درد جس دل مین ہو میں اس دل کی دوا بن جاؤں

بنگلہ دیش بم دھماکوں کے حملہ آوروں کے طور پرنامزد کیے گئے دو اشخاص کا نام ذاکر نائیک کے فالوورس میں کیا ملا،فرقہ پرستوں کو تو گویا ایک بہانہ مل گیا ۔یوں توویسے بھی کئی دنوں سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا جاری ہے ، لیکن یہ زہر اب سیاسی داؤ پیچ کے ذریعہ عوام تک پہنچایا جارہا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک پر لگائےگئے الزامات کو جہاں تحقیاتی ایجنسیاں نظر انداز کرتی رہیں وہیں ملک کی ایک خود ساختہ عدالت"میڈیا" اس معاملے پر اپنے فیصلے پر فیصلے دیتی رہی اتنا ہی نہیں ایک نامور چینل نے توکمال ہی کردیا ،مسلمانوں جیسے نام رکھنے والے چند گواہ بھی کہیں سے اٹھا لائے جو ڈاکٹر نائیک کے" خطرناک جرم "کو ثابت کرنے کے لیے اپنی جھوٹی گواہی پیش کرتے ر ہے۔لیکن چونکہ ان کی یہ چرب زبانی سراسر جھوٹ پر مبنی تھی اس لیے اپنا قیمتی وقت برباد کرنے کے سوا انھیں کچھ حاصل نہ ہوا
 بنگلہ دیش بم دھماکوں کے حملہ آوروں کے طور پرنامزد کیے گئے دو اشخاص کا نام ذاکر نائیک کے فالوورس میں کیا ملا،فرقہ پرستوں کو تو گویا ایک بہانہ مل گیا ۔یوں توویسے بھی کئی دنوں سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا جاری ہے ، لیکن یہ زہر اب سیاسی داؤ پیچ کے ذریعہ عوام تک پہنچایا جارہا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک پر لگائےگئے الزامات کو جہاں تحقیاتی ایجنسیاں نظر انداز کرتی رہیں وہیں ملک کی ایک خود ساختہ عدالت"میڈیا" اس معاملے پر اپنے فیصلے پر فیصلے دیتی رہی اتنا ہی نہیں ایک نامور چینل نے توکمال ہی کردیا ،مسلمانوں جیسے نام رکھنے والے چند گواہ بھی کہیں سے اٹھا لائے جو ڈاکٹر نائیک کے" خطرناک جرم "کو ثابت کرنے کے لیے اپنی جھوٹی گواہی پیش کرتے ر ہے۔لیکن چونکہ ان کی یہ چرب زبانی سراسر جھوٹ پر مبنی تھی اس لیے اپنا قیمتی وقت برباد کرنے کے سوا انھیں کچھ حاصل نہ ہوا ۔اب جبکہ داعش کو بہانہ بناکراے ٹی ایس نے پھر سے مسلم نوجوانوں پر اپنا جا ل بچھانا شروع کردیا ہے تو ایسے میں ان مخصوص میڈیا چینلس کو اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا ایک نیا موقع ہاتھ آیا ہے۔اب تک جتنے بھی مسلم نوجوان اے ٹی ایس کے ذریعہ جیل کی سلاخوں کی نذر کیے گئے وہ تعلیم یافتہ تو ہیں ہی لیکن دیندار بھی ہیں ،اور ان کا مذہبی ہو نا ہی اسلام کے مخالفین کی آنکھوں میں تکلیف پیدا کر رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جو بھی مسلم نوجوان نام نہاد دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہورہا ہے اس کی صاف ستھری شبیہہ کو نہ صرف جھوٹے الزامات لگا کر خراب کیا جاتا ہے بلکہ میڈیا کے کماؤ چینلس اپنی من گھڑت رپورٹنگ سے ناظرین کے دلوں میں ان بے گناہ نوجوانوں کے متعلق دہشت پیدا کرتے رہتے ہیں۔

حقیقت میں تو یہی ہمارے ملک کے سب سے بڑے دہشت گرد ہیں جو کبھی تو ایک بے روزگاراور جدید ٹکنالوجی سے ناواقف انسان کو منٹوں میں اپنی زہریلی سوچ کے مصالحے لگاکر بم بنانے میں ماہر بتانے لگتے ہیں ، تو کبھی اپنی مصروفیات کے باعث رات کے اندھیرے میں کمپیوٹر کا استعمال کرنے والے کو دہشت گرد کا لقب دینے پر بضد رہتے ہیں،تو کبھی اپنے اخلاق کے ذریعے اسلام کی دعوت دینے والوں پر زبردستی اسلام قبول کروانے کا الزام لگا کر لوگوں کو خبردار کرتے رہتے ہیں۔اور کبھی حد سے گزر کر قرآن پاک کی ان آیات کی دھجیاں اڑانے لگتے ہیں جن میں نیک کام کرنے والوں کے لیے جنت میں حوروں کی بشارت دی گئی ہے۔ایسے تمام نیوز چینل جو اس کار شر کو اپنی دانست میں بڑا پُونیہ کا کام سمجھتے ہیں ،انھیں جان لینا چاہیے کہ ا پنی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے ذریعے وہ ملک کے چوتھے ستون کو کمزور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اب ایک طرف تو یہ "ذمہ دار "صحافت کا ڈھونگ رچنے والے صحافی حضرات ہیں تو دوسری طرف ہمارے جیسے عام مسلمان جو ٹی وی کی اسکرین پر اپنے بھائیوں اور بیٹوں کے ساتھ ہورہی نا انصافیوں کو دیکھ کر صرف اپنے ہونٹ چبا سکتے ہیں ،کیونکہ ہمیں ڈر ہے کہ اگر ا س سے آگے کچھ کیا تو "داعش والوں کی مدد کرنے کے الزام میںپکڑنہ لیے جائیں۔کیا کریں جناب معاملہ ہی کچھ ایسا ہے ، اسلام کی حفاظت کے لیے ہم تو اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہیں اسی لیےجب بھی کوئی گستاخ ہمارے رسول ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کی جرات کرتاہے تو ہم اپنی مصروفیات میں سے قیمتی وقت نکال کردھرنا اور میمورنڈم دے کر اپنافرض ادا کردیتے ہیں۔حب الوطنی کا اگر کوئی ہم سے سرٹیفکٹ مانگنے لگے تو ہم اسے اپنی با وقار افطار پارٹیوں اور عید ملن پارٹیوں میں مدعو کرلیتے ہیں،دنیاوی زندگی کے کسی امتحان میں ملت کی بیٹیوں کو اگر سروں سے چادریں اتارنے کا حکم ملتا ہے تو ہم عدالت کے دروازےکھٹکھٹادیتےہیں، لیکن جب جیل کی سلاخوں کے پیچھے ایک کے بعد ایک داخل ہونے والے بے گناہ ،کمزور،اپنے گھر والوں کے واحد سہارے،ہماری قوم کے مستقبل کے معمار ،دیندارنوجوانوں پر ہماری نظر پڑتی ہے تو ہمارے قدم آگے بڑھنے سے پہلے ہی پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔ہم اس وقت وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں دھرنے ،احتجاج ، ہڑتالیں،میمورنڈم اور عدالت کے وہ دروازے جہاں تک جانے سے پہلے ان بے بس نوجوانوں کو وکیلوں کی موٹی موٹی فیس کا انتظام کرنا پڑتا ہے ،اور ہم میں سے کوئی بھی یہ جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ وہ کسطرح اس رقم کا انتظام کرتے ہیں ،آخر چند گنے چنے وکلاءجوباوجود اس کے کہ ان تمام بے قصوروں سے ہمدردی رکھتے ہیں ،کتنوں کی پیروی کرسکتے ہیں؟

یہ بھی سچ ہے کہ ہم میں سے اکثر اپنی مسلکی زنجیر کی گرفت میں ہیں ، ہمارے ان مسلمان بھائیوں کا قصور اورکچھ نہیں تو ہمارے مسلک سے دور رہنا تو ہے ،اپنے مسلک کی مخالفت کرنے والوں کو ہم جیل سے رہا کیسے کرواسکتے ہیں؟اور یہ بات بھی ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ حق کے لیے انصاف مانگنا ہمارے مسلکوں کی تعلیمات میں کو ئی رکاوٹ پید نہیں کرسکتا۔ہم اپنے پرسکون رہائش گاہوں میں آرام د ہ قالینوں اور کرسیوں اور صوفوں پر بیٹھ کر جب دنیا کے حالات پر تبصرے کرتے ہیں تو افسوس تو ضرور کرتے ہیں ،شہید اخلاق احمدکے خاندان والوں کے ساتھ جب دوہری ناانصافی ہونے لگتی ہے تو ہم اس پر بھی افسوس کرتے ہیں،کشمیر کے نہتے مسلمانوںکو پیلٹ گن کے ذریعے نابینا کیا جاتا ہےتب بھی ہم کودکھ ہوتا ہے ،ہمارے دل کو اس وقت بھی ٹھیس پہنچتی ہے،جب ہم اپنے بچوں کے معیاری لیکن مذہب سے بیگانہ کردینے والے اسکولوں کی کتابوں میں اپنے پیارے نبیﷺ کی توہین ہوتے دیکھتے ہیں،انسانیت تو اس وقت بھی ہمارے سینوں میں جاگ اٹھتی ہے جب ہم مسلمانوں کی طرح اس ملک کے دلتوں پربھی بری طرح ظلم ڈھائے جاتے ہیں،لیکن اتنے زیادہ درد منداور انسانیت نواز ہونے کے باوجود ہمارے افسوس ناموں پر کوئی دھیان کیوں نہیں دیتا ،ہم مصلحت "کے راہیوں پر کسی کی نظر کیوں نہیں پڑتی ۔ دلتوں نے جب ظلم کی حد پار ہوتی محسوس کی ،فوراانصاف کی آواز بلند کردی ۔ کیا ہم اپنی درد مندی کمروں کے بند دریچوں میں ظاہر کرنے کی بجائے آزاد فضا میں ظاہر نہیں کرسکتے؟کیا ہمارے قاندین ،لیڈران، رہنما ،ملت کی پاسبانی کا دم بھرنے والے اپنی شان و شوکت اور بڑی بڑی باتوں کی بجائے صرف ایک ماں کے لعل کی گردن کو چھڑا نہیں سکتے ،کیا ایک جمیتہ العلما ء کی بجائے مسلمانوں کی ہر جماعت فکو العانی ( قیدیوں کو چھڑاؤ ) کے درس پر عمل نہیں کرسکتی؟

کیا ہمارے تمام مسلمان وکیل حضرات اپنے ان مسلم و غیر مسلم ساتھیوں کا ساتھ نہیں دے سکتے جو اپنی قابلیتوں کے ذریعہ مظلوموں کی دعائیں حاصل کررہے ہیں ؟کیا ہماری مال و دولت کا ادنیٰ سا حصہ بھی ان مظلوموں کی زندگیوں کو بربا د ہونے سے بچا نہیں سکتا؟ کیا ہم کچھ بھی نہیںکرسکتے ؟پھرہمیں کوئی حق نہیں کہ اپنے گھروں میں افسوس افسوس کی صدائیں بلند کرتے رہیں۔
درد بڑھتا گیا جتنے درماں کیے ، پیاس بڑھتی گئی جتنے آنسو پیے
اور جب دامن ضبط چھٹنے لگا ہم نے خوابوں کے جھوٹے سہارے لیے
Qudsiya Sabahat
About the Author: Qudsiya Sabahat Read More Articles by Qudsiya Sabahat: 6 Articles with 4560 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.