مظلوم انسانیت کے حق میں اٹھنے والی آوازیں
(Naeem Ur Rehmaan Shaaiq, Karachi)
کچھ لوگوں کی نظر میں سب سے اہم شے انسانیت
ہوتی ہے ۔ یہ لوگ بغیر کسی مذہبی ، سیاسی اور معاشرتی تفریق کے ، انسانوں
پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں ۔ یہ لوگ واقعی عظیم ہوتے ہیں
۔ یہ لوگ بہادر بھی ہوتے ہیں کہ گھٹن زدہ ماحول میں انسانیت کے حق میں
آوازیں بلند کرتے ہیں ۔ دراصل انصاف اسی کو کہتے ہیں کہ مظلوم چاہے اپنوں
میں سے ہو، یا غیروں میں سے ۔۔مظلوم ، مظلوم ہوتا ہے ۔ یہ ناانصافی ہے کہ
اپنے مظلوم کے خلاف تو آواز بلند کی جائے ، لیکن جو اپنا مظلوم نہ ہو ، اس
کو مظلوم ہی نہ سمجھا جائے ۔ اسی طرح اپنا ظالم ، ظالم نہ لگے ۔ لیکن
دوسروں کے ظلم کی خوب تشہیر کی جائے ۔ بہت سے مظلوم سیاست کی آڑ میں ، ظلم
کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور انھیں خبر ہی نہیں ہوتی ۔ سیاست ایک خونی کھیل
ہے ۔ میرے خیال میں تاریخ ِ انسانیت میں جتنا ظلم سیاست کے نام پرہوا ، کسی
اور نام پر نہیں ہوا ۔ بہر حال انسان پر ہونے والے ظلم کے خلاف جو آواز بھی
بلند ہو ، ہمیں اس کو سراہنا چاہیے ۔ چاہے وہ آواز اپنے بلند کریں یا غیر ۔
کم و بیش ایک سال قبل میں نے ایک برطانوی شہر ڈیمین موران کے بارے میں لکھا
تھا ۔ ڈیمین موران نے بھی دراصل انسانیت پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز
بلند کی تھی ۔ برطانوی شہری ڈیمین موران نے اسرائیلی صدر بنجمن نیتن یاہو
کی خلاف ایک آن لائن پٹیشن دائر کی تھی ۔ اس پٹیشن کے مطابق جب بنجمن نیتن
یاہولندن پہنچیں تو انھیں جنگی جرائم کی بنا پر گرفتار کیا جائے ۔کیوں کہ
وہ 2014ء میں ، فلسطین میں 2000 عام شہریوں کے قتل ِ عام کے مرتکب ہوئے تھے
۔ ڈیمین موران کا اشارہ جولائی 2014ء میں غزہ پر ہونے والی اس بے رحم
اسرائیلی بم باری کی طرف تھا ، جس نے 2200 لوگوں کی جان لے لی تھی ۔ ان
دنوں لندن میں اسرائیلی صدر کو دورہ کرنا تھا ۔ اسرائیلی صدر کے خلاف
برطانیہ سے اٹھنے والی یہ 'کم زور ' آواز واقعی قابل ِ ستائش تھی ۔ ڈیمین
موران کی اس آن لائن پٹیشن کو نواسی ہزار سات سو ساٹھ ووٹ اس وقت تک مل چکے
تھے جب میں ان کے بارے میں کالم لکھ رہا تھا ۔ حالاں کہ اس آن لائن پٹیشن
کو صرف برطانوی شہری ووٹ دے سکتے تھے ۔ یعنی یہ نواسی ہزار سات سو ساٹھ
برطانوی لوگ بھی فلسطینیوں کو 'انسان' سمجھتے ہوئے ، ان پر ہونے والے
اسرائیلی مظالم کے خلاف تھے ۔
فیس بک کے ایک پیج “Never Forget Pakistan” پر کشمیر کے حق میں آواز بلند
کرنے کے لیے عجیب وغریب انداز میں احتجاج کیا گیا ہے ۔ اس پیج پر چند مشہور
شخصیات کے چہروں کو اس طرح دکھایا گیا ہے ، جیسے ان کے چہروں کو کشمیر میں
استعمال ہونے والی چھروں والی بندوقوں نے بری طرح بگاڑ دیا ہو ۔ یہ احتجاج
کا بڑا عجیب طریقہ ہے ۔ میری معلومات کے مطابق اس سے پہلے احتجاج کا ایسا
طریقہ کبھی نہیں اپنایا گیا ۔ جن مشہور لوگوں کے چہروں کو بگاڑ کر پیش کیا
گیا ہے ، ان میں فیس بک کے بانی مارک زکر برگ ، بھارت کے وزیر ِ اعظم نریند
مودی ، کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی ،بھارتی ادا کار شاہ رخ خان اور
امیتابھ بچن وغیرہ شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ ان تصویروں کے ساتھ انگریزی میں
تنقیدی اور تلخ طنز پر مبنی تحریریں بھی لکھی گئی ہیں ۔ جبران ناصر ، جو اس
مہم کے پیچھے کار فرما ہیں ، کہتے ہیں کہ جس طرح مرضی ہم اپنی مہم کو
بنائیں ،مگر یہ واضح ہونا چاہیے کہ ہم کسی کے آلہ کار نہ بنیں صرف مظلوم کی
آواز آگے پہنچائیں اور ہم سب ایک بات پر متفق ہیں کہ کشمیریوں کو فیصلہ
کرنے کا حق ملنا چاہیے۔جبران ناصر کی اس مظلوموں کے حق میں اٹھنے والی اس
آواز کو نہ سراہنا اچھی بات نہیں ہے ۔
ان دنوں بھارت کی ایک خاتون صحافی برکھا دت کو کافی شہرت ملی ہے ۔ وہ پہلے
سے ہی بہت مشہور تھی ۔ لیکن حافظ محمد سعید صاحب نے ان کو اور 'مشہور ' کر
دیا ہے ۔ برکھا دت کو حافظ صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا ، لیکن انھوں
نے حافظ صاحب کو سخت تنقید کا نشانہ بنا دیا ۔ حافظ صاحب نے بھارت کی خاتون
صحافی برکھا دت کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب میں کشمیر کے حوالے سے بات
کرتا ہوں تو ہندوستان اپنے مظالم اور دہشت گرد کارروائیاں چھپانے کے لیے
مجھ پر الزام لگاتا ہے، لیکن وہاں برکھا دت جیسے اچھے لوگ بھی موجود
ہیں۔برکھا دت نے در اصل کشمیر میں ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کی تھی
۔ جس کی وجہ سے انھیں ان کے اپنے ملک کے ایک معروف صحافی نے سخت تنقید کا
نشانہ بنا دیا ۔ جس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ ان دنوں کشمیر کے ضمن میں
بھارتی میڈیا سخت تردد کا شکار ہے ۔ جب حافظ محمد سعید نے برکھا دت کی
تعریف کی تو انھوں نے حافظ صاحب کو سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ٹویٹر پر سخت
تنقید کا نشانہ بنایا ۔ لیکن اس کے با وجود کشمیر میں ہونے والے ظلم کے
خلاف ان کی 'صحافتی آواز' کو ضرور سراہنا چاہیے ۔
جب اپنے لوگ 'غیروں ' کا ساتھ دینا شروع کردیں تو سمجھ لیں کچھ نہ کچھ گڑبڑ
ضرور ہے ۔ برکھا دت کے علاوہ اور بھی کئی بھارتی صحافی اور دانش ور ہیں ،
جو کشمیر میں ہونے والے حالیہ بھارتی ظلم کے خلاف لکھ رہے ہیں اور بول رہے
ہیں ۔ لیکن بھارت کے سیاہ و سفید کے مالک حکم ران پھر بھی کشمیریوں کو اپنی
سیاست کے بھینٹ چڑھا رہے ہیں ۔ بھارت کے مرکز میں قائم بی جے پی کی حکومت
فی الحال کشمیر یوں پر ظلم کرنے کے موڈ میں ہے ۔ بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ
نریندر مودی کی حکومت اپنے 'زیر ِ انتظام کشمیر ' میں امن کا قیام نہیں
چاہتی ۔ |
|