جنت کی نہریں
(Muhammad Kaleem Ullah, )
انسان کا اصل زیور علم ہے۔ ورنہ بغیر علم
انسانی ڈھانچے کو اللہ کریم نے قرآن کریم میں درجہ حیوانیت سے بھی کم تر
قرار دیا ہے، اس سے علم کی اہمیت و حیثیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ،
دیناسلام میں بنیادی چیز ایسا علم ہے جو انسان کو خالق کی معرفت ، شریعت کا
فہم اور اپنی حیثیت پر غورو فکر کرنے کے لیےآمادہ کرے۔ اللہ کریم کے نازل
شدہ دین پر عمل کرنے کا جذبہ موجزن کرے علم دین کہلاتا ہے، مسلمان کی زندگی
میں اسے اولیت حاصل ہے۔نبی کریم کی بعثت کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم
خود بیان فرماتے ہیں کہ انما بعثت معلما۔ مجھے بطور معلم مبعوث کیا گیا ہے
۔اس سے اگلا مرحلہ ہے حصول علم کا ۔ اس کے لیے بنیادی طور پردو طرح کے
تعلیمی ادارے وجود میں آئے۔ نمبر1: دینی ادارے نمبر2: عصری ادارے
دینی اداروں میں تو صبح و شام دین کی ہی تعلیم دی جاتی ہےاور عصری اداروں
میں دیگر دنیاوی فنون سکھلانے کے ساتھ ساتھ دین کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔
ہمارے ملک کے عصری اداروں میں بحیثیتمجموعی اسلامیات کو پڑھانے والے اساتذہ
صاحب علم ہوتے ہیںجبکہ بعض عصری اداروں میں اسلامیات کے اساتذہ واجبی سا
دینی علم رکھتے ہیں اور چند عصری ادارے ایسے بھی ہیں جہاں کے اساتذہ کی
تعلیم بالخصوص دینی قابلیت قابل صد افسوساور قابل رحم ہے۔
اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جہاں استاد قابل اور صاحب علم ہوگا
وہاںشاگردوں میں بھی ویسی ہی سوچ و فکر منتقل ہوگی اور اگر استاد
ہی”بدھو“ہو تو طلبا٫کے ذہنوں میں وہی ”بدھو پن“ منتقل ہوگا۔پچھلے دنوں سے
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے کہ اسلام آباد ایک نجی کالج میں
ایک پروفیسرصاحب بچوں کو پڑھا رہے ہیں۔ اوّل تو انداز ہی ایسا تھا جس میں
سنجیدہ پن کو تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، بالکل بھونڈا اور
گھٹیا، پھر اس کے بعد جو وہ سبق دے رہے تھے وہ اسلامی جمہوری ملک میں سراسر
غیر اسلامیتھا۔
موصوفجنت کی نہروں کی تشریح کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ
”یہ جو)علما٫کرام کو گالی دیتے ہوئے( کہتے ہیں جنت میں مختلف نہریں ہوں گی
، پانی ، دودھ ، شراب طہور اور شہد کی نہریں) العیاذ باللہ( سب بکواس ہے،
شہد تو اتنی گھٹیا چیز ہے اسے دنیا کوئی پسند نہیں کرتا تو اللہ جنت میں
انعام کے طور پر کیوں دیں گے؟…………موصوف نے مزید استہزا٫ کرتے ہوئے کہا کہ
شہد کی نہریں ان پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہوں گی اور مولوی ) پھر گالی دیتے
ہوئے کہا ( چاٹ رہے ہوں گے۔“
اس کے بعد پوری کلاس قہقہوں سے گونج اٹھی ۔
ہماری معلومات کے مطابق یہ صاحبپہلے سمجھ دار انسانواقع ہوئے ہیں جو شہد
جیسی کار آمد ، مفید ، صحتافزاءاور شفا بخش چیز کو گھٹیا کہہرہے ہیں ورنہ
کوئیبھی صاحب عقل شخص شہد جیسی نفع بخش چیز کو گھٹیا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
اب آتے ہیں قرآن کریم کی طرف! قرآن کریم نے جنتیوں پر اللہ کی نعمتوں کا
تذکرہ بہت سارے مقامات پر بڑے دلنشین الفاظ میں کیا ہے ۔26 واں پارہ سورہ
محمد کی آیت نمبر15پر اللہ تعالیٰ نے جنتیوں کا ایک اعزاز یہ بھی ذکر
فرمایا کہ اہل جنت کو جنت میں پانی ، دودھ، شراب طہور اور شہد کی نہریں
میسر ہوں گی، پھر ہر ایک نہر کے اوصاف بھی قرآن کریم نے ساتھ ذکر فرما دیے
ہیں، ماء غیر اٰسن پانی کی نہر ہوگی لیکن اس میں بدبو نہیں ہو گی، لبن لم
یتغیر طعمہدودھ کی نہر ہو گی لیکن ایسا دودھ جسکا ذائقہ اور مزہ خراب نہیں
ہوگا۔ خمر لذۃ للشاربین شراب طہور پینے والوں کے لیے لذیذ ، مزے دار۔ عسل
مصفیّٰایسا شہد جسکی جھاگ اتار لی گئی ہو ، بالکل صاف ستھرا۔ اسکے علاوہ
اہل جنت کو دیگر میوے بھی بطور انعام دیےجائیں گے۔ اس کے بعد جہنمیوں پر
عذاب کا ذکر فرمایا ہے ۔ ان کو جہنم کا کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا جس
سے ان کی آنتیں کٹ جائیں گی ۔
اتنی صراحت سے قرآن کریم نےان نہروں کا جہاں تذکرہ کیا ہےوہاں انکے اوصاف
بھی بتلا دئیے ہیں۔ شہد کا تذکرہ کیا ہے تو ساتھ ہی یہ ذکر فرما دیا کہ ساف
ستھرا ہوگا، مصفیّٰ اسکی جھاگ اتار لی گئی ہوگی ۔ لیکن کیا کیا جائے
پروفیسر صاحب کا وہخود یہ شہد استعمال نہیں کرنا چاہتے ہیں ۔ روز جزا کے
بعد جب دونوں قسم کے لوگ اپنے اپنے مقامات پر پہنچ جائیں گے تو ہر ایک اپنے
حصے کی جزا اور سزا پا لے گا ۔ ہماری خواہش ہے بلکہ دلی دعا ہے کہ پروفیسر
صاحب جنت کی نہروں سے مستفید ہوں لیکن اگر وہ ان کو اپنے لیے اچھا نہیں
سمجھتے تو دوسرا آپشن بھی ان کے سامنے موجود ہے ۔
ہمارے لیے حیرت کا مقام ہےکہ ایک بڑے کالج کا پروفیسر قرآن کریم کی آیات ،
خدا کے انعامات کا اس بھونڈے انداز میں تذکرہ کرتا ہے کہ طلبا٫ کے دل و
دماغ میں آیات قرآنیہ کی عظمت بے حیثیت ہو کر رہ جائے ۔ کالج کی
انتظامیہاور وہاں پڑھنے والے اسٹو ڈنٹ اس کی باز پرس نہ کریں ۔ عام طور
پرہم نے دیکھا ہے کہکالج کے اسٹوڈنٹ چند ٹکے کرایہ نہ دینے کے لیے
ٹرانسپورٹ کمپنیوں کا لاکھوں کا نقصان کرڈالتے ہیں ۔ ڈرائیور وں اور
کنڈیکٹروں کو سڑکوں پر طر ح طرح کے ذلت آمیز سلوک کا نشانہ بناتے ہیں ،
افسوس صد افسوس کہ کرائے کے چند ٹکوں کے لئے ان کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں
لیکنانکے سامنے قرآن کریم جیسی مقدس کتاب کی بھونڈے انداز میں
گستاخانہتشریح ہوتی رہے یہ وہاںبالکل چپ سادھ پر بیٹھے رہے کسی نے بھی
پروفیسر صاحب کو قرآن کریم کے تقدس پامال کرنے پر نہیں ٹوکا۔ کوئیپر امن
احتجاج بھی نہیں کیا ۔ صد حیف ہے ایسے اسٹوڈنٹ پر بھی ۔
ہمیں غور کرنا ہوگا کہ کہیں ہمارا خون سفید تو نہیں ہو گیا؟تعلیمی اداروں
کے منتظمین اور ارباب حل و عقد ان معاملات پر سنجیدگی سے غور کریں کہ کہیں
ان کے ادارے میں کوئی ایسا استاد توموجود نہیں جو تعلیم کے نام پرطلباء کے
ایمان کو برباد کررہاہو ؟ طلباء بھی اس معاملے میں ایمان بیداری ثبوت دیں۔
جہنم کے بدبو دار گرم کھولتے ہوئے پانی اور پیپ سے پناہ مانگتے ہوئے ہمیں
اللہ سے جنت کی نہریں مانگنی چاہییں ۔ ہمارا ایمان ہے کہ جنت کی نہریں
موجود ہیں ۔ کاش ہم سب ان کوحاصل کرنے کی محنت کرنے لگ جائیں ۔ |
|