصد ہے۔
2012-2013 میں سندھ خواتین کی شرح خواندگی 47فیصد سے کم ہو کر43فیصد ہو چکی
ہے۔جبکہ مردوں کی شرح خواندگی72فیصد سے کم ہو کر67فیصد پہ پہنچ چکی
ہے۔2012-2013 میں خیبر پختون خواہ میں خواتین کی شرح خواندگی35فیصد سے بڑھ
کر 36فیصد ہو چکی ہے۔مردوں کی 72فیصد ہے۔بلوچستان میں خواتین کی شرح
خواندگی میں اضافہ ہوا ہے،23 فیصد سے25فیصد ہو چکی ہے۔‘‘
موجودہ اعدا وشمار یہ بتاتے ہیں کہ انفرادی حیثیت سے یا اجتماعی حیثیت سے
ہم اپنی بچیوں کی تعلیم سے کس قدر غافل ہیں۔ مجموعی طور پہ پاکستان میں
خواندگی کی شرح سب سے زیادہ کم ہے، لیکن خاص طور پہ بچیوں کی تعلیم کے
حوالے سے صورتحال اطمینا ن بخش نہیں، خاص طور پہ دیہی علاقوں میں قبائلی
کلچر و دیگر عوامل کی وجہ سے حالات مزید پریشان کن ہیں، دیہی علاقوں میں
بچیاں تعلیم کے حوالے سے طرح طرح کے مسائل سے دوچار رہتی ہیں۔ سکول گھر سے
دور ہونے کی وجہ سے بچیاں سفر نہیں کر سکتیں والدین کے پاس اتنے اخراجات
نہیں ہوتے کہ وہ سفر کا خرچ برداشت کر سکیں، اس کے علاوہ بچیوں کے لئے الگ
سکول نہ ہونے اور جو سکول موجود ہیں ان میں مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ
سے بچیاں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتیں۔اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ملک
کی آبادی کے51فیصد حصے کو صرف بچوں کو پالنے ، کھیتوں میں بیگار لینے یا
دیگر محنت کے کاموں کے لئے گھروں تک محدود کر دیا گیا ہے، ان کے لئے تعلیم
کو غیر ضروری قرار دے دیا گیا ہے۔ انتہا پسندی اور جہالت کی ایک اور سوچ یہ
پرورش پا رہی ہے کہ بچیوں کو سکول نہیں بھیجنا چاہئے، اسی سوچ کے نتیجے میں
خیبر پختونخواہ میں دہشت گردوں نے کئی سکولوں کو صرف اس لئے تباہ کیا کہ
وہاں بچیاں تعلیم حاصل کر رہی تھیں، کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ بچیاں بھی
زیور تعلیم سے آراستہ ہو سکیں،حالانکہ یہ سوچ ہمارے دینی تعلیمات کے سرا سر
خلاف ہے، عام طور پہ والدین بچوں کو بچیوں پہ تعلیم کے حوالے سے ترجیح دیتے
ہیں، وہ زیادہ خرچ بچی پہ کرنے کی بجائے بچے پہ کرتے ہیں، ان کی سوچ یہ
ہوتی ہے کہ کیونکہ بچی کی انہوں نے شادی کرنی ہوتی ہے لہذا وہ غیروں کے گھر
چلی جاتی ہے اس طرح ہمیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، لہذا اس افسوسناک مفاد
پرستی کی سوچ کے نتیجے میں بچیاں اعلیٰ تعلیم سے محروم کر دی جاتی ہیں، عام
طور پہ اپنے لڑکوں سے معاشی سپورٹ کی امید رکھتے ہیں اور ا س کی اعلیٰ
تعلیم کے لئے اپنی جمع پونجی بھی خرچ کرنے میں پیچھے نہیں رہتے، اس ساری
صورتحال میں خواتین سے کام کرنے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا حق چھین لیا
جاتا ہے، اس سے نہ صرف ملک کی اکثریتی آبادی کو جاہل رکھ کر ، آنے والی
نسلوں کی تربیت کو بھی متاثر کیا جاتا ہے اور دوسری طرف ملکی معیشت میں بھی
اس آبادی کا کوئی کردار موجود نہیں ہوتا جس سے ملکی معیشت بھی زوال پذیر
ہوتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں بحیثت والدین اور قوم کے یہ سوچنا
چاہئے کہ آیا ہمارا یہ طرز عمل ہمارے دین اسلام کے خلاف تو نہیں، کہیں ہم
پیارے نبی ﷺ کی تعلیمات سے رو گردانی کے مرتکب تو نہیں ہو رہے، اگر ہم نبی
محترم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آپ نے
بچیوں کی پرورش کے حوالے سے بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے کیونکہ عرب میں بچیوں
کی پرورش کرنے کی بجائے ان کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا،اور ان کے ساتھ
انتہائی ناروا سلوک کیا جاتا تھاآپ ﷺ نے اس روش کو معاشرے سے ختم کرنے کا
اعلان کیا اور بچیوں کی پرورش کو ایک اہم سعادت قرار دیا۔(حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ایک عورت میرے پاس کچھ مانگنے
آئی اور اس کے ہمراہ اسکی دو بیٹیاں تھیں،اس نے میرے پاس سوائے ایک کھجور
کے کچھ نہ پایا میں نے وہی کھجور اسے دے دی پھر اس نے اسے اپنی بیٹیوں میں
تقسیم کر دیا اور اس نے خود کچھ نہ کھایا پھر اٹھ کر باہرچلی گئی اس کے بعد
نبی اکرم ﷺگھر تشریف لائے اور میں نے آپ ﷺ کو بتایا تو آ پ ﷺ نے فرمایا
جوان بیٹیوں کی پرورش کی آزمائش میں ڈالا اور اس نے ان سے اچھا سلوک کیا تو
وہ اسکے لئے جہنم کی آگ سے آڑ ہو گی۔‘‘
عرب معاشرے میں جہاں لڑکی کی ولا دت کو ہتک اورغیرت کا مسئلہ سمجھا جاتا
تھا اور سخت ناراضگی کا اظہار ہوتا تھا اور لڑکیوں کی پرورش کرنا ایک بوجھ
سمجھا جاتا تھا پیغمبر اسلام ﷺ نے اس سوچ کو بدل کے رکھ دیا اور لڑکیوں کی
پرورش اور ان کی اچھی دیکھ بھال اور ان کی تربیت کرنے والوں کو جنت کی
بشارت دی ۔( حضرت ابو سعید الخدریؓ رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ
نے فرمایا کہ جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو
اس کے لئے جنت ہے )۔
رسول اکرم ؐ نے مساوات کی تعلیم دی اور بار بار تاکید کی کہ لڑکیوں پرلڑکوں
کو ترجیح دینے کی روش درست نہیں ہے عام طور پر اس سے قبل کے معاشرے میں
لڑکوں کو اس وجہ سے احترام کا مستحق سمجھا جاتا تھا کہ وہ خاندان کی معاشی
کفالت کریں گے چنانچہ لڑکیوں پر کم توجہ دی جاتی تھی اور نہ ہی ان کی تعلیم
و تربیت کا بندو بست ہوتا تھا نبی اکرم ﷺ نے بڑے واضح انداز میں اس تفریق
کو ختم کرنے کا نظریہ دیا اور ہر معاملہ میں لڑکوں اورلڑکیوں کے درمیان
مساوات کا حکم دیا اور آپؐ نے ان لوگوں کو سعادت کی نوید دی جو مساوات کے
ان اصولوں پر کاربند رہیں گے ۔ آ پ ﷺ نے بچیوں سے محبت عزت والفت،ہمدردی کی
عملی مثال قائم کر کے دکھائی اور معاشرے کے لئے عمدہ مثال قائم کرتے ہوئے
بچیوں سے محبت کی انتہا کردی آپؐ کے الفاظ کی گہرائی اور اس اعلیٰ درجے کی
محبت کا اندارہ اس حدیث پا ک میں ملاحظہ ہو جس میں وہ اپنی بیٹی کے لئے
محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔ فرماتے ہیں’’ میری بچی میرا گوشت ہے جو چیز اس کے
لئے باعث تشویش ہو گی وہ میرے لئے بھی پریشانی کا سبب ہوگی اور جو بات اس
کے لئے باعث اذیت ہوگی یقینااس سے مجھے بھی تکلیف پہنچے گی۔‘‘
آپ ﷺ نے صنف نسواں کے بارے میں قرآنی تعلیمات کا یہ رجحان اور مزاج متعارف
کروایا کہ خواتین سے ہمدردی ان کا اکرام اور ان سے محبت و الفت کا رویہ
رکھنا معاشرتی ارتقاء کے لئے ضروری ہے آپ کے اس فکر و عمل نے اس جاہلانہ
معاشرے میں جہاں اپنی بچیوں کو بلا دھڑک بے رحمانہ انداز سے زندہ درگور کیا
جاتا تھا جہاں وہ بچیوں کی پرورش کرنا ہتک عزت سمجھتے تھے اب بچیوں کی
پرورش سعادت تصور کرنے لگے ہیں جہاں اپنے جگر گوشوں کو دفن کرتے تھے اب
دوسروں کی اولادوں کوتحفظ دینے لگے ۔
آج سیرت ﷺ کی روشنی میں ہمیں اپنے حالات کا دیانت داری سے جائزہ لینا چاہئے
کہ ہم اسلام کی تعلیمات کے پیرو کار ہیں یا اپنے بنائی گئی فرسودہ قبائلی
روایات، اور نام نہاد غیرت کے نام سے بنائی گئی سوچ اور خیالات کے پیرو کار
ہیں۔
ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ بچیوں کی پیدائش پہ کس قدر خوشی محسوس کرتے
ہیں اور کس حد بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔
اور بچوں اور بچیوں میں کس حد تک مساوات رکھتے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں
والدین کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ اپنی بچیوں کو اچھی تعلیم سے مستفید
کریں، عصری علوم کے حصول سے انہیں دور نہ رکھیں، انکے اندر اعتماد پیدا
کریں، اگر وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گی تو اپنے گھر اور خاندان کو بہتر
انداز سے پرورش کرسکیں گی، ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ پڑھی لکھی بچیاں ،
جب شادی کے بعد مشکل معاشی حالات سے دوچار ہوئیں تو انہیں ان حالات کا
مقابلہ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی، اور وہ اپنے شوہر اور بچوں کی
کفالت کی ذمہ داری نبھانے میں کامیاب ہوئی، اور ایسی بھی کئی مثالیں جب
خواتین شادی کے بعد معاشی مسائل کی وجہ سے اور ان پڑھ ہونے کی وجہ سے سخت
ترین حالات سے دوچار ہوئیں، اور ان کے خاندان کا شیرازہ بکھر گیا۔دین اسلام
کی تعلیمات کی رو سے اور عصر حاضر کے تقاضوں کی روشنی میں بچیوں کو اچھی
تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے، جس سے ان میں زندگی کا حقیقی شعور پیدا
ہو گا اور وہ خود اعتمادی سے زندگی گذاریں گی، ملکی و قومی ترقی میں اہم
کردار کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کی بھی اچھی تربیت کریں گی۔
|
|