حلال ڈیٹنگ
(ajmal malik, faisalabad)
ماسی گوگل کی سماجی خدمات کے اعتراف میں لونڈوں نے اس کےچاروں بچوں کے نئے نام رکھے ہیں۔ بڑی بیٹی کانام’’وٹس ایپ‘‘ہے۔منجھلی ۔ ماں جیسی ہے اسے’’ گوگل پلس‘‘کہتے ہیں۔چھوٹی ’’ یوٹیوب‘‘ ہے اور بیٹا ٹوئیٹر ۔کیونکہ یہ انٹر نیٹ کادور ہے۔موبائل نےگھر والوں کو دور ۔اور۔دنیا کو قریب کر دیا ہے۔ ملاقات کے لئے کبوتر جا جا ۔ اور چٹھی آئی ہے ۔والے طریقے غیر شرعی ہو چکے ہیں۔ محبوب جو کبھی قدموں میں تھا ۔ آج موبائل پر ہے۔کئی حرام خور بھی حلال طریقے پر چل نکلےہیں۔محبت سائنسی ہو چکی ہے۔ صرف ایک کلک کی دوری پر۔ چہرہ، خوبیاں، تعلیم ، مشاغل ،صحت اور قد ۔کتنا ہے ۔اب ماسی کی ضرورت نہیں رہی۔ویڈ یو چیٹ ۔نے حیا ۔اور لاج اڑا ۔ دی ہے۔کیونکہ حلال ڈیٹنگ آ گئی ہے۔
|
|
|
حلال ڈیٹنگ کی ایک تصویر |
|
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ دنیانے ہمارا
حلال اور حرام کا تصور مان لیا ہے۔ گورے آج مسلمانوں کے کھانے پینے،
اوڑھنے اور بچھونے کی اشیا پر حلال کا لال ٹھپہ مار کرمارکیٹنگ کر رہے
ہیں۔حلال فوڈ ، ڈرنک، ادویات اورحلال میک اپ سمیت کئی چیزیں حرام مارکیٹوں
میں بک رہی ہیں ۔حرام جانور کے اعضا اور الکوحل سے پاک اشیا۔گویا۔سُپر
سٹورز میں پڑی جس چیز پرٹھپہ نہیں لگا وہ حرام ہے۔انہیں کوئی ’’××ב‘ نہیں
خریدتا۔ اوراللہ کا کروڑہا شکر ہے کہ حلال رشتے بھی عالمی منڈی میں دستیاب
ہیں۔ لال ٹھپے والے۔حلال رشتےملنے کی وجہ سے وہاں بیٹھے تمام رشتہ دار’’غیر
حلال‘‘ ہو گئے ہیں ۔وہ اچھے خاصے سالانہ دورے پر پاکستان آتے اور۔درختوں
پر پکے ہوئے ڈالر اور پاؤنڈ توڑ کرہمارے لئے تحفے لاتے تھے۔ اب اُن کی ’’گاٹی‘‘کی
گُنجلیں وہیں کھلنے والی ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ مسلمانوں کے لئے شادی سے قبل
حلال ڈیٹنگ متعارف ہو چکی ہے۔لال ٹھپہ لگے حلال ڈیٹنگ۔ شادی سے پہلےحلال
ملاقات ۔والدین کی فکر سے آزاد۔
شوہر(دوست سے):یارمیں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی
دوست:اچھاو ہ کیوں ۔ ؟
شوہر: بس مذہب آڑے آگیا۔وہ پیسے کی پجارن تھی اور میرے پاس نہیں تھا۔
دنیا پیسے کے پجاریوں سے لدی پڑی ہے۔اب تو ’’مذہب ‘‘ طلاق کاجواز بن چکا
ہے۔بے حیا۔ملاقات ہی آخری امید ہے۔حلال ڈیٹنگ کی آڑ میں کسی نیم مُلا۔ نے
دال روٹی کا سر بند کر لیا ہے۔ ایک ٹیبو کو حلال قرار دینے والا باطل نظریہ
جنم لے چکا ہے ۔باطل عقیدے کے لوگ یہاں بھی بھرے پڑے ہیں ۔جیسےمیرا دوست
شیخ مرید۔ مرید کے ہاتھ سے کوا گوشت چھین کر لے گیا تو ۔وہ کوئے کے پیچھے
بھاگا جائے اور کہتا جائے۔’’گوشت واپس کردو۔ ورنہ اعلان کرا۔ دوں گا کہ۔
کوا حلال ہے‘‘ ۔کوئے سالوں پہلے گھر کی منڈیروں پر بیٹھا کرتے تھے ۔ وہ جھٹ
صحن میں اترتے اور کنالی میں گوندھے پڑے آٹے سے اپنا لنچ لے اڑتے ۔ ۔ کا
گا ۔ جب بھی کاں کاں کرتا۔تو گھر میں کوئی نہ کوئی مہمان آٹپکتا۔ لیکن ہم
نے آٹاصحن سے کچن میں منتقل کردیا ۔ تو کوئے ہم سے روٹھ گئے ۔اب وہ گوشت
خو ر ہو چکے ہیں اور مہمان زہر۔برابر لگتے ہیں۔ مرید اپنی بوٹی کے لئے کوا
۔جاتی کو حلال کرنے کا ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ یورپ نےاپنی روٹی کے لئے
ڈیٹنگ حلال کر دی۔ کاروبار بھی چل دوڑا ہے اور صد شکر ہے کہ مسلمان بچے غیر
محرموں سے حلال ڈیٹنگ مار نے لگے ہیں۔وگرنہ وہاں گرل اور بوائے فرینڈ عارضی
ہوتے ہیں۔
جونسن:ولیم تمہیں پتہ ہے ۔میں اور میری گرل فرینڈ شادی کر رہے ہیں
ولیم : کب ؟
جونسن :اس کی 21 نومبر کو ہے۔ اور میری دو ہفتے بعد 7 دسمبر کو۔
اخلاق سے ماورا معاشرے میں بوائےا ور گر ل فرینڈ ہمیشہ الگ الگ شادیاں کرتے
ہیں۔کیونکہ وہ’’ ڈیٹس ‘‘میں نچوڑ نکال چکے ہو تے ہیں۔یورپ نے بزرگوں کا
احترام چھوڑ اتو حلال ڈیٹنگ پرجانا پڑا۔ گئے وقتوں میں بڑے بوڑھے ڈیوڑھی
میں منجا۔ ڈا ۔ کے بچوں پر نظر رکھتے تھے۔ آج بچےسکائیپ سے اُن پر نظر
رکھتےہیں۔یہ انٹرنیٹ کادور ہے ۔سماج سے کٹ کر زندگی گذارنے والے سوشل میڈیا
پر ’’ایدھی‘‘بنے بیٹھے ہیں۔ گرل فرینڈ بیمار ہو جائے تو اچانک عطار بن جاتے
ہیں۔اسے درد ہو ۔تو اپنا جسم پھوڑا۔ بن جاتا ہے۔شادیاں ڈیجیٹل ہو چکی ہیں۔
معاشرہ سٹیٹس اپ ڈیٹ کرکے شادی کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔عشق چائنا کے مال کی
طرح ۔ناپائیدار ہو چکا ہے۔ستم یہ کہ لڑکی اور لڑکے ۔ کی ملاقات کو’’حلال‘‘
تصور کر لیا گیا ہے۔
لڑکی نے بوائے فرینڈ کو میسج کیا کہ ’’ممی پاپا گھر نہیں ہیں ۔ مجھے ڈر
لگتا ہے۔کیا تم آسکتے ہو۔؟ یا میں آنٹی کی طرف چلی جاؤں۔؟
لڑکے نے جواب لکھا:ہاں ہاں ،کیوں نہیں،میں آ رہا ہوں۔ اس سے پہلے کہ وہ
میسج بھیجتا،چور۔ موبائل چھین کر بھاگ گیا۔
لڑکاچور کے پیچھے بھاگا جائےاور کہتا جائے:او ئے خدا کا واسطہ،سینڈ کا بٹن
دبا دے۔
وہ کوئی ’’حلال‘‘چورتھا۔صدشکر کہ چور نےایک عزت بچالی۔ہمارے ہاں اکثر محلوں
میں ایک پھپے کُٹن سی ماسی ضرور ہوتی ہے۔جوکیبل کی طرح ہر گھر میں جاتی ہے۔
ہماری مائیں، بھابیاں اور پھُپھیاں اس سے ساری باتیں کرتی ہیں۔اور جواب میں
ماسی ۔ دیورانیوں، جٹھانیوں، ننانوں اورسوکنوں کے پانامہ راز لیک کرتی
ہے۔حسبِ موسم مشروب مل جائے تو کچھ باتیں کن سن میں بھی ہو جاتی ہیں۔ فلانے
دا مُنڈا۔ تے فلانی کُڑی آپس میں ٹھیک نہیں ہیں۔؟ماسی کو سب پتہ ہوتاہے۔وہ
راز نہ اُگلے تو ہارڈ۔ ڈسک کرپٹ ہوجاتی ہے ۔چٹکی بجانے جتنی دیر میں وہ ۔ہر
سوال کا جواب باہر اچھال مارتی ہے۔یہ ماسیاں شمسی توانائی سے چلتی ہیں ۔منہ
اندھیرے ہی گھر لوٹ جاتی ہیں۔لیکن گھر واپسی سے پہلےہماری ماسی
محلےدارلونڈوں کے ساتھ ۔۔ بھابھی ٹھوسہ اور منگ پتا بھی کھیلتی
ہے۔انہی’’خصلتوں ‘‘کی وجہ سےمحلے دار۔اسے ماسی گوگل کہتے ہیں۔ماسی گوگل
محلے کی ہر شادی میں جاتی ہے اور اگلی کئی شادیوں کے آرڈر پکڑلیتی
ہیں۔حلال ڈیٹنگ کے بغیر۔ ایلفی جوڑ جتنی پکی شادی۔
پوتا:۔۔دادا۔آپ کی شادی کو کتنے سال ہو گئے ؟
دادا: تقریبا پچاس سال ۔
پوتا: آپ نے کبھی طلاق کا سوچا ہےَ
دادا: نہیں بیٹا ۔۔ البتہ قتل کے بارے میں کئی بار سوچا ہے۔
ماسی گوگل کی سماجی خدمات کے اعتراف میں لونڈوں نے اس کےچاروں بچوں کے نئے
نام رکھے ہیں۔ بڑی بیٹی کانام’’وٹس ایپ‘‘ہے۔منجھلی ۔ ماں جیسی ہے اسے’’
گوگل پلس‘‘کہتے ہیں۔چھوٹی ’’ یوٹیوب‘‘ ہے اور بیٹا ٹوئیٹر ۔کیونکہ یہ انٹر
نیٹ کادور ہے۔موبائل نےگھر والوں کو دور ۔اور۔دنیا کو قریب کر دیا ہے۔
ملاقات کے لئے کبوتر جا جا ۔ اور چٹھی آئی ہے ۔والے طریقے غیر شرعی ہو چکے
ہیں۔ محبوب جو کبھی قدموں میں تھا ۔ آج موبائل پر ہے۔کئی حرام خور بھی
حلال طریقے پر چل نکلےہیں۔محبت سائنسی ہو چکی ہے۔ صرف ایک کلک کی دوری پر۔
چہرہ، خوبیاں، تعلیم ، مشاغل ،صحت اور قد ۔کتنا ہے ۔اب ماسی کی ضرورت نہیں
رہی۔ویڈ یو چیٹ ۔نے حیا ۔اور لاج اڑا ۔ دی ہے۔کیونکہ حلال ڈیٹنگ آ گئی ہے۔
ڈیوڈ دفتر سے جلدی گھر آگیا تو دیکھا اس کی بیوی اور اس کا دوست’’ خوش
گپیوں‘‘میں مصروف تھے۔ ڈیوڈ نے گن نکالی اور دوست کو گولی مار دی ۔
بیوی:اگر تمہارا یہی رویہ رہا تو ایک ایک کرکے تم سارے دوستوں سے ہاتھ دھو
بیٹھوگے۔
جرائم کی واردتوں کے بعد۔ امریکہ۔برطانیہ ۔سنگا پور۔روس۔سمیت دنیا کے کئی
ممالک میں حلال ڈیٹنگ کلب کھل گئے ہیں ۔ایک وقت میں تین لوگوں سے ڈیٹ مار
نے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔نظام زر نے حرام کو حلال قرار دینے کا جواز پید ا
کر دیا ہے۔طلاق دینے کے لئے پیسے کی پجارن ۔ والا جواز۔۔حلال کوئے والا
جواز۔ ہمارے ہاں توشادی دو خاندانوں کا ملن ہے۔ ہم ماسی گوگل کے عہد میں
زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ ہمیں والدین صرف کھنگورے نہیں دُرےمارنے والے بھی
چاہیں۔وگرنہ حلال کے نام پر معاشرہ کسی اور سمت کی طرف بہنے لگا ہے۔ |
|