لائبریری کنٹینر اور یونیورسٹی کیمپس!
(Anwar Graywal, Bahawalpur)
پاکستان میں کنٹینر کی مقبولیت کو
زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ تصور تو اور بھی بہت لوگوں کا ہوگا، مگر اس کی ابتداء
علامہ طاہر القادری نے کی، جب وہ کنٹینر میں بیٹھ کر اسلام آباد دھرنے کے
لئے نکلے۔ کنٹینر میں بیڈ روم بھی تھا اور آفس بھی، عقبی جانب شیشہ تھا، جس
سے ریلی کی صورت میں پیچھے آنے والوں کو بھی دیکھا جاسکتا تھا اور اسلام
آباد پہنچ کر اس کا پردہ ہٹا کر اپنے چاہنے والوں اور میڈیا کے لئے خطاب
بھی کیا۔ یہ بھی مرحلہ آیا کہ کارکن باہر بارش میں پڑے رہے اور صاحب کنٹینر
کے اندر سکون کی نیند سوئے رہے۔ جانثارایسی ہی قربانیوں سے بنتے ہیں۔ پھر
عمران خان نے تحریک کا آغاز کیا تو کنٹینر کو نئی زندگی ملی۔ انہوں نے
کنٹینر پر کھڑے ہوکر کئی مہینے تک رونق لگائے رکھی۔ کنٹینر کی کہانی ختم
نہیں ہوئی تھی کہ تحریک انصاف کے دھرنوں وغیرہ کے دوران بہت سے راستوں کو
روکنے کے لئے حکومت نے بھی انہیں کنٹینروں کا سہارا لیا۔ اس کے علاوہ حکومت
محکمہ صحت میں بھی موبائل کنٹینر استعمال کرتی ہے۔
اب پنجاب حکومت کی طرف سے بھی کنٹینر میدان میں اتریں گے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب
کے سپیشل مانیٹرنگ یونٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ صوبے میں موبائل کنٹینر
لائبریریوں کا اہتمام کیا جائے گا۔ موبائل کنٹینر لائبریری کے قیام سے عوام
کو کتابیں فراہم کی جائیں گی ، یونٹ کے ایک سینئر ممبر نے میڈیا کو بتایا
ہے کہ یہ کام وزیراعلیٰ کی ہدایت کے مطابق کیا جارہا ہے،یہ وقت احتجاج نہیں
تعلیم کا ہے، ہر بچے اور شخص کے ہاتھ میں کتاب تھمائیں گے۔ کنٹینر کو
احتجاج کی بجائے تعلیم کے فروغ کے لئے استعمال کریں گے۔ اب کنٹینر اس قدر
قبولیت عام حاصل کرچکا ہے کہ اس کا نام آتے ہی جہاں پہلے اس کے ذریعے سامانِ
تجارت کی نقل و حمل کا خیال ذہن میں آتا ہے، وہاں اب اس کے استعمال کے لئے
اور بھی تصورات پیدا ہوتے ہیں۔ اب کنٹینر میں لائبریری ہوگی، ابتدا ہے،
تفصیلات بھی سامنے آجائیں گی۔ یہ کنٹینر کہاں کہاں جائے گا؟ دیہات میں
گھومے گا، شہر میں قیام کرے گا؟ کتابیں کن لوگوں کو جاری کی جائیں گی؟ ان
کی واپسی کیسے ممکن ہوگی؟ کیا اپنے معاشرے میں کتاب سے دلچسپی رکھنے والے
اتنے افراد ہیں کہ وہ کتاب پڑھنا تو چاہتے ہیں مگر کتاب ان کی دسترس میں
نہیں، وہ کتاب خرید نہیں سکتے یا زیادہ دو ر جاکر کتاب پڑھ نہیں سکتے، اس
لئے ان کی دہلیز پر کتاب کے پڑھنے کا بندوبست کردیا جائے گا۔ اگر کتاب
انہیں جاری کردی جائے گی ، تو اس کی واپسی کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ کیا ہم
نے شرح تعلیم کو اس مقام تک پہنچا دیا ہے کہ ایک ایک فرد نہ صرف کچھ لکھنے
پڑھنے کے قابل ہو جائے ، بلکہ کتب بینی میں بھی دلچسپی لینے لگے؟ کنٹینر
لائبریری بھی ضرور بنائیں، مگر ساتھ ہی کچھ کنٹینر سکول بھی بنا دیں، کیوں
کہ لاکھوں بچے تو اب بھی سکول نہیں جاتے۔
دوسری طرف خبر آئی ہے کہ مینگورہ کے ایک سکول کے 56بچوں کو اس وقت سکول سے
نکال دیا گیا جب انہوں نے مسلسل تین روز تک غیر حاضری کا ارتکاب کیا۔ یہ
سکول کسی اور کا نہیں ، بچیوں کی تعلیم کے حق میں آواز بلند کرنے پر نوبل
انعام حاصل کرنے والی ملالہ کا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ خوشحال بپلک سکول میں
مذکورہ بالابچے مسلسل تین روز نہیں آئے، جس کی بنا پر ان کی سکول سے چھٹی
کروا دی گئی۔ بظاہر تو یہ سکول کا ذاتی معاملہ ہے، ڈسپلن قائم کرنے کے لئے
بہت سے اقدام کرنے پڑتے ہیں، اگر اس قسم کی سختی نہ ہو تو معاملہ قابو سے
نکل جاتے ہیں۔ مگر جب ایسے اقدام وہ لوگ کریں جو بچوں کی تعلیم کے فروغ کے
بہت بڑے دعوے دار ہیں تو کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ ایک اور اہم خبر بھی ہے کہ
اب پاکستان کے تمام اضلاع میں یونیورسٹیوں کے سب کیمپس قائم کردیئے جائیں
گے۔ ملک بھر میں 143اضلاع میں سے 66ایسے کیمپسز سے محروم ہیں، جہاں دو
مراحل میں ان کی تکمیل کردی جائے گی۔ یقینا اس سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے
والوں کو بہت سہولت حاصل ہو جائے گی، سٹوڈنٹس کو تعلیم کے لئے دور دراز
نہیں جانا پڑے گا۔ مگر یہ بھی ہوگا کہ ہر ضلع میں کیمپس بننے سے جہاں روز
گار میسر ہوگا وہاں بہت معیاری اساتذہ ہر جگہ دستیاب نہ ہو سکیں گے ۔ مزید
اہم بات یہ ہے کہ اس سے بھی زیادہ توجہ ابتدائی تعلیم دینے کی ضرورت ہے،
نرسری ہوگی تو آگے باغات لگائے جاسکیں گے؟ |
|