پیغام،آفاقی ہو اورزبان مادری
(Md Jahangir Hasan Misbahi, Dera Allah Yar)
جہاںگیر حسن مصباحی
|
|
جس پیغام میں نفرت نہ ہو،بلکہ محبت ہی محبت
ہواورجو مذہب وملت میں فرق کیے بغیر سب کی بھلائی کا طالب ہووہ پیغام
آفاقی ہےاور جو زبان اپنی سادگی اورآسانی کے باعث ہر کسی کی سمجھ میں
آجائے وہ عوامی اورمادری زبان ہےاوریہ دونوں باتیں قرآن کریم کا خاصہ ہیں۔
اب دیکھنایہ ہے کہ قرآن کریم نے جوپیغام دیاہے وہ آفاقی ہے یانہیں؟تو
معلوم ہوناچاہیے کہ اسلام بنیادی طورپر عقیدۂ توحیدو آخرت پر
زوردیتاہے،جس میں نہ تو نفرت کی گنجائش ہے اور نہ یہ کسی ایک جماعت کے لیے
خاص ہے، بلکہ یہ تمام انسانوںکے لیے ہے،خواہ وہ کسی فرد، قوم، قبیلہ یا کسی
ملک وملت سے تعلق رکھتاہو۔
چنانچہ سورۂ اخلاص میں عقیدۂ توحید کا پیغام یوںدیاگیاکہ:
قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ۱ اَللّٰهُ الصَّمَدُ۲ لَمْ یَلِدْوَ لَمْ
یُوْلَدْ۳ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ۴
آپ فرمادیں کہ اللہ ایک ہے،اللہ بے نیاز ہے، نہ اس کا کوئی بیٹاہے ،نہ اس
کاکوئی باپ اورنہ ہی کوئی اس کے برابر کاہے۔
اورسورۂ یس میںعقیدۂ آخرت کاپیغام یوںدیاگیاکہ:
وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِيَ خَلْقَهٗ قَالَ مَنْ يُحْيِ الْعِظَامَ
وَهِيَ رَمِيمٌ ۷۸قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ
۷۹
ترجمہ:ہم سے کہاوت بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیااورکہنے
لگا:کون بوسیدہ ہڈیوںکوزندہ کرے گا؟ آپ فرمادیں کہ اسے وہی ذات زندہ کرے
گی جس نے اُنھیںپہلی بارپیدافرمایا۔
لیکن یہاں پر یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ تمام آسمانی
کتابوں،فرشتوںاورپیغمبروںکےبرحق ہونے پر ایمان لائے بغیرنہ تو عقیدۂ توحید
کچھ فائدہ دےگا اور نہ ہی عقیدۂ آخرت ۔
پھر اس پیغام کواوربھی آفاقی بنانے اوراُسے عوام الناس تک پہنچانے کے
لیےآسان زبان وبیان کے ساتھ علاقائی زبانوں کو اہمیت بھی دی گئی، ورنہ کیا
وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنےکلام کو مختلف علاقائی زبانوں میں نازل
فرمایا، جیسے: توریت کی زبان الگ تھی ، زبور کی زبان الگ تھی،انجیل کی زبان
الگ تھی اورخودقرآن کریم کی زبان سب سے الگ تھلگ تھی اورجب سب کا پیغام
ایک ہی تھاکہ : ایک اللہ کومعبود مانا جائے،اس کے سواکوئی معبود ہونے کے
لائق نہیں،اس کے رسولوںپر ایمان لایا جائےاوراس کے احکام پر عمل کیاجائے۔
پھر مختلف زبانوںمیں کلام الٰہی نازل کرنے کی ضرورت کیا تھی؟
اس رازسے پردہ اٹھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتاہےکہ:
وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِیُبَیِّنَ
لَهُمْ۴(ابراہیم)
ترجمہ:اور ہم نے ہر رسول کواس کی قوم ہی کی زبان میں بھیجا ،تاکہ وہ
انھیںواضح طورپر (دین)بتائے۔
خودنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
إِنَّا مَعَاشِرَ الْأَنْبِيَاءِ كَذٰلِكَ أُمِرْنَا أَنْ نُكَلِّمَ
النَّاسَ بِقَدْرِ عُقُولِهِمْ۔(من حديث خيثمة بن سليمان ،ج:۱،ص: ۷۵)
ترجمہ:ہم انبیاکی جما عت کو یہ حکم دیاگیاہے کہ لوگوں سے ان کی سمجھ کے
مطابق گفتگو کریں۔
یہی وجہ ہےکہ اولیائے کرام اور صوفیائے عظام نے بھی علمی اور ادبی زبان پر
قدرت رکھنے کے باوجودعلاقائی اور عام فہم مادری زبان کو وسیلہ بنایااور اس
کے ذریعے اپنی بات لوگوں تک پہنچائی ۔ثبوت کےلیےکہیںدورجانے کی ضرورت
نہیں،بلکہ خود ہندوستان کے عظیم صو فیوں کی دعوتی اور عملی خدمات اِس بات
کی روشن اورواضح دلیل ہیں۔ اس تعلق سے سلطان الہندخواجہ غریب نواز،خواجہ
قطب الدین بختیارکاکی اور خواجہ فریدالدین گنج شکراورخواجہ نظام الدین
اولیاقدست اللہ اسرارہم کی حیات طیبہ خاص طورپر دیکھی جاسکتی ہے۔ اس
کااثریہ ہواکہ دین کا پیغام نہ صرف عام مسلمانوںتک پہنچا، بلکہ بہت سے
غیرمسلم جو قرآن کی زبان نہیں سمجھ سکتےتھے، یاجو دین کے بارےمیں غلط فہمی
کے شکار تھے، ان تک دین پہنچانااورانھیں دین سمجھاناآسان ہوگیا ،نیز ان کے
ذہن میںجو غلط فہمی کی گردجمی ہوئی تھی اُسے دورکرنے کا سنہراموقع مل گیا۔
ان تمام حقیقتوں کو جان لینے کے بعد یہ بات ذہن میں ابھرتی ہے کہ آج بھی
ہم محنت ومشقت کے ساتھ اپنادینی فریضہ انجام دے رہےہیں،بڑی مہارت و ہنرمندی
سے اپنا پیغام عوام تک پہنچارہے ہیںاورکافی تلاش وتحقیق کے بعد اپنی
تحریریں تیار کررہے ہیں ،اس کے باوجودہم دنیا پر اپنااثر چھوڑنے اوراپنے
پیغام کوگھرگھرپہنچانےمیں ناکام ہیں، کیوں؟
میرےخیال میں اس کی اہم وجہ یہ ہےکہ ہم صرف اپنا پیغام پہنچانےمیں یقین
رکھتے ہیںاور اسی کوکافی جان لیتے ہیں جب کہ اُسےآفاقی کیسے بنایاجائے
اورعوام میں اُسے مقبول بنانے کے لیے کون سالہجہ اور کیسی زبان استعمال کی
جائے اس پر غوروفکر نہیں کرتے ہیں۔
مثال کے طورپرایک دوکان دارکے پاس سامان خریدنے کے لیے ہر طرح کے لوگ آتے
ہیں،جس میں پڑھے لکھے بھی ہوتے ہیں اور اَن پڑھ بھی،امیربھی ہوتےہیں اور
غریب بھی ، گاؤںوالےبھی ہوتےہیں اور شہری بھی۔ اب اگر دوکان دار اِن تمام
قسم کے لوگوں کی ضرورت اورمزاج کےمطابق سامان نہیں رکھتا ،یااگر سامان لین
دین کرتے وقت وہ تمام لوگوںکا خیال نہیں رکھتا ، تو نہ تو اس کی دکان صحیح
ڈھنگ سے چل پائے گی اور نہ ہی وہ اپنے مقصدیعنی منافع کمانے میں کامیاب
ہوپائےگا، کیوںکہ ایک دکان دارکے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی دکان پر آنے
والےہر گراہک کے مزاج کا خیال رکھنے کے ساتھ ،ان کے ذہن میں اپنےسامان کی
خصوصیات(Quality) کی دھاک بٹھائے،تاکہ وہ خریدنے پر مجبورہو۔
اسی طرح ہمیں چاہیے کہ عوام اور اپنے مخاطب کے مزاج کوسمجھیں،اپنے پیغام کی
انفرادیت کو ان پر واضح کریں اور اس کے آفاقی پہلو کو سامنے رکھیںکہ اپنے
پیغام میں کوئی ایسی بات نہ کہیںجس سےنفرت پھیلے اورکوئی ایسالب ولہجہ
اختیارنہ کریں جس کے سبب لوگ حق سے قریب ہونے کے بجائے دورہوں۔
بالخصوص آج کےترقی یافتہ زمانے میں جب کہ ہر طرف نئی نئی ٹکنالوجی استعمال
کی جارہی ہے،تو ایسےعالم میں اپنے پیغام کو اور بھی آفاقی بنانےکی ضرورت
ہے ،وہ اس طورپرکہ جہاں لاؤڈاسپیکر، ویڈیوریکارڈنگ ،رپورٹنگ وغیرہ ہو رہی
ہو وہاںپر ایسی بات کی جائے جو مسلم اورغیرمسلم سب کے حق میں
مفیدہو،مثلاً:ایسے موقعوںپراختلافی اور جزوی باتوںسے پرہیز کرتے ہوئے
عقیدۂ توحیدو رسالت، اخلاقیات،اسوۂ حسنہ اوربشارتی پہلو سے گفتگو ہوتو اس
کا نتیجہ بہترسے بہتر نکل سکتاہےاور ایسے ماحول میں نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کے اس فرمان پر عمل کرنازیادہ مناسب ہے کہ:
بَشِّرُوْا وَلا تُنَفِّرُوْا۔(ابو داود،باب فی کراہیۃ المرء)
ترجمہ:بشارت دواورنفرت نہ پھیلاؤ۔
چنانچہ اگرحقیقت میں ہم بھی اپنے پیغام کوآفاقی رنگ
دیناچاہتےہیں،توہمیںہرحال میں تعصب ونفرت والی باتوںسے پرہیز کرنا
ہوگااورقرآن کریم کی طرح پوری انسانی برادری کوسامنے رکھ کر
گفتگوکرناہوگا،نیزاگر ہم اپنے پیغام کو عوام میں مقبول بنانا چاہتے ہیں
تومنطقی اندازاورفلسفیانہ طرزکے بجائے قرآن کریم کی طرح علاقائی بولی
اورعوام میں سمجھی جانے والی آسان زبان کوبہرصورت تحریروتقریرمیں اپنانا
ہوگا، تبھی ہمارا مقصد پوراہوگااورہم اپنے پیغام کو آفاقی رنگ دے کرزیادہ
سے زیادہ عوام الناس تک پہنچاسکتے ہیں،ورنہ نہیں۔
یہی وہ اہم وجہ رہی کہ ’’خضرراہ‘‘وجودمیں آیا۔جس کا مقصدہی یہی ہے کہ
آسان اندازاورمادری زبان میں عقیدۂ توحیدو رسالت کی تعلیمات ،اخلاقیات
اور اسلامی احکامات لوگوںتک پہنچائےجائیں،تاکہ بخوبی دین کی خدمت ہو۔
اللہ کاشکر ہے کہ اس تعلق سے رسالےکو ہرممکن کامیابی ، ہر دل عزیزی
اورمقبولیت حاصل ہورہی ہے ،جس کےگواہ قارئین کے وہ تبصرے ہیں جو ہمارے پاس
ہرماہ پہنچتے ہیں اورتأثراتی صفحات کی زینت بنتے ہیں۔
|
|