بخشو بھائی چوہے بلی لنڈوری ہی بھلی

’’بخشو بی بلی، چوہا لنڈورا ہی بھلا‘‘، چوہے کا درد اور خوف کے انداز میں ادا کیا جانے والا یہ جملہ اس دور کا ہے جب چوہے جیسے ننھے سے ’’چوپائے‘‘ کو بزدل اور بے ضرر تصور کیا جاتا تھا اور وہ بلی کو بھی شیر جیسا خونخوار درندہ سمجھ کر اس کی درندگی سے بچنے کے لیے بھاگتا پھرتا تھا، کونوں، کھدروں میں پناہ گاہیں تلاش کرتا تھا، بلوں میں چھپ کر بلی کے دستِ بے رحم سے خود کو محفوظ سمجھتا تھا، لیکن بلی کے ظالم پنجے، اسے بل میں سے بھی نکال کر لقمہ بنالیتے تھے۔ چوہے کے لئے پر آشوب دور گزشتہ صدی تک رہا۔ اکیسویں صدی کے چوہے ترقی یافتہ دور کے ثمرات سے مکمل طور سے بہرہ ور ہوکر اتنے طاقتور ہوچکے ہیں کہ ان سے صرف بلی ہی نہیں انسان تک خوف کھاتے ہیں۔ ابن آدم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کروڑوں سال پہلے کے آدمی کا قدگزوںمیںہوتا تھا جب کہ آج کے انسان کا قد فٹوں میں رہ گیا ہے اور مستقبل کا آدمی انچوں تک محدود ہوکر بالشتیہ کہلائے گا لیکن اس کے برخلاف پچھلی صدی میں لال بیگ اور جھینگر جیسی قامت کے مختصر الوجودچوہے پائے جاتے تھے جبکہ موجودہ دور کے چوہے بلی کے جثے جتنے قوی ہیکل ہوتے ہیں۔ پہلے چوہا بلی کا سامنا ہونے پر کونے کھدرے ڈھونڈتا تھا، اب بلی چوہے کے ’’دانتوں‘‘ لنڈوری ہونے سے بچنے کے لئے اپنی دْم بچاکر بھاگتی ہے اور اگر اس کی دْم چوہے کے دانتوں سے کٹ کر گرجائے تو چوہے کے آواز دینے پر کہ ’’ بلی خالہ اپنی دْم تو لیتی جاؤ‘‘، بلی بھی چوہے کی طرح بلبلاتے اور گڑگڑاتے ہوئے جواب دیتی ہے ’’بخشو بھائی چوہے، بلی لنڈوری ہی بھلی‘‘۔

ماضی میں چوہے بلی کا کھیل ہمارے یہاں بچوں کے پسندیدہ کھیل میں شمار ہوتا تھا۔ موجودہ دورمیں بھی بلی، چوہے کا کھیل جاری ہے یہ اور بات ہے کہ اِس دور میں یہ بچگانہ کی بجائے سیاسی کھیل بن چکا ہے۔ سابقہ دور میں بچے چوہے کو بلی کی ہیبت سے ڈرا کر اپنے کھیل میں بار بار اس ایک ’’مصرعے‘‘ کو دہرایا کرتے تھے، ’’چوہے بھاگ ، بلی آئی‘‘، لیکن موجودہ دور میں نہ صرف بچے بلکہ ان کی ماں اور باپ تک چوہے سے خوف کھاتے ہیں کہ کہیں اس کے کاٹنے کی صورت میں ہائیڈرو فوبیا جیسا مرض لاحق نہ ہو جائے اس لئے زیادہ تر لوگ چوہے کا سامنا ہونے پر ’’بھیگی بلی‘‘ بن جاتے ہیں۔

گزشتہ دور میں چوہے کے ’’بھاگ‘‘ یعنی قسمت میں صرف موت ہی لکھی ہوتی تھی۔ کبھی وہ بلی کے پیٹ بھرنے کا سامان بنتا تھا اورکبھی لقمہ سگ بن جاتا تھا۔ اس کا شمار کچلے ہوئے طبقے میں ہوتا تھا کیونکہ اکثرپاؤں تلے آکر کچلا بھی جاتا تھا۔ زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات اس کی نسل کشی پر آمادہ رہتی تھیں، وہ اکثر بھوک سے بے حال ہوکر چوہے دانوں میں لگے روٹی کے ٹکڑے پر منہ مارنے کی کوشش میں انسانوں کے لگائے ہوئے پھندے میں پھنس کر اپنی گردن تڑوا بیٹھتا تھا جبکہ کبھی کبھار اپنی خوش خوراکی سے مجبور ہوکرکسی پنیر یا ٹماٹر کے ٹکڑے کو نگلنے کی صورت میں سارا کھایا پیا باہر نکال کر ملک عدم سدھارجاتا تھا، کیوں کہ پنیر اور ٹماٹر کے ٹکڑوں میں چوہے مار دوا یا پوٹاشیم سائینائٹیڈ جیسا سریع الاثر زہر ملاہوتا تھا۔

’’نو سو چوہے کھا کر ، بلی حج کو چلی ‘‘ ایک قدیم کہاوت ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بلی شاید چوہے کی قربانیوں کی وجہ سے ہی فریضہ حج ادا کرتی آرہی ہے، کیوں کہ ماضی میں چوہوں کی بہتات اور ان کی روایتی بزدلی کی وجہ سے نو سو چوہے کھانے کا ہدف پورا کرنے میں اسے کوئی دقت نہیں ہوتی تھی اس لئے وہ فریضہ حج کی ادائیگی کی ’’محاورتاً‘‘ حقدار بن جاتی تھی۔ بلی کی دیکھا دیکھی ہمارے یہاں کے ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کے مالکان نے بھی ’’نو سو چوہے‘‘ والے نسخے پر عمل شروع کردیا ہے لیکن یہاںپر آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے والا محاورہ بھی آڑے آجاتا ہے اور چوہا تو ویسے بھی کریہہ الصورت ہوتا ہے اس لئے اسے نگلنے کا تصور بھی محال ہے اس لئے نو سو چوہے ہوٹل مالکان خود نہیں کھاتے بلکہ اپنے گاہکوں کو نہاری، حلیم یا دیگر لحمیاتی پکوانوں میں کھلاکر اس سے ہونے والی لامحدود آمدنی سے خودکو گناہوں کی آلودگی سے پاک و صاف کرنے کےلیےحج جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی کیلئے روانہ ہوجاتے ہیں۔ ویسے بھی تمام جانداروں کا گوشت ایک جیسا ہوتاہے۔ اگر بلوچستان کے سابق وزیراعلی اسلم رئیسانی سے نہاری میں ملاوٹ شدہ گوشت کے بارے میں رائے لی جائے تو ان کا جواب حسب سابق یہی ہوگا کہ ’’گوشت، گوشت ہوتا ہے، چاہے گائے کا ہو یا موش یعنی چوہے کا‘‘، ویسے بھی لمبے ریشے کی وجہ سے نہاری یا حلیم میں چوہے کے گوشت کو، گائے کا گوشت سمجھ کر بے انتہا رغبت سے کھایا جاتا ہے اس لئے اب ہم نے نو سو چوہوں والی کہاوت کو یوں لکھنا شروع کردیا ہے، ’’ نو سو چوہے کھلا کر، بھیا جی حج کو چلے‘‘۔

ماضی میں چوہے انسانی و حیوانی دسترس سے محفوظ رہنے کے لئے بل بنا کر رہتے تھے لیکن اب انہوں نے بلوں میں رہنے کے جملہ حقوق سانپ اور بچھوؤں کے لئے چھوڑ دئیے ہیں اور اپنی روایتی بزدلی ترک کرکے بنو آدم کے مدمقابل آگئے ہیں۔ اب وہ انہی کے گھروں میں انتہائی دلیری کے ساتھ پرآسائش زندگی گزارتے ہیں جبکہ انسان اپنے ہی ہم جنسوں کے ہاتھوں قتل و غارت گری اور دہشت گردی کی کارروائیوں سے خائف ہوکر چوہے کی طرح گھروں میں دبکنے کی کوشش کرتا ہے۔ چوہوںنے زمین میں بنائے گئے بِلوں کو خیربادکہہ کر مین ہولز اور گٹرلائنوں کو بنکرز اورسرنگوں کی صورت میں استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ کسی دور میں چوہے زمین تک ہی محدود رہتے تھے، کسی اونچی جگہ چڑھنا ان کے لئے محال ہوتا تھالیکن آج یہ بلند و بالا مقامات پر باآسانی چڑھ جاتے ہیں، خوراک کے حصول میں انہیںکوئی دقت نہیں ہوتی ہے۔ گھروں میں رکھی واشنگ مشینیں، الماریاں بک شیلف ان کی خواب گاہ ہوتی ہیں حالانکہ بعض اوقات ان کا کمرہ استراحت ان کے لئے ’’گیس چیمبر‘‘ثابت ہوتاہے لیکن وقت اور حالات نے چوہے کو بھی ہوشیاری سکھادی ہے اس لئے وہ واشنگ مشین میں محواستراحت ہونے سے قبل اس میں پھیلے ہوئے برقی تاروں کے تمام کنکشن اپنے دانتوں سے کتر دیتے ہیں کہ کہیں حضرت انسان اپنی ’’ کم عقلی‘‘ کی وجہ سے واشنگ مشین کا سوئچ آن کرکے ان کی زندگی کا سوئچ آف نہ کردے۔ چوہوں نے خود پر قاتلانہ حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کا بھی بھرپور دفاع کیا ہے۔ اسی لئے ان آبادی میں تخفیف کی بجائے روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ آج ہر گھر میں نصف درجن انسانوں کے ساتھ درجن بھر چوہے بھی ملیں گے۔

چوہوں کو اکثر ’’کھودا پہاڑ، نکلا چوہا‘‘ جیسے طعنے بھی سننا پڑتے ہیں اس لئے ان کی اکثریت نے پہاڑوں کی رہائش کو خیرباد کہہ کر شہروں میں اپنا مسکن بنالیا ہے۔ وہ تمام حساس مقامات و نوگو ایریاز جہاں سوائے وی وی آئی پیز کے دیگر لوگوں کا داخلہ ممنوع ہے،باآسانی پہنچ جاتے ہیں، صوبائی و وفاقی محکمے، سرکاری دفاتر، حساس اداروں کے ہیڈکوارٹرز، وزارت خارجہ و داخلہ کے دفاتر اور سفارت خانے تک انتہائی فول پروف سکیورٹی انتظامات کے باوجود ان کی دستبرد سے دور نہیں۔ حتی کہ اب تو یہ پارلیمانی ایوانوں میں بھی پہنچ کر اسمبلی کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرنے لگے ہیں جنہیں دیکھ کر خواتین ارکان ڈیسکوں پر چڑھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ گزشتہ دنوں پارلیمانی لاجز میںبھی شایدکسی چوہے کو دیکھ کر وہاں موجود مہمان خواتین نے اسی قسم کا ردعمل ظاہر کیا ہوگا جسے ایک معزز رکن پارلیمنٹ نے ’’کسی اور رنگ‘‘ میںایوان میں پیش کیا جس کے بعد وہاں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا۔ ہمارے خیال میںچوہے بھی اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر آئینی حقوق کے طلبگار ہیں اور وہ مختلف وزارتوں میں بھی اپنا حصہ چاہتے ہیں۔ صاحبان اقتدار کو ان کے اس طرح کے خاموش احتجاج پر سنجیدگی سے غورکرنا چاہئے کہیں ایسا نہ ہوکہ یہ بھی ملین اور بلین مارچ شروع کرکے اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دے کر بیٹھ جائیں اور سڑکوں اور گلیوں میں انسانوں کی بجائے ہر طرف چوہے نظر آئیں۔
RAFI ABBASI
About the Author: RAFI ABBASI Read More Articles by RAFI ABBASI: 213 Articles with 223155 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.