مطالعہ تاریخ میں ایک فکری مغالطہ

تاریخ کا انفرادی نقطہ نظر اجتماعی قومی تبدیلی کی سوچ کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اس حقیقت کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ عملی طور پر کوئی شخصیت چاہے کتنی بھی بڑی صاحب کمال ہو وہ تن تنہا کوئی انقلاب پیدا نہیں کر سکتی ۔جتنی بھی شخصیات تاریخ میں گذری ہیں ان کے ارد گرد رونما ہونے والی تبدیلیاں ان کے ساتھ مل کر کام کرنے والی جماعتوں کی بدولت تکمیل پذیر ہوئیں،یہ فطری اصول ہے لہذا آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا۔ضروری ہے کہ نوجوان نسل اپنی تاریخ کو اجتماعی نقطہ نظر سے مطالعہ کریں، ہر دور میں وقوع پذیر ہونے والے اجتماعی نظاموں کے معاشی، سماجی اور سیاسی ڈھانچوں اور ان کے اجتماعی اثرات کا مطالعہ کریں، اور یہ جانیں کہ کس طرح اجتماعی جدو جہد سے قومیں عروج پہ پہنچی ہیں اور وہ کون سے اجتماعی اسباب تھے جب قومیں مغلوب ہو گئیں اور زوال کے گہرے گڑھے میں گر گئیں۔اسی تناظر میں انسانی تاریخ، اسلامی تاریخ، برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے۔اور ان تاریخوں میں پنہاں ان اجتماعی تحریکوں کا مطالعہ کرنا چاہئے جن کی بدولت انسانیت نے ترقی کی موجودہ منزل کو پایا۔
تاریخ در اصل قوموں کے عروج و زوال کی ایک داستان ہے،جو پچھلے ادوار میں وقوع پذیر ہونے والے افکار و واقعات کو بیان کرتی ہے، ان افکارواقعات کے نتیجے میں حاصل شدہ کامیابیوں اور ناکامیوں کا تذکرہ کرتی ہے۔سماجیات کے ماہر اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں کہ روز اول سے عصر حاضر تک انسانوں نے تہذیبی و تمدنی ترقی کے ان گنت مراحل طے کئے، ان تمام مراحل میں ان گنت تہذیبیں ابھری اور مٹ گئیں، انسانوں نے بڑی بڑی بستیاں بسائیں، تمدنی حوالوں سے انہوں نے ان گنت تجربات کئے، جن کی بدولت انسان شکاریاتی دور سے ترقی کرتا ہوا زرعی، صنعتی، کمپؤٹر دور اور پھر آج ٹشو کلچر کے زمانے تک پہنچ گیا۔انسانی ترقی و کمال کی یہ داستان انتہائی دلچسپ ،طویل ، ان تھک اور کٹھن جدو جہد سے عبارت ہے۔انسانوں نے آج کی اس منزل تک پہنچنے کے لئے کئی نسلوں کی قربانیاں دیں، انسانوں نے ترقی کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کیں، تب ہی آج ہم اپنے ارد گرد علوم، وافکار، تہذیب وتمدن، سائنس اور ٹیکنالوجی کے یہ انقلابات اور عجائبات ملاحظہ کر رہے ہیں۔یہ سب کچھ ایسے ہی نہیں ہو گیا اس کے پیچھے انسانوں کی صدیوں کی اجتماعی محنت کار فرما ہے۔

انسانی معاشرے اپنا ایک تاریخی تسلسل رکھتے ہیں پچھلے تجربات سے استفادہ کئے بغیر اگلے مرحلے میں داخلہ مشکل ہو جاتا ہے۔ ارتقاء کے اس سفر میں ہر آنے والی نسل پچھلی نسل کے تجربات سے فائدہ اٹھاتی ہے اور تمدنی زندگی میں آگے بڑھتی ہے۔جو قومیں انسانی تاریخ کا درست شعور رکھتی ہیں وہ کامیابی سے اپنے ارتقاء کا سفر جاری رکھتی ہیں، اور جو قومیں تاریخ کے حقیقی شعور سے نابلد ہو جاتی ہیں وہ زوال سے ہمکنار رہتی ہیں۔تاریخ کا درست شعور کیا ہے؟اس پہ غورکرنے کی ضرورت ہے،اگر ہم انسانی زندگی کے ارتقاء کی اس داستان کا مطالعہ کریں تو ایک وصف ہمیں پوری تاریخ میں نظر آتا ہے وہ ہے’’ اجتماعیت‘‘ انسانوں نے مل جل کر باہمی تعاون کے ساتھ اپنی اپنی صلاحیتوں کو یکجا کیا اور مل کر اجتماعی کوششوں سے خاندان، قبیلے اور پھر اقوام کی تشکیل کی، معاشروں کو چلانے کے لئے نظام اور شعبہ جات تخلیق کئے اور مزید یہ کہ عالمی سطح پہ اقوام کے اتحاد وجود میں آئے جو پورے کرہ ارض کی بہتری کے منصوبے بنا رہے ہیں۔دراصل انسانی تاریخی تسلسل میں روح رواں انسانوں کی اجتماعی جدو جہد ہے جس کی بدولت انسانی معاشروں میں انقلابات ظہور پذیر ہوئے،انسانوں کی مختلف جماعتوں نے مل کر تمدن تشکیل دئیے،انسانوں کی ترقی کی داستان میں انسانوں کے مختلف گروہوں نے اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق حصہ ڈالا جس سے اجتماعی تمدن وجود میں آئے،انسانوں کے تجربات اور کامیابیوں اور ناکامیوں سے حقیقی رہنمائی اس وقت ہی حاصل کی جا سکتی ہے جب تاریخ کے مطالعے میں اجتماعی نقطہ نظر کو اپنایا جائے۔ اگر ایک لمحے کے لئے یہ سمجھا جائے کہ روز اول سے آج تک انسانوں کی ترقی و کمال کا سہرا صرف چند شخصیات کے سر ہے تو یہ تاریخی ارتقاء میں کار فرما اجتماعی محرکات سے بے شعوری کی دلیل ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ میں رونما ہونے والے اجتماعی سیاسی، معاشی اورسماجی تجربات کے استفادے سے محرومی ہو گی۔

خاص طور پہ اس تناظر میں آج ہم اپنے معاشرے کا تجزیہ کریں تو تاریخ کا انفرادی نقطہ نظر سے مطالعہ مزاج بن چکا ہے ۔اگر مرتب شدہ تاریخ کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مؤرخین نے تاریخ لکھتے وقت مقتدر شخصیات ہی کو زیادہ تر موضوع سخن بنایا ہے۔بادشاہوں، راجوں مہاراجوں،سیاسی لیڈروںیاکسی شخصیت کو عقل کل اور مقدس قرار دے کر ہر دور کی تبدیلیوں،کو ان ہی سے جوڑ کر ان کے قصیدوں سے تاریخ کو بھر دیا گیا اورتاریخ کے مختلف ادوار میں ہونے والی تبدیلیوں کو چندمخصوص مقتدر شخصیات کے ہی مرہون منت قرار دیا گیا۔یہ شخصیات چاہے انبیاء کی ہستیاں ہوں یا حکماء ہوں یا بادشاہ ،ان کی انفرادی حیثیت پر ہی تفصیلات کا انبار موجود ہے۔انہیں مافوق الفطرت اور مافو ق العقل ہستیاں قرار دے کر ان کے دور میں ان کے ارد گرد ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے جو بحثیں اور حالات بیان کئے جاتے ہیں وہ ان ہی کے گرد گھومتے دکھائے جاتے ہیں اور تمام تبدیلیوں اور انقلابات کو ان ہی سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔یہاں تک کہ دنیائے انسانیت کے اندر تبدیلیوں اور ارتقاء کے عمل کو چند سو افراد کے ساتھ منسوب کر دیا جاتا ہے۔اس کی ایک مثال مائیکل ہارٹ کی کتاب ’’The Hndered‘‘ ہے جس کا مطالعہ کر کے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ کو انقلابات سے دوچار کرنے والی یہی سو شخصیات ہیں، حالانکہ اس سو کی فہرست میں گنوائی گئی تمام شخصیات یقیناً انفرادی سطح پہ کمالات کا مجموعہ تھیں، لیکن ان کے ادوار میں رونما ہونے والے سماجی، سیاسی، معاشی، سائنسی انقلابات میں دیگر ہزاروں، لاکھوں افراد پر مشتمل اہل علم و ہنر وفن جماعتیں بھی ان کے ساتھ شریک کار تھیں،دیگر افراد کے تعاون اور مدد کے بغیر وہ کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دے سکتے تھے۔اس طرح انسانوں کی اجتماعی جدو جہد کو نظر انداز کرتے ہوئے کچھ مخصوص شخصیات کے ساتھ تمام تاریخی تبدیلیوں کو منسوب کرنا تاریخ کے ساتھ نا انصافی ہے۔

اسی روش کو اپناتے ہوئے ہمارے ہاں تاریخ کے لکھاری ہر دور کے بادشاہوں یا مقتدر شخصیات کی ذاتی خامیوں اور خرابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور اس طرح سے ان کے اجتماعی کاموں اور اچھے اقدامات جو کہ انہوں نے پورے معاشرے کی ترقی کے لئے انجام دئیے ہوتے ہیں ان پہ پردے پڑ جاتے ہیں۔ انفرادی سطح پہ شخصیت کو اس قدر بد نام کیا جاتا ہے کہ اس کے ارد گرد پنپنے والے تمام اچھے حالات کی نفی ہو جاتی ہے۔اور یہ بھی صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ تاریخ دانی کا انفرادی نقطہ نظر تاریخ دانوں کے پیش نظر ہوتا ہے۔ تاریخ دانی کے انفرادی نقطہ نظر کی وجہ سے تاریخ کے اوراق مخصوص شخصیات کی خوبیوں ،صفات اور کمالات کے مجموعوں کے سوا کچھ نہیں، اس طرز عمل کا یہ منفی نتیجہ بر آمد ہوا کہ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے افراد کے اندر شخصیت پرستی اور انفرادیت کا نظریہ پیدا ہوا ،اجتماعی سوچ اور جدو جہد کا فقدان ہو گیا۔ہیرو ازم کے ذہن نے انہیں عمل سے عاری بنا دیااور رفتہ رفتہ اجتماعی جدو جہد کرنے کی بجائے کسی ہیرو اور اعلیٰ طلسماتی شخصیت کے انتظار میں برائی اور فرسودگی کو برداشت کرنے کا ذہن بن گیا۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مورخ جب تاریخ لکھنے بیٹھے تو وہ اس دور کے سماجی حالات، معاشی تبدیلیاں، سیاسی ڈھانچے اور ان کی خوبیاں اور خامیاں اور ان کے انسانی معاشرے پہ اثرات، تہذیبوں کے ارتقاء، تمدنوں کے زوال کے اسباب بیان کرتے،اور ان تبدیلیوں میں کارفرما ان جماعتوں کے کردار پہ بھی بحث کرتے،لیکن ایسا بہت کم ہوا، مثلاًبرصغیر کی تاریخ کو ہی لیجئے مورخین نے مسلمان اور غیر مسلمان بادشاہوں کی انفرادی خوبیوں اور خامیوں سے تو صفحات بھر دئیے، لیکن اس دور کے سینکڑوں سالہ سیاسی ، معاشی اور تعلیمی ، سماجی نظاموں پہ بحث کو ضروری نہیں سمجھا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج ہماری نوجوان نسل کو یہ تو بتایا جاتا ہے کہ جہانگیر شراب پیتا تھا، لیکن عدل جہانگیری کا تذکرہ بہت کم ہوتا ہے، اکبر کی ذاتی خامیاں تو خوب دل کھول کر بیان کی جاتی ہیں لیکن اکبر نے تعاون باہمی کے اصول پہ ہندوستان کو جو نظام دیا اس پہ بات کرتے ہوئے ہمارا مؤرخ شرماتا ہے’’ ہندوستان جو کہ سونے کی چڑیا کہلاتا تھا‘‘ وہ کس اجتماعی نظام معیشت اور اجتماعی سیاست کی وجہ سے تھا اور اس سونے کی چڑیا کو سامراج نے کیسے لوٹ کر کنگال بنایا اور کس طرح سرمایہ داریت کے شکنجے میں کس کر پوری قوم کو ڈھائی سو سال تک بدترین غلامی میں جکڑ دیا گیا۔کسی نے یہ زحمت نہیں کی کہ نوجوان نسل کو بتائے کہ سامراجی لوٹ کھسوٹ کے خلاف جدو جہد کرنے والی جماعتیں کون سی تھیں، کسی کو اس شعور کی طرف جانے کی فرصت نہیں ہے کہ ایک ایسٹ انڈیا کمپنی کے استحصال سے پورا ہندوستان کنگال ہو گیا، اور آج کئی ایسٹ انڈیا کمپنیاں دونوں ہاتھوں سے ہمارے وسائل لوٹ رہی ہیں، تو آج ہمارا حشر کیا ہو گا؟ اس تناظر میں آج ہم گذشتہ تاریخ سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟ کہ کس طرح اقوام کو معاشی غلام بنا کر کیسے سیاسی غلامی میں دھکیلا جاتا ہے۔

ہندوستان جو کہ ایک ایسا کثیرالامذاہب خطہ ہے اس میں رواداری پہ مبنی سیاسی اور سماجی نظام سینکڑوں سال تک بغیر کسی تعصب اور انارکی کے کیسے چلا؟ اور انگریز جب ہندوستان میں آیا تو اس نے کیسے یہاں کی اقوام کے درمیان نفرتوں اور تعصبات پہ مبنی سماجی ڈھانچے کی بنیاد رکھی، ہندوستان کی طاقت کو کمزور کیا اور ڈھائی سو سال تک غلام بنا لیا؟آج ہمارا معاشرہ عدم برداشت اور عدم رواداری کا شکار ہے،کیا ہم نے تاریخ کے اس سبق کو شعوری طور پہ سیکھا اور اپنے اندر بہتری لانے کی کوشش کی؟

ہم نے تاریخ کا مطالعہ نسیم حجازی کے ناولوں کی مدد سے کیا، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کسی ٹیپو سلطان، کسی صلاح الدین ایوبی، کسی محمد بن قاسم کے انتظار میں بیٹھی ہے جو آ کر ان کے ارد گرد سیاسی اور معاشی تبدیلیاں لائے گا اور انہیں معاشی و سیاسی غلامی سے نجات دلائے گا۔ہیرو ازم اور شخصیت پرستی کی اس نفسیاتی کیفیت نے اجتماعی جدو جہد پہ زبردست قدغن لگا دی۔نوجوان طبقہ کی عام ذہنیت یہ ہے کہ بجائے خود منظم ہو کر کسی تحریک کی بنیاد رکھیں شخصیات کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔
عام زندگی کے اندر یہ مظاہرے عام ہیں فلم،ڈرامہ،کہانیاں ،افسانے ،واقعات میں ہیرو ازم کی تبلیغ نظر آتی ہے ایک شخص ہے سارے جہاں کی خوبیاں اور کمال اس کے اندر ہے اور وہ تن تنہا بڑی سے بڑی تبدیلی لے آتا ہے۔بڑی سے بڑی جنگ لڑ کر فتح یاب ہوتا ہے ۔اب اس طرح ہیرو کو ایسے دلفریب انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ ذہن اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔خاص طور پہ تاریخ کے مختلف عنوانات پہ ہیرو ازم کو اس قدر فروغ دیا گیا کہ ایک نوجوان بجائے اجتماعی کوشش کے، تصورات کی دنیا میں ایک انتہائی اعلیٰ کردار، سپر مین کے انتظار میں کھویا ہوتا ہے۔جو یکایک آئے گا اور ہمہ گیر تبدیلی پیدا کر دے گا، یا امت مسلمہ کو زوال سے نکال دے گا،اگر ایسا سپر مین پیدا نہ ہوا تو تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ معاشرے میں خصوصاً نوجوان نسل اس نفسیاتی کیفیت کا شکار نظر آتی ہے۔اجتماعی سوچ اور اجتماعی تبدیلی کی سوچ کا فقدان ہے مل جل کر ایک طاقت بنا کر تبدیلی لانے کی فکر کا دور دور تک نشان نہیں۔ہیرو ازم کی یہ تصوراتی دنیا عملی زندگی سے قطعاً مختلف ہے۔نوجوان جب ہیرو ازم کے نشے میں مست جب عملی زندگی کے معاملات میں شامل ہوتے ہیں تو اس قدر کمالات کا مجموعہ نہ بننے کی وجہ سے مایوسی میں مبتلا ہو جاتے ہیں انفرادیت کی سوچ ان کو خود غرض بنا دیتی ہے۔

یقیناً مطالعہ تاریخ کے اس اجتماعی نقطہ نظر سے بے شعوری یا غفلت نے ہمارے معاشروں پر گہرے اثرات مرتب کئے ،لٹریچر سے لیکر فنون لطیفہ تک اور سماجی علوم سے لیکر مذہبی عقائد ونظریات تک ہر سطح پر انفرادیت کا یہ دائرہ تنگ ہوتا گیا۔ لہذا معاشرتی دوڑ میں فقط اپنی ذات مد نظر ہو گئی اجتماعی شعور کی جگہ انفرادی اغراض ومقاصد نے لے لی۔اب ہر فرد فقط اپنی ذات کے بارے میں فقط اپنے کیریئر کے بارے میں سوچنے لگا۔رفتہ رفتہ اس انفرادیت پرستی کے عفریت نے معاشروں کو خود غرض بنا دیا۔افراد معاشرہ ایک دوسرے سے دست وگریبان ہو گئے۔طاقتور کمزور کو کچلنے لگا اور کمزور طاقت حاصل کر کے طاقتور کو شکست دینے کا سوچنے لگا ،لے دے کہ اگر کوئی سمجھدار فرد رہتا ہے تو وہ ہیرو ازم کے طلسم میں گرفتار ایک انجانے ہیرو کے انتظار میں زندگی کی مشقتیں کاٹ رہا ہوتا ہے۔

تاریخ کا انفرادی نقطہ نظر اجتماعی قومی تبدیلی کی سوچ کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اس حقیقت کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ عملی طور پر کوئی شخصیت چاہے کتنی بھی بڑی صاحب کمال ہو وہ تن تنہا کوئی انقلاب پیدا نہیں کر سکتی ۔جتنی بھی شخصیات تاریخ میں گذری ہیں ان کے ارد گرد رونما ہونے والی تبدیلیاں ان کے ساتھ مل کر کام کرنے والی جماعتوں کی بدولت تکمیل پذیر ہوئیں،یہ فطری اصول ہے لہذا آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا۔ضروری ہے کہ نوجوان نسل اپنی تاریخ کو اجتماعی نقطہ نظر سے مطالعہ کریں، ہر دور میں وقوع پذیر ہونے والے اجتماعی نظاموں کے معاشی، سماجی اور سیاسی ڈھانچوں اور ان کے اجتماعی اثرات کا مطالعہ کریں، اور یہ جانیں کہ کس طرح اجتماعی جدو جہد سے قومیں عروج پہ پہنچی ہیں اور وہ کون سے اجتماعی اسباب تھے جب قومیں مغلوب ہو گئیں اور زوال کے گہرے گڑھے میں گر گئیں۔اسی تناظر میں انسانی تاریخ، اسلامی تاریخ، برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے۔اور ان تاریخوں میں پنہاں ان اجتماعی تحریکوں کا مطالعہ کرنا چاہئے جن کی بدولت انسانیت نے ترقی کی موجودہ منزل کو پایا۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 151605 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More