59سالہ برطانیہ کی نئی وزیر اعظم تھریسا مے
، تاج برطانیہ کے دوسری خاتون وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئی ہیں۔یورپی
یونین سے متعلق ریفرینڈم کے نتائج کے بعد وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے
منصب سے استعفی ملکہ برطانیہ کو پیش کردیا ، جیسے فوراََ منظور کرلیا گیا ۔
جس کے بعد برطانیہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں میں نئی قیادت کی دوڑ شروع
ہوئی اور قرعہ فال حکمراں جماعت کی نئی منتخب رہنما تھیریسا مے کے نام نکلا
، جو برطانیہ کی76ویں وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوگئیں۔سابق وزیر داخلہ
تھیر سا مے قدامت پسند پارٹی کی پہلی خاتون وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کے بعد
برطانیہ کی دوسری خاتون وزیر اعظم ہیں جنہوں نے1979ء سے 1990تک ملک کی بھاگ
دوڑ سنبھالی تھی۔مسز مے اچاک کنزتویٹو کی قیادت کا مقابلہ جیت لیا تھا ، جب
کہ ان کے مد مقابل توانائی کی وزیر اینڈریا لیڈسم نے قائدانہ انتخاب سے
اپنا نام واپس لے لیا تھا ، جس کے بعد وہ قیادت کی واحد امیدوار تھیں جنھیں
پارٹی کی1922کمیٹی کی طرف سے منگل کے روز ٹوری کا رہنما منتخب کیا گیا
تھا۔قابل دل چسپ یہ بھی ہے کہ تھریسا مے برطانیہ کے سابق وزیر اعظم جیمز
کیلیگن کے بعد برطانیہ کی تاریخ کی ایک معمر وزیر اعظم ہونگی ، جیمز کیلیگن
1976میں وزرات کا عہدہ سنبھال چکے ہیں ، جب ان کی عمر 64سال تھی ، اب
59سالہ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اپنے منصب سے سبکدوش ہونے والے برطانیہ کے سب
سے کم عمر وزیر اعظم ہیں۔نو منتخب برطانوی وزیر اعظم تھر یسا مے اسلام
فوبیا کی شکار ہیں ، برطانیہ کے مسلمان ان کے وزیر اعظم بننے پر خوش نہیں
ہیں اور انھیں تحفظات ہیں۔ روزنامہ انڈیپنڈنٹ لکھتا ہے ’ شاید ہی کوئی
دوسرا تھریسا مے کی طرح مسلمان کو نقصان پہنچا سکے ‘ ۔ دہشت گردی سے مقابلے
کے نام پر نو منتخب برطانوی وزیر اعظم تھر یسا مے کا مسلمانوں کے خلاف
اقدام اور رویہ زبان زد خاص و عام ہے۔ ان کی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے
مسلمان طلبا لب اعتراض نہیں کھول سکتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں قانون
کی خلاف ورزی کے نام پر نشانہ نہ بنا دیا جائے۔ماضی میں ان کی جانب سے
اسلامو فوبیا کے حوالے سے قراد داد لوگ بھولے نہیں ہیں ۔ برطانیہ کی
کنزرویٹو پارٹی کی لیڈر ہونے کے ناطے تھر یسا مے وزیر داخلہ رہ چکی ہیں اور
اس دور کے مسلم مخالف اقدامات کو دیکھتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان
کی وزرات عظمی کے دور میں مسلمانوں کو خطرات درپیش ہوسکتے ہیں ۔ سال2015 ء
میں تھر یسا مے کو مسلم کونسل کی جانب سے اسلامو فوبیا کا علمبردار قرار
دیا جا چکا ہے۔برطانیہ میں تقریباََ 28 لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں ۔ اور
اعداد و شمار کے مطابق تقریباََ 1500 مساجد موجود ہیں ۔تھر یسا مے کا
مسلمانوں کے بارے میں رویہ کا اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 2015میں
لندن کانفرنس میں وہ امن ، آزادی اور جمہوریت پر مبنی ایک مثبت کاونٹر
بیانیہ دینے کیلئے سول سوسائٹی اور فیتھ گروپوں کے ساتھ ملکر کام کرنے پر
اتفاق رکھتی ہیں لیکن جب امریکی صدر اتی نشست کے امیدوار ٹرمپ کی جانب سے
امریکا میں مسلمانوں کے خلاف بیان دینے پر ردعمل کے طور پر ٹرمپ کے برطانیہ
کے برطانیہ میں داخلے کے حوالے اور پابندی کے حوالے سے سوال کیا گیا توتھر
یسا مے نے جواب دینے سے انکار کردیا۔تھر یسا مے جب وزیر داخلہ تھیں تو
انھوں نے بھارتی اسکالر ڈاکٹر عبدالکریم نائیک پر بغیر کوئی ٹھوس وجہ بتائے
، برطانیہ میں داخلے پر پابندی عائد کردی ہے۔یہ پابندی اتنی غیر متوقع او
مضحکہ خیز تھی کہ بھارتی حکومت خود بھی حیران رہ گئی تھی۔مہیش بھٹ اور
امتیاز مبین جیسے لبرل وکیل بھی سراپا احتجاج بن گئے تھے اور برطانیہ پر
آزادی رائے اظہار کے حوالے سے منافقانہ طرز عمل کا الزام لگایا۔تھر یسا مے
کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر نائیک نے اپنے کئی بیانات میں ’ دہشت گردوں ‘ کے
حوالے سے نرم رویہ اختیار کیا ہے ، جو برطانیہ کے لئے قابل برداشت نہیں
۔ڈاکٹر ذاکر نائیک سے تھر یسا مے کی خوفزدگی کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے پیس ٹی وی نے یورپ میں تہلکہ مچا رکھا تھا ، یورپ اور
شمالی امریکہ میں تیزی سے مقبول ہونے والے مسلمان اسکالرز میں سرفہرست ہیں
، ان کے چینل پر چیدہ چیدہ عیسائی مفکروں اور یوسف گرین ، عبدل رحیم ایسٹس
جیسے نو مسلم اسکالرز کے بیانات نے پورے یورپ میں اسلام کی اشاعت کا ایک
نیا دروازہ کھول دیا تھا ۔ڈاکٹر ذاکر نائیک سے اسلامو فوبیا کے شکار اتنے
خوف زدہ تھے کہ ٹائم میگزین نے بھی اس سلسلے میں ایک مضحکہ خیز اور بھونڈی
خبر شائع کی تھی کہ امریکہ میں دہشت گردوں سے رابطہ کے الزام میں گرفتار
نجیب اﷲ زقی ڈاکٹر ذاکر نائیک سے بہت زیادہ متاثر تھا ۔
یہ بھی بڑا عجیب اتفاق ہے کہ جب وزارت عظمی کے لئے تھریسا مے کے نام کا
انتخاب ہوا تو برطانوی عوام غلط فہمی کا شکار ہوگئی اور فحش فلموں میں کام
کرنے والی تھریسا مے کو مبارکباد کے پیغام بھیجنا شروع کردیئے ، جس پر
اداکارہ تھریسا مے غصہ ہوئیں کہ انھیں وزیر داخلہ تھریسا مے نہ کہا جائے ۔
ان کی پہچان ہی کافی ہے ، اگر کسی نے انھیں وزیر داخلہ تھریسا مے کہا تو
اسے اپنے وئب سائٹ سے بلاک کردیں گی۔برطانیہ کی نومنتخب وزیراعظم مسلمانوں
کے لئے ایک متنازعہ شخصیت ہیں ، ماضی میں ان کے رویئے دیکھنے کے بعد اس بات
کی امید کم نظر آتی ہے کہ وہ مسلم امہ کے مسائل کو غیر جانب دارانہ انداز
میں حل کرنے میں کامیاب رہیں گی ۔افغانستان ، پاکستان سمیت مسلم ممالک
کیلئے ان کا رویہ تلخ اور برطانیہ کے مسلمانوں کیلئے نئی آزمائشیں لئے آرہا
ہے ۔ ویسے بھی برطانیہ نے مسلم امہ کیلئے کبھی بھی معاوندانہ رویہ اختیار
نہیں کیا ، بلکہ مسلم امہ میں انتشار اور خانہ جنگی کیلئے اپنی سازشوں کو
جنگ و محبت میں ہر چیز جائز ہوتی ہے پھر عملدرآمد کیا ہے۔پاکستان سمیت تمام
مسلم ممالک کو اسلامو فوفیا کی شکار تھریسا مے اور ٹرمپ کی مسلمانوں کے
خلاف پالیسیوں حمایت کرنے والی تھریسا مے سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہوگی۔نو
منتخب وزیر اعظم خطے میں امن کیلئے کتنی کوشش کرتی ہیں ، اس کا اندازہ
لگانا مشکل نہیں ہے ۔ کیونکہ برطانیہ کے جتنے مرد وزیر اعظم آئے ہیں انھوں
نے شدت پسندی کے سدباب کے بجائے اسلامو فوبیا کا شکار بن کر اسلام کے خلاف
سازشیں کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کیں ہیں ۔رطانیہ یورپ سے نکلنے کے بعد
بحران سے جلد یا بادیر نکل آئے گا ، لیکن یورپ میں شدت پسندی کی جو لہر چل
نکلی ہے ، اس سے برطانیہ بھی خوفزدہ ہے ۔ حالاں کہ امریکہ و برطانیہ کی
سازشوں سے بننے والی داعش کا رخ اب یورپ کی جانب ہوگیا ہے اور بڑی تعداد
میں برطانیہ اور یورپی باشندے داعش میں شانل ہوگئے ہیں ، اس لئے یورپ کی
دائمی سلامتی کو خطرات لاحق رہیں گے ۔یورپ مسلسل دہشت گردی کے کاروائیوں کے
مکافات عمل کا شکار ہے ، کیونکہ انھوں نے مسلم امہ میں تفرقے کا بیج بو کر
جس طرح مسلم ممالک کو آپس میں لڑایا اور کانہ جنگیاں کرائیں اس سے برطانیہ
سمیت یورپ بھی محفوظ نہیں رہے گا ۔اسلامو فوبیا کی شکار تھریسا مے کا طرز
حکمرانی کوئی انوکھی بات نہیں ہوگی۔لیکن تھریسا مے کی اسلامو فوبیا کی
سازشوں کے پھن سے جہاں اسلامی ممالک کو خود کو بچانا ہوگا ، وہاں یورپی
ممالک کو بھی برطانیہ کی پالسیوں کو وسیع النظر انداز میں دیکھنا ہوگا ۔ان
کی ذرا سی جذباتی غلطی یورپ کیلئے جہاں نقصان دہ ہوگی ، وہاں ٹرمپ کی
پیروکار و حمایتی تھریسا مے کی پالیسیان بھی تمام خطوں میں اہم کردار ادا
کریں گی۔پاکستان میں جاری انتہا پسندی اور برطانیہ میں موجود را کے ایجنٹ
کی پشت پناہی ویسے ہی پاکستان کیلئے مشکلات کا سبب بنے ہوئے ہیں ، تھریسا
مے کے وزیر اعظم بننے کے بعد اس میں شدت تو آسکتی ہے ، لیکن پاکستان کی
حمایت کا تصور بہت پیچیدہ ہے ۔ کیونکہ پاکستان کے حوالے سے ، خاص طور مسلم
امہ کے حوالے سے پاکستان کے کلیدی کردار کو تھریسا مے نے ہمیشہ آنکھوں کا
کانٹا سمجھا ہے ۔چلیں ہم بھی یورپ کے بوڑھے شیر کی نئی وزیر اعظم تھریسا مے
کی چالوں و سازشوں کے مضمرات کو دیکھتے ہیں کہ وہ خطے میں امن چاہتی ہیں یا
شدت پسندی کے خلاف تمام متاثرہ ممالک کو ساتھ لیکر چلتی ہیں۔ |