حرفِ سپاس
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
عزیز الرحمن العظیمی
(تقدمہ برائے مظفریات)
دیکھا جائے تو ’’کتاب‘‘ کا بھی ایک جہاں ہے، جہانِ انسان، جہانِ ملائکہ،
جہانِ دنیا اور جہانِ بالا …… کی طرح ایک جہانِ دیگر۔ اس جہان میں بھی
افراد واقوام ہیں وہ مرتے جیتے ہیں، ان کی طفولیت ہوتی ہے، تو کہیں شباب
اور بڑھاپا ہوتا ہے، زور وکمزوری ہوتی ہے تو سیادت اور چاکری کا بھی چکر
ہوتا ہے۔ بالکل جیسے عالمِ اجسام میں یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ اور پھر جیسے
عالمِ اجسام وعالمِ ارواح، عالمِ دنیا وعالمِ آخرت، عالمِ انس و جن وملائکہ
کا آپس میں تعلق ہے، ایسا ہی عالمِ اجسام وعالمِ کتاب کو سمجھا جانا چاہیے۔
دنیا میں بڑے بڑے عالم، عاقل، طبیب، فلسفی، حکمران، پہلوان اور مختلف
میدانوں کے شہسوار اور بے شمار فنون کے ماہرین آئے اور گئے ہیں مگر ہم فقط
ان ہی سے واقفیت وآگہی حاصل کرسکتے ہیں جن کی زندگی کو قلم و قرطاس نے ضبط
کیا بالفاظ دیگر جو اپنی خود نوشت کے ضمن میں اور یا پھر تاریخ کے دامن میں
محفوظ ہیں۔ چنانچہ صورتِ حال یہ ہے کہ:
دو چار سے دنیا واقف ہے، گمنام نہ جانے کتنے ہیں
ایک باشعور و باذوق صاحبِ علم وصاحب مطالعہ آدمی کا اسی لئے قلم و قرطاس سے
تعلق ناگزیر ہوتا ہے اور وہ کسی صورت اس سے مستغنی نہیں ہوسکتا کہ اس تعلق
سے وہ حیات جاوداں حاصل کرسکتا ہے اور بصورت دیگر وہ ’’موت‘‘ سے دوچار
ہوجائے گا، خصوصاً جب اس کا ایک نظریاتی پس منظر اور فکری تشخص بھی ہو۔ پھر
تو وہ اپنی شخصیت سے زیادہ اپنے قیمتی ترین اثاثے ، اپنے مشن اور کاز، اپنی
چیدہ وچُنیدہ معلومات، مشاہدات وتاثرات، جذبات واحساسات، افکار وخیالات حتی
کہ امتیازات وتفردات کو انسانیت کی آنے والی نسلوں کی امانت سمجھ کر اسے
محفوظ کرنے کے لئے فکر مند ہوتا ہے۔ اور قدرت کے آفاقی نظام کے بمقتضا ایسا
ہی ہونا بھی چاہیے۔ اسی قانونِ قدرت اور انسانی جبلت کی طفیل آج ہم اگلوں
کے لامحدود وانمول علمی، تاریخی، فنی اور ثقافتی ورثے اور اثاثے سے تسکینِ
ذوق کررہے ہیں، اسی کی بنیاد پر ہر دور میں انسانیت کی تعمیر وتشکیلِ جدید
ہورہی ہے اور ہوتی رہے گی۔ اور اسی کے ضمن میں پھر شخصیات واقوام کا اور
تہذیبوں وثقافتوں کا زندہ جاوید بن جانا، ایک مستقل اضافی فائدہ ہے۔ اسی
حقیقت کو ایک اور زاوئیے سے یوں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ انسانی تاریخ مرورِ
ایام اور ظہورِ حوادث سے عبارت ہے، ہر ہزاریہ ، ہر صدی ہر دَھائی، ماہ و
سال، شب و روز بلکہ ہر گھڑی ایک تاریخ ہے اور اسے ہر صاحبِ نظر اپنی نگاہ
سے دیکھ اور محسوس کررہا ہے۔ اور انہی اصحاب کے ذوقِ نظر اور نتیجۂ فکر سے
ایک اقلیمِ دانش تشکیل پارہا ہے۔
ہمارے محسن ومربی استاذ مولانا ولی خان المظفر بھی ایسے ہی ایک صاحب نظر
ہیں، حالات و واقعات پر جن کی گہری نظر ہے، ہر لمحہ دگرگوں صورت حال کا جن
کو کافی ادراک ہے، اسلام اور امتِ اسلام کی ایک ہی فکر جن کے قلب، دماغ اور
اعصاب پر چھائی رہتی ہے۔ تعلیم وتربیت کے میدان میں انہیں خداداد ذوق اور
حیرت انگیز ملکہ ملا ہے اور اس حوالے سے ان کی ناقابل فراموش خدمات و مساعی
ہیں۔ آپ کے ہاتھوں میں ان ہی کے مضامین کا ایک مجموعہ ہے۔ یہ اردو ادب یا
کالم نویسی کے کسی شاہکار کے طور پر نہیں شائع کیا جارہا ہے کہ ان کا اصل
میدان ’’عربی‘‘ ہے اور عربی زبان و ادب میں اس جواں عمری میں ان کا شمار
پاک و ہند کے اُن چند گنے چنے افراد میں ہوتا ہے جو بلامبالغہ سَند کی
حیثیت رکھتے ہیں، گزشتہ سال علماء پاکستان کے ایک مؤقر ترین وفد کے اہم
ترین دورۂ ایران کے موقع پر رہبرِ ایران جناب خامنہ ای، جناب رفسنجانی،
جناب تسخیری، دیگر اساطین مملکت، پھر شیخ الاسلام مولاناعبدالحمید اور دیگر
نامور علماء ایران سے ملاقاتوں ، مکالموں اور مختلف جگہوں پر خطبات ودروس
کے بعد مولانا اسحاق مدنی (جو وفد کی میزبانی کرنے والے ادارہ ’’تقریب بین
المذاہب الاسلامیہ‘‘ کے نائب صدر ہیں) نے وقت کے ابن حجر امام المحدثین فی
شبہ القارۃ الھندیۃ حضرت شیخ مولانا سلیم اﷲ خان صاحب زیدمجدہم اور دیگر
اکابرین کی موجودگی میں اس بات کا اعتراف کیا تھا اور حاضرین نے اس کی
تائید کی تھی کہ ’’مولانا ولی خان المظفر ماشاء اﷲ عربی تکلم وتخاطب میں
گویا مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اﷲ اور مولانا تقی عثمانی زید مجدہ کی
طرح ہیں۔ مولانا نے اپنے اس ذوقِ عربیت کی بڑی جان توڑ محنت و لگن، اور
راحتوں اور آسائشوں کی بھاری قربانی دے کر آبیاری کی ہے، انہوں نے دورانِ
تعلیم اور ابتدائی زمانۂ تدریس میں اردو لٹریچر کا بھی خوب مطالعہ کیا،
خصوصاً مسالک و مذاہب کا، تاریخ و جغرافیے کا اور اسلامی تحریکات کا، اور
اس زمانے میں وہ اپنے تاثرات اور حاصل مطالعہ کو قلمبند اور زیورِ طباعت سے
آراستہ بھی کرتے رہے، تاہم پھر ’’الفاروق عربی‘‘ اور جامعہ کے ’’معہدِ
عربی‘‘ کی دوہری ذمہ داریوں کے باعث ان کی مکمل توجہ فقط عربی کی طرف ہوگئی
اور اردو مطالعہ بھی انہوں نے اگر کیا تو عربی میں رسوخ پیدا کرنے کی غرض
سے کیا یعنی وہ اردو لٹریچر ہی ان کے مطالعہ میں رہا، جو ’’عربی‘‘ کے حوالے
سے ہے۔
نابغۂ ہند علامہ انور شاہ کشمیری نے کسی زمانے میں اردو پڑھت لکھت اس لئے
ترک کی تھی کہ اس سے ان کو اپنا ذوق عربی متاثر ہونے کا اندیشہ تھا، اور اس
تاثر کا ان پر ایسا غلبہ ہوگیا تھا کہ طلبہ اور اپنے احباب کو بھی وہ اردو
پڑھت لکھت سے منع فرماتے تھے، تاہم کشمیری صاحب نے جیسے آخر میں اس خیال سے
رجوع کیا تھا اور ہندوستان میں دین کی خدمت کے لئے اردو زبان کو ناگزیر
قرار دیا تھا ، مولانا نے بھی ایک خاصا طویل عرصہ بعد پھر سے اردو سے ناتہ
جوڑا ہے اور اب جوں توں اس کی ناگزیریت کے قائل ہوگئے ہیں، گزشتہ دو تین
سال میں مختلف موضوعات پر مولانا زیدمجدہ کے بڑے وقیع اور قیمتی مضامین
اخبارات اور مختلف رسائل میں شائع ہوئے، ان مضامین کے نہایت حاملِ اہمیت
ووقعت ہونے کی بڑی وجہ خود صاحبِ مضامین کی ’’غیر معمولی‘‘ شخصیت ہے۔
فطری سعادت مندی اور وہبی کمالات کے علاوہ حضرت مولانا کو امام المحدثین،
عبقریٔ زمان مرشد الطائفہ حضرت مولانا سلیم اﷲ خان صاحب جیسے رجال ساز،
مردم شناس اور کیمیا اثر شیخ کی دیرینہ اور ہمہ جہت صحبت، اور پھر آپ کا
اعتماد اور اِشراف حاصل رہا ہے، پھر کچھ ان کے طفیل اور کچھ اپنی خداداد
ذوق کی بدولت عرب وعجم کے مشاہیر رجالِ دین اور اصحابِ نظر سے کسبِ فیض کا
انہیں موقع ملا ہے۔ جب کہ مکاتبِ فکر، سلاسلِ طریقت، نظامہائے حیات اور
سوانح ومناقب تو ہیں ہی ان کے مطالعے کا خاص موضوع، پھر ان کی نظر ایک عامی
کی نظر کیوں کر ہوگی……؟
ہم ،ان کے تلامذہ ومحبین نے بارہا ان سے یہ مضامین کتابی شکل میں افادۂ عام
کے لئے محفوظ کرنے کی گزارش کی جو بالآخر انہوں نے درخور اعتناء سمجھ ہی
لی۔ چنانچہ ان کا پہلا ’’مجموعہ‘‘ آپ کے ہاتھوں میں ہے، اس میں آپ مولانا
کی مختلف موضوعات پر منفرد اور فکر انگیز تحریریں پڑھیں گے اور پڑھ کر ضرور
کچھ سوچنے پر مجبور ہوں گے، یہی سوچ کے دییے جلانا اور بیداری کی لہر پیدا
کرنا ہی ان کی تحریر کا اصل معیار اور ان کی کاوشوں کا مدار ہے۔ یہ چوں کہ
کوئی سلسلہ وار، یا یک موضوعی مضامین نہیں ہیں، لہٰذا اسے مولانا حفظہ اﷲ
کی شخصیت، ان کے افتادِ طبع اور خدمات و جذبات کے تناظر میں پڑھا جائے ،
مولانا کی شخصیت پر ہم نے الفاروق اردو کے اپنے کالم ’’اخبار جامعہ‘‘ …………
کے شمارے میں مدیر الفاروق حضرۃ الأستاذ مولانا عبیداﷲ خالد صاحب زید مجدہ
کے حکم پر اختصار کے ساتھ چند سطور تحریر کئے تھے، ملاحظہ فرمائیں…………
جامعہ فاروقیہ کراچی کے مدرس اور مجلہ ’’الفاروق (عربی)‘‘ کے مدیر (ایڈیٹر)
فضیلۃ الشیخ ولی خان المظفر کو گراں قدر ادبی خدمات اور عربی زبان وادب میں
ممتاز و معیاری مقالات ومضامین لکھنے پر طرابلس، لبنان سے شائع ہونے والے
بین الاقوامی عربی جریدے مجلہ ’’التقوی‘‘ نے خصوصی ایوارڈ کا مستحق قرار دے
کر انہیں ایک بین الاقوامی اعزاز دیا ہے، یہ ایوارڈ انہوں نے اپنے 25سالہ
’’الیوبیل الفضي‘‘ سلورجوبلی کے موقع پر اپنے ۸۴ بہترین کُتّاب (لکھاریوں)
کو جاری کیا ہے ، شیخ ولی خان المظفر جامعہ فاروقیہ کراچی کے فاضل اور
گزشتہ ۱۶ سال سے جامعہ میں تدریس اور دیگر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہیں
عربی زبان و ادب کا خصوصی ذوق اور اس میں اعلیٰ درجے کی مہارت حاصل ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ وہ جہاں عربی ادب کے استاد ہیں، وہیں جامعہ کے ترجمان، سہ ماہی
الفاروق (عربی) اور جامعہ کے شعبۂ عربی ’’معہد اللغۃ العربیۃ والدراسات
الإسلامیۃ ‘‘کی ادارت بھی عرصے سے ان ہی کے پاس ہے، اس حوالے سے متذکرہ
بالا ’’ایوارڈ‘‘ کا سہرا جہاں ان کے سر ہے، اس سے کہیں بڑھ کر اس کا کریڈٹ
مادر علمی جامعہ فاروقیہ کراچی اور اس کے بانی استاذ العلما حضرت شیخ
الحدیث مولانا سلیم اﷲ خان صاحب حفظہم اﷲ تعالیٰ کو جاتا ہے کہ الفاروق
عربی ہو یا معہد عربی اور یا پھر اس کے لئے مولانا کا تقرر وہ آپ ہی کے ذوق
سلیم اور آپ ہی کی مساعیٔ جمیلہ کا ثمر ہیں، حضرت دامت برکاتہم کی نظر میں
مدارس دینیہ کی حیثیت مردم ساز فیکٹریوں کی ہے، اور ذاتی طور پر بھی آپ کو
قدرت نے رجال سازی کی خداداد صلاحیتوں سے نوازا اور شروع ہی سے آپ طلبہ اور
اساتذہ کو تعلیم وتعلم کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں مقید رکھنے کے بجائے ان
میں تخلیقی ، تجدیدی اور انتظامی صلاحیتیں اجاگر کرنے پر بھی خصوصی توجہ
دیتے رہے ہیں، اور اس کی آبیاری کی بھرپور جدوجہد فرماتے رہے ہیں۔
آپ کی ان ہی توجہات اور مساعیٔ جمیلہ کا اثر ہے کہ جامعہ فاروقیہ کراچی نے
مختصر مدت میں شاندار تعلیمی ، تحقیقی، ادبی اور انتظامی کارنامے انجام
دئیے ہیں۔ ویسے تو الفاروق (عربی) گزشتہ ۲۰ سال سے مسلسل شائع ہورہا ہے
اور’’معہد اللغۃ العربیۃ والدراسات الإسلامیۃ‘‘ بھی ۱۵ سال سے عربی زبان و
ادب کی خدمت وترویج میں مصروف ہے مگرمولاناولی خان صاحب حفظہ اﷲ نے ان ہر
دو شعبوں کی ذمہ داریاں سنبھال کر حضرت شیخ مدظلہم، حضرت مولانا ڈاکٹر محمد
عادل خان صاحب حفظہ اﷲ اور حضرت مولانا عبیداﷲ خالد صاحب حفظہ اﷲ کی ہدایات
و مشاورت سے گویا انہیں چار چاند لگادئیے، حضرت مولانا ڈاکٹر عادل خان صاحب
الفاروق عربی کے رئیس التحریر (چیف ایڈیٹر) ہیں اور مولانا ولی خان صاحب نے
ان کے نائب کی حیثیت سے خصوصی توجہ، اپنی فطری صلاحیتوں اور شبانہ روز
محنتوں سے اسے اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ اب وہ پاکستان کا واحد عربی مجلہ
ہے جس کے مضامین نئے اور طبع زاد ہوتے ہیں، اور اکثر مضامین جامعہ کے
اساتذہ اور طلبہ کے ہی ہوتے ہیں، ساتھ ہی ایک غیر عربی ملک میں اشاعت کے
باوجود اس کے تمام پرچے نکل جاتے ہیں، غرضیکہ پاکستان کا یہ واحد عربی مجلہ
ہے جس کے اپنے ہی لکھاری، اپنا جداگانہ انداز، قارئین کا اپنا حلقہ اور
منفرد و متنوع مضامین و مقالات کا اپنا ایک معیار ہے۔
ادارہ الفاروق کے رئیس اور منتظم اعلیٰ حضرت مولانا عبیداﷲ خالد صاحب نے
جہاں پاکستان کی مقامی زبانوں (اردو اور سندھی) میں نکلنے والے الفاروق
میگزینز کو اپنی خصوصی نگہداشت اور طبعی خوش انتظامی سے انتہائی باقاعدہ
اور بروقت نکلوانے کا ریکارڈ اہتمام فرمایاہے، عربی اور انگریزی پرچوں کو
بھی اسی طرح معیاری، منظم اور باوقار بنادیا ہے اور اب کئی سالوں سے عربی
کا سہ ماہی مجلہ سال کے ہر تین ماہ کے شروع ہی میں شائع ہوتا ہے۔
الفاروق عربی میں ’’کلمۃ المشرف العام‘‘ اور ’’کلمۃ لرئیس التحریر‘‘ کے نام
سے نہایت جاندار اداریوں، ’’من أھم الأنباء‘‘ کے نام سے منتخب، دل چسپ
خبروں …… کے علاوہ ’’قضایا ھامۃ‘‘ کے نام سے اہم اسلامی مسائل پر تبصرے
وتجزئیے ’’من الأدب الاسلامی‘‘ کے نام سے عربی أناشید، اشعار اور نظمیں
’’شخصیات خالدۃ‘‘ کے نام سے معتبر ونامور اسلامی شخصیات (ترجیحی بنیادوں پر
ہندو پاک سے تعلق رکھنے والوں) کے حالات وسوانح اور خدمات ’’تحقیقات
ودراسات‘‘ کے نام سے علمی اور تحقیقی مقالات و مضامین اور ’’إصدارات
جدیدۃ‘‘ کے نام سے کتابوں پر تبصرے ’’حوار‘‘ کے نام سے مختلف حضرات کے
انٹرویوز ’’صفحات لأطفالنا الصغار، الصفحۃ الأخیرۃ‘‘ اور دیگر کئی چیزیں بہ
اہتمام شائع ہوتی ہیں اب تک اس میں شائع ہونے والے کئی تحقیقی مقالات
باقاعدہ کتابی شکل میں چھپ چکے ہیں، مثلاً حضرت شیخ الحدیث مدظلہم کی
’’الإمام البخاري حیاتہ وأعمالہ‘‘، ’’اللامذھبیۃ خیانات وافتراء ات‘‘ کے
نام سے مولانا ابن الحسن صاحب کی کتاب کا عربی ترجمہ (جو مولانا ولی خان
صاحب نے فرمایا ہے) ’’عقیدۃ ظہور المھدی‘‘ کے نام سے حضرت ڈاکٹر مفتی نطام
الدین شامزئی شہیدؒ کی کتاب کا عربی ترجمہ (جو مولانا حبیب زکریا ، استاذ
جامعہ فاروقیہ، نے کیا ہے) ’’مقدمۃ التاریخ الإسلامی للشریقي‘‘ لإمام
المحدثین سماحۃ العلامۃ الشیخ سلیم اﷲ خان․
اور مزید حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی کتاب ’’حضرت معاویہؓ
اور تاریخی حقائق‘‘ کی استاد گرامی مولانا ولی خان المظفر کی تعریب ’’سیدنا
معاویۃ والحقائق التاریخیۃ‘‘۔ حضرت مولانا نور البشر صاحب کی ملاحظات حول:
’’تفہیم القرآن‘‘۔ استاذ جامعہ مولانا محمد زادہ صاحب کی ’’ھدایۃ النحو‘‘
کی شرح ’’دروس فی النحو‘‘ اور استاذ جامعہ مولانا بدرالدین صاحب کی ’’دروس
فی الصرف‘‘ حضرت شیخ مدظلہم کی ’’الائمۃ المحدثون ومؤلفاتھم‘‘ (تعریب:
مولانا حبیب زکریا) اور برادرم مولانا مفتی عبداللطیف معتصم استاذ جامعہ کا
’’کیف ضاع تراثنا‘‘ کے سلسلۂ مضامین کا مجموعہ وغیرہ کتابیں چھپ کر منظر
عام پر آیا ہی چاہتی ہیں۔
پھر الفاروق روایتی نہیں بلکہ مشنری اور تجدیدی طرز کا کام کررہا ہے۔ اور
اس نے جہاں عمدہ اور معیاری مضامین شائع کرکے قارئین کے ذوق کی تسکین کا
سامان بہم پہنچانے کا اہتمام کیا ہے، وہیں اس نے نئے آنے والے لکھاریوں کی
تشجیع اور تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی اور ایک نسبتاً مختصر عرصے میں
انشائے عربی کے جدید اسلوب کے مطابق صحیح اور معیاری عربی لکھنے والے کتّاب
(لکھاریوں) کی ایک معتد بہ کھیپ تیار کی ہے، جن کے مضامین الفاروق کے علاوہ
مختلف عرب رسائل میں بھی وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ہیں۔
دوسری طرف معہد عربی بھی اربابِ جامعہ کی بھرپور دلچسپی اور مولانا کی
انتھک کوششوں اور مخلصانہ محنتوں کے نتیجے میں ایک مثالی ادارے کی شکل
اختیار کرچکا ہے، اور اس کے السنۃ الثالثۃ (یا درجہ ثالثہ) کے طلبہ صوت
المعہد کے نام سے ’’السنۃ الخامسۃ‘‘ (یا درجہ خامسہ) کے طلبہ ’’النھضۃ‘‘ کے
نام سے ماہانہ مجلات اور ’’السنۃ السادسۃ‘‘ (یا درجہ سادسہ) کے طلبہ پچاس
صفحوں پرمشتمل تحقیقی عربی مقالہ لکھنے اور اپنے مشرِف سے پاس کرانے کے
پابند ہیں، ذی استعداد اور ممتاز طلبہ کا اس (معہد) کی طرف خوب رجوع ورجحان
ہے اور عربی بول چال اور تقریر و تحریر میں اِن کی ناقابل فراموش خدمات و
مآثر ہیں اور گواس میں غیر ملکی طلبہ بھی ہیں، مگر زیادہ تر ملکی طلبہ ہی
اس میں پڑھتے ہیں، وفاق المدارس کے سالانہ امتحانات میں بھی معہد کے اکثر
طلبہ پوزیشن لیتے ہیں، اور اس کے علاوہ بھی اکثر طلبہ ممتاز (اے گریڈ) میں
کامیاب ہوتے ہیں۔ عربی زبان میں ’’إلقاء وإظہار ما فی الضمیر‘‘ یا فن خطابت
میں مہارت حاصل کرنے کے لئے معہد کے تحت ’’النادي العربي‘‘ بھی تسلسل سے
مصروف خدمت اور روبہ ترقی ہے، جس کے سالانہ پروگراموں میں کئی دفعہ بین
الاقوامی اسلامک یونیورسٹی (اسلام آباد) کے ڈاکٹر احمد العسال، شیخ ہاشم،
ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، مولانا عزیز الرحمن سواتی اور ان جیسی دیگر نامور
شخصیات کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔
مولانا ولی خان المظفر کا متذکرہ بالا ’’اعزاز‘‘ 1990میں رابطۃ العالم
الإسلامی کے تحت ’’المسلمون في بلغاریا‘‘ کے عنوان سے منعقدہ مقابلے میں ان
کی دوسری پوزیشن اور ’’رابطۃ الأدب الإسلامی العالمیۃ‘‘ کا عربی زبان و ادب
کی گران قدر خدمات کے صلے میں انہیں ’’عضویت‘‘ (ممبر شپ) دینا بھی جامعہ
فاروقیہ کراچی کے اس تاریخی پس منظر اور زریں خدمات واعزازات کے زمرے میں
آتے ہیں۔
یوں جامعہ فاورقیہ کراچی ، ندوۃ العلماء لکھنو کے بعد پورے برصغیر میں شاید
وہ واحد ادارہ ہے، جو عربی زبان وادب کے حوالے سے اتنے دل کش پس منظر،
شاندار تاریخ اور ضخیم خدمات کاحامل ہے ’’وذلک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء‘‘․
عزیز الرحمن العظیمی
سابق مدیر شعبۂ دراسات دینیہ
(رکن دارالتصنیف واستاذ جامعہ فاروقیہ کراچی)
رئیس التخصص فی الادب العربی واستاذالحدیث النبویﷺ بالجامعۃ البنوریۃ
العالمیۃ |
|