ایک دن۔۔۔۔میں نے دیکھا

انسانی زندگی تضادات سے اس قدرلبریز ہے کہ قدم قدم پر عقلِ بشر انگشت بدنداں رہ جاتی ہے کہ ایک آدم کی اولاد میں اتنے اختلافات اور خرافات ! انسانی معا شرے کو انسانوں کا جنگل کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے کہ معاشرہ کسی نظم اور ضبط کی تصویر ہوتا ہے۔ معاشرے میں کوئی نظریہ یا احساس کارفرما دکھائی دیتا ہے، لیکن جنگل ان سب چیزوں سے آزاد، قدرت کی تجویز کردہ فطرت کا مظہر ہوتا ہے۔ وہاں جس کے منہ یا ہاتھ یا پاؤں جو کچھ بھی آ جاتا ہے اسی کا ہوتا ہے۔وہاں ایک اور صرف ایک ہی قانون ہوتا ہے یعنی جو دل میں آئے کر لو اگر کر سکو ، ورنہ کچھ اور کر لو۔ کوئی بناوٹی اخلاقیات اور نہ ہی کوئی معاشرتی قانون جو کہ کمزوروں کے لئے ہوتا ہے وہاں نہیں پایا جاتا ۔ اس لئے وہاں کی زندگی معاشرتی مصنوعی پن سے کوسوں دور ہوتی ہے۔

ایک دن صبح سویرے گلی میں دو چھوٹے چھوٹے بچے مانگنے کے اندا ز میں کاسے کی جگہ ایک شوپر اٹھائے کچھ بیچنے کی صدا لگا رہے تھے۔ ان میں سے ایک کی عمر سات۔ آٹھ سال اور دوسرے کی عمر چار۔ پانچ سال لگتی تھی۔ دونوں دیکھنے میں جسمانی طور پر موٹے، صحت مند اور رنگ کے سانولے تھے لیکن کپڑوں سے انتہائی غریب بلکہ مفلس دِکھ رہے تھے۔ ان کے چہروں پر پڑی گرد اور پسینے سے شرابور کپڑے ان کے مفلسی سے گہرے روابط کا عندیہ دے رہے تھے۔ وہ باری باری ’دال کراری دال ‘ کی ضد کئے جا رہے تھے لیکن یہ کراری دال ان کے اپنے منہ میں نہیں پڑ رہی تھی۔وہ سنسان گلی میں صدا لگائے جا رہے تھے، کبھی آگے اور کبھی پیچھے دیکھتے کہ کسی گھر سے کوئی نکلے اور ان کو رکنے کا اشارہ کرے ، یا ان کی طرف آئے، ان سے دال خریدے اور پھر دال کھاتا ہوا چلا جائے۔ لیکن گلی تو ایسے تھی جیسے کرفیو لگا ہو، کسی دروازے کو جنبش نہیں ہو رہی تھی، لوگ تو ابھی سوئے ہوئے تھے یا کوئی کوئی ناشتہ فرما رہے تھے۔ ویسے بھی صبح، صبح دال کون کھاتا ہے۔اور بیچنے والے صاف ستھرے نہ ہوں تو گاہک کو کراہت محسوس ہوتی ہے اور اگر بیچنے والے بچے ہوں تو گاہک کا اعتماد بھی سالم نہیں رہتا۔ ان بچوں میں یہ ساری باتیں پائی جاتی تھیں۔ کپڑے پھٹے پرانے، جسم میلے کچیلے، بال بکھرے، ناخنوں میں سیاہی بھری، دانتوں پر زرد پینٹ، تو ایسوں کی ’کراری دال ‘کا خریدار کون بنے گا۔وہ گرمی کی شدت بھی اپنے ساتھ ساتھ لے کے چل رہے تھے۔ وہ کسی مہربان کے گھر کے سامنے بیٹھ کے اور زیادہ اونچی صدا لگاتے ہیں: دال کراری دال۔ تاکہ وہ مہربان باہر آئے اور ان کو کچھ دے اور ان سے کچھ دال بھی خریدے۔ وہ اس سے ٹھنڈے پانی کا مطالبہ بھی کریں اور وہ ان کو ٹھندا پانی پلا بھی دے۔

اسی دن ایک منظریہ بھی دیکھا گیا کہ ایک بھاری بھر کم گھوڑا، جو کسی ہاتھی کا دور کا رشتہ دار لگتا تھا، پیدل چلنے میں دشواری محسوس کر رہا تھا ۔ اور بیٹھے بیٹھے، کھا کھا کے جو ایک دریائی گھوڑے جیسا فربہ ہوچکا تھا، اسے آہستہ آہستہ واک کروانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ ایک آٹھ ۔ نو سال کا سانولی رنگت کا لڑکا اس گھوڑے کی لگام تھامنے کی کوشش کرتا ہوا اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ گھوڑا کسی امیر گھرانے کا فرد محسوس ہو رہا تھا۔اس کی چال ڈھال اور چہرے کی رعونت ہی ایسی تھی۔ ایک آدمی جو اس لڑکے کا باپ جاپتا تھا ان دونوں کے پیچھے تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ایک پورا خاندان اس گھوڑے کی خدمت پر متعین ہے اور ہونا بھی چاہیئے کیوں کہ گھوڑا کسی اعلیٰ نسل کا وارث دکھائی دیتا تھا۔گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز میں ایسا ردھم تھا کہ جی چاہتا تھا کہ دیکھتے اُسے جائیں اور سنتے اِسے جائیں۔ لیکن گھوڑے کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ کسی انسان کی اس حقیر خواہش کو حقیقت میں ڈھال سکے۔

اسی دن کے منظر نامے میں ایک اور سین بھی دیکھا گیا جو کہ ایک موٹے تازے ’کتے‘ اور اس کے بہت ہی دبلے پتلے مالک کا تھا۔ وہ جسمانی طور پر خیرات کا مستحق نظر آتا تھا۔ اس کے کمزور ہاتھوں میں ایک موٹے تازے کتے کی گردن کے گرد پھری آہنی سنگلی تھی۔کتے کے لامبے، لامبے دانت اس کی بے قرار آنکھیں اور اس کا کالا کالا منہ دیکھنے والے کو خوف میں مبتلا کرنے کے لئے ناکافی نہ تھا۔وہ کتا بھی کسی اعلیٰ درجے کے خاندان سے وابستہ تھا۔ اس کا انداز ہی رئیسانہ تھا۔ اسے اپنے آس پاس کے ماحول کی فکر نہیں تھی۔وہ بڑی فرحت کے ساتھ ادھر ادھر چل پھر رہا تھا۔وہ گھر سے نکلا ہی چہل قدمی کرنے تھا۔اس کی مرضی تھی کہ وہ جدھر کو چاہے جا سکتا تھا۔ اس کا مالک بھی اس کی ناز براری میں اپنی خوشی تلاش کر رہا تھا۔

اسی دن کے منظر نامے میں ایک منظر یہ بھی تھا کہ کوڑے کے ڈھیر ’ میں ‘ سے رزق کی تلاش جاری تھی۔دوکم سِن نوجوان کوڑے سے بھرے شاپر اٹھا اٹھا کر یوں الٹ رہے تھے جیسے ان کو ان شاپروں میں سے ہیرے، جواہرات ملنے کی توقع ہو۔وہ بھی اس گھوڑے اور اس کتے کی طرح آس پاس کے ماحول سے بے خبر تھے۔انہوں نے بھی آج کے دن کی پلاننگ کی ہوئی تھی۔ اور یہ کام بھی ان کی پلاننگ کا حصہ تھا۔ ان کے چہروں پر میل کچیل کی ایک دبیز تہہ چڑھی ہوئی تھی۔ وہ انسانوں کی نسل سے تعلق رکھنے والے ہی لگتے تھے۔ وہ انسان ہی تھے لیکن انسانوں سے لا تعلق نظر آ رہے تھے۔ وہ کسی نا معلوم معاشرے سے تھے جہاں پانی کا استعمال صرف پینے کے لئے کیا جاتا ہو۔ کسی قسم کی صفائی کے کام کے لئے پانی کا استعمال کرنا ان کے نزدیک اسے ضائع کرنا ہو۔ یا اگر دل ہی صاف نہ ہوں تو پھر چہرے لشکانے اور بدن مہکانے کا کیا فائدہ!

اسی دن کے مناظر میں سے ایک منظر ایک مصروف سڑک کا بھی تھا۔اس پر لوگوں کا ہجوم قیامت کے حشر کی یاد دلاتا تھا۔لوگ اپنا اپنا سامان گدھا گاڑیوں پر لادے منڈی سے اپنی دکانوں کی سمت جا رہے تھے۔ سڑک کی تنگی بار بار ٹریفک کو رکنے پر مجبور کرتی ۔ لوگ رک رک کر چلتے اور اپنے سفر میں ہونے والی تاخیر پر برہمی کا اظہار چہروں پر رونما ہونے والی سلوٹوں سے کرتے ۔ وہ لڑتے اس وجہ سے نہیں کہ لڑائی سے ان کا وقت مذید بربار ہو گا۔ اور پولیس اور کچہری کے آگے منت پذیر اضافی طور پر ہونا پڑے گا۔وہ جلدی میں تھے یا جلدی ان کے اندر سما گئی تھی۔ وہ موٹر سائیکلوں کو’ گھوں!گھوں! ‘ کرواتے جلد ہی اس رش میں سے یوں نکل جانا چاہتے جیسے کبڈی کا کھلاڑی مخالف ٹیم کو ہاتھ لگا کر جلدی سے اپنے ہاف میں واپس چلا جانا چاہتا ہو ۔ لیکن رش نے بھی مخالف ٹیم کی طرح اسے اپنی نرغے میں یوں دبوچ لیا تھا کہ شکار کسی جال میں پھنس گیا ہو!!
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 284045 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More