معرکہ بدر تا ریخ ِ اسلامی کا روشن ترین با ب ہے اِس
معرکے میں مسلمانوں نے ایثار محبت اور قربانی کے لا زوال مظاہرے کئے عا
شقان ِ رسول ﷺ پر وانوں کی طرح رسول اقدس ﷺ پر اپنی جا نیں قربان کر نے آئے
تھے جنگ سے پہلے سید الانبیا ء ﷺ نے کفار کے مقا بلے کے لیے مسلمانوں کے
لشکر کو ترتیب دیا تو دیکھا کہ بہت سارے ایسے نو عمر نو جوان بھی آپ ﷺ پر
اپنی جان قربان کر نے جا نثاروں میں آگئے تھے تو آپ ﷺ نے جو جنگ کے لیے مو
زوں تھے اُن کو الگ کیا اور جو نو عمری کی وجہ سے جنگ کے قابل نہ تھے انہیں
لشکر میں شریک ہو نے سے منع کر دیا لیکن نو عمر نو جوان بضد تھے کہ وہ جنگ
لڑنے کے قابل ہیں اُن کو جنگ میں شرکت سے نہ روکا جا ئے انہی نو عمروں میں
فاتح ایران حضرت سعد بن وقاص ؓ کا چھوٹا بھا ئی حضرت عمیر بن وقاص ؓ بھی
شامل تھے جن کی عمر اس وقت پندرہ سال تھی لیکن طبیعت میں جوش و لولہ بھرا
ہوا تھا اور آقا ئے دو جہاں ﷺ سے عشق اور فدا ہو نے کا جذبہ بہت غالب تھا
بچپن سے ہی اسلام اور شاہِ مدینہ ﷺ کے شیدائی دیوانے ہو چکے تھے جب بدر کے
معرکے میں شرکت کے لیے لشکر ترتیب دیا جا رہا تھا تو یہ بھی اپنے محبوب آقا
ﷺ پر جان قربان کر نے کی نیت سے اُن میں شامل ہو گئے تھے لیکن وہ ادھر ادھر
مچلتے پھر رہے تھے ان کے بھا ئی نے اُن کو اسطرح حرکت کر تے ہو ئے دیکھا تو
اُن سے پو چھا کہ تم مضطرب بے چین ادھر اُدھر کیوں چھپ رہے ہو تو اُنہوں نے
کہا میرے بھا ئی رسول کریم ﷺ نے میری عمر کے تمام نو جوانوں کو جنگ میں
شرکت سے منع کر دیا ہے مجھے خطرہ ہے کہ اگر انہوں نے مجھے دیکھ لیا تو
یقینا وہ مجھے بھی جنگ میں شرکت سے منع کر دیں گے اور میں یہ سوچ بھی نہیں
سکتا کہ میرے پیا رے آقا ﷺ تو دشمن کے مقابلے پر جا ئیں اور میں گھر میں
بیٹھا رہوں میری یہ تمنا ہے کہ میں رسول کریم ﷺ کے شانہ بشانہ لڑوں اور
اپنی جان کا نذرانہ شہا دت کی صورت میں آقا ﷺ کے قدموں میں نچھا ور کر دوں
بھا ئی کا جذبہ دیکھ کر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اُسے پکڑ کر دربار رسالت ﷺ
میں لے آئے پیا رے آقا ﷺ کے سامنے پہنچ کر اُنہوں نے اپنی ایڑیا ں اُٹھا
لیں تا کہ اُن کا قد لمبا لگے لیکن رسول کریم ﷺ نے اُن کی کم عمر ی کی وجہ
سے اُن سے فرمایا کہ عمیر تم واپس جا ؤں آقا کریم ﷺ کے منہ سے یہ الفاظ سنے
تو حضرت عمیر بن ابی وقاص ؓ پھو ٹ پھوٹ کر رونے لگے اور درخواست کی یا رسول
اﷲ ﷺ کیا مجھے آپ ﷺ پر جان قربان کر نے کا موقع نہیں ملے گا میری یہ شدید
خوا ہش ہے کہ آپ ﷺ کی حفاظت میں اپنی جان کا نذرانہ آپ ﷺ کے قدموں پر واروں
حضرت عمیر ؓ کی محبت اورجانثاری نے نبی رحمت ﷺ کے دل پر بھی اثر ڈالا تو آپ
ﷺ نے فرمایا اچھا ٹھیک ہے تم ہما رے ساتھ آؤ میں تمھیں تلوار با ندھ دیتا
ہوں جنگ میں شرکت کی خو شخبری سن کر حضرت عمیر ؓ خو شی سے اچھلنے لگے حضرت
سعد بن ابی وقاص ؓ کہتے ہیں کہ جنگ کے وقت عمیر کی عمر اور قد اتنا چھو ٹا
تھا کہ تلوار لٹکا ئی تو وہ زمین پر لگنے لگی میں نے خود تلوار کے تسمے میں
گرہیں لگا کر اُسے اونچا کیا اور پھر اِس نو عمر صحابی ؓ اور جانثا ر نے
اِس شان ولولے اور جوش سے جنگ میں شرکت کی کہ بڑے بڑے بہا دروں کا مقابلہ
ڈٹ کر بہا دری اور دلیری سے کیا مشرکین کے بڑے بڑے بہا دروں سے ڈٹ کر لڑے
دوران جنگ جب عرب کے بہت بڑے پہلوان عمرو بن عبدو کو دیکھا( جو عرب میں
ہزار سواروں کے برابر مانا جا تا تھا ) تو تلوار لے کر اُس کی طرف دیوانہ
وار بڑھے لیکن اُس ظالم کی تلوار کا مہلک وار آپ ؓ کو لگا اِسطرح رسول کریم
ﷺ کے قدموں میں جان قربان کر نے کی خوا ہش پو ری ہو ئی ۔
’’شہا دت ہے مطلوب و مقصود مو من
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی‘‘ (اقبال)
ویسے تو سرور دو جہا ں ﷺ کے تمام صحابہ کرام ؓ ہر وقت اِس ٹوہ میں رہتے تھے
کہ کس طرح آقا ئے دو جہاں ﷺ سے اپنی محبت کاا ظہار کیا جا ئے یا اپنی جان
کا نذرانہ پیش کیا جا ئے لیکن یہ جذبہ عشق اور جنون حضرت ابو بکر صدیق ؓ
میں سب سے مختلف تھا بدر کے معرکے میں مشرکین کی سپا ہ ایک ہزار جنگجوؤں پر
مشتمل تھی ان کے مقابلے پر مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ نہتے سپا ہیوں پر
مشتمل تھی مسلمانوں کے پاس ہتھیاروں کی شدید کمی تھی مشرکین مکہ اور
مسلمانوں کی حالت دیکھ کر رسول کریم ﷺ کا دل درد سے لبریز ہو گیا رقت طا ری
ہو گئی خدا کے حضور سجدے میں گر گئے بہت دعا کی اور پھر ہا تھ دعا کے لیے
اٹھا دیئے ۔ اے میرے خدا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا آج وہ وعدہ پورا کر
دے اے میرے خدا میں اپنی کل کا ئنا ت تیری رضا کے لیے میدان میں لے آیا ہوں
اے اﷲ آج اگر یہ چند سو نفوس ضا ئع ہو گئے تو پھر قیا مت تک زمین پر تیری
عبا دت کر نے والا کو ئی نہ ہو گا ۔ آپ ﷺ کی گر یہ زاری دیکھ کر حضرت ابو
بکر صدیق ؓ والہا نہ انداز سے آپ ﷺ کی طرف آئے محبوب خدا ﷺ کی گر یہ زاری
اور بے قراری دیکھ کر دل بھر آیا اپنے محبوب ﷺ کی یہ حالت دیکھی نہ گئی
آنکھوں سے آنسوؤں کے مو تی جھڑنے لگے آپ ﷺ کے قریب آئے اور گلو گیر لہجے
میں اپنے محبوب ﷺ کو تسلی دی اور عرض کیا ۔ یا رسو ل اﷲ ﷺ میرے ماں با پ آپ
ﷺ پر قربا ن اﷲ آج ہر گز آپ ﷺ کو ما یوس نہیں کر ے گا وہ آپ ﷺ سے کیا ہوا
وعدہ آج پورا کر ے گا ۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ ساری عمر آپ ﷺ کے دائیں با ئیں
رہے ہر وقت آپ ﷺ کے آرام کا خیا ل کر تے رسول اﷲ ﷺ کی معمولی معمولی با توں
پر بھی پو ری تو جہ دیتے آپ ؓ نے تمام غزوات میں حصہ لیا دوران جنگ انتہا
ئی مشکل حا لات میں بھی رسول کریم ﷺ پر نظر رکھتے اگر ذرہ سا بھی خطرہ ہو
تا تو آپ ﷺ کی حفاظت کے لیے آپ ﷺ کے سامنے ڈھا ل بن کر کھڑے ہو جا تے اگر
نبی کریم ﷺ پریشان ہو تے تو آپ ﷺ کو تسلی اور حو صلہ دیتے معرکہ بدر میں جب
نبی کریم ﷺ کے چہرہ اطہر پر پریشانی کے آثار دیکھتے تو فوری طو ر پر آپ ﷺ
کے پا س آتے آپ ﷺ کا دست اقدس پکڑ کر عرض کر تے یا رسو ل اﷲ ﷺ آپ ﷺ پریشان
نہ ہوں اﷲ تعالی آپ ﷺ سے کیا ہوا وعدہ ضرور پورا کر ے گا اسلام قبول کر نے
والے دن سے آخر تک آپ ہر جنگ اور مشکل وقت میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ رہے جس
طرح کو ئی محبوب یا عاشق اپنے معشوق کی ہر وقت پرواہ کر تا ہے کہ اُسے کبھی
بھی کچھ نہ ہو جا ئے حضرت ابو بکر صدیق ؓ بھی خو شی غمی جنگ ہر حالت میں
اِس فکر میں نظریں اپنے محبوب کے چہرہ اقدس پر جما ئے رکھتے اور اگر کبھی
بھی سرور دو جہاں ﷺ کسی بات پر پریشان ہو تے تو یا ر غار آگے بڑھ کر آپ ﷺ
کی دل جو ئی کر تے آپ ﷺ کو حوصلہ دیتے کیونکہ مُحب اپنے محبوب کو کسی بھی
وقت کسی بھی حا لت میں پریشان یا دکھ میں نہیں دیکھ سکتا یہی حالت اور پیار
ہر وقت حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی نظروں اور حرکتوں سے چھلکتا رہتا تھا انہیں
خو د سے زیا دہ سرور کو نین ﷺ کی فکر رہتی آپ ﷺ کی حفاظت اور آرام کے لیے
وہ اپنی جان تک کو خطرے میں ڈال دیتے میدان بدر میں بھی آپ ﷺ جنگ کے ساتھ
ساتھ رسول کریم ﷺ کی طرف متوجہ تھے دوران جنگ جب لڑائی اپنے پو رے عروج پر
تھی کسی کو کسی کی کو ئی پرواہ نہ تھی اُس وقت بھی حضرت ابو بکر صدیق ؓ
رسول کریم ﷺ کے برابر تلوارلیے ہو ئے لڑ رہے تھے ایک طرف دشمن کو ختم کر نے
کی سو چ تھی تو دوسری طرف سرو ر دو جہاں ﷺ کی حفاظت کا خیال اور آپ ﷺ کی
خدمت ۔ اِسی دوران جنگ کی حالت میں ایک مر تبہ آپ ﷺ کی ردا ئے مبا رک شانہ
مبا رک سے ڈھلک گئی تو جب حضرت ابو بکر ؓ کی نظر پڑی تو وہ فوری لپک کر آئے
جلدی سے چادر مبا رک کو اٹھا کر شانہ اقدس پر رکھا اور رجز پڑھتے ہو ئے
دشمنوں کی طرف ٹو ٹ پڑے یہی جو ش جذبہ اور عشقِ رسول ﷺ کا انمول جذبہ تھا
کہ مٹھی بھر مسلمانوں کو ایک ہزار مشرکین پر فتح نصیب ہو ئی ۔ |