اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَاِذْ بَوَّاْنَا
لِاِبْرٰهِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِيْ شَيْـــــًٔا
وَّطَهِّرْ بَيْتِيَ للطَّاۗىِٕفِيْنَ وَالْقَاۗىِٕمِيْنَ وَالرُّكَّعِ
السُّجُوْدِ، وَاَذِّنْ فِي النَّاس بالْحَجِّ يَاْتُوْكَ رِجَالًا
وَّعَلٰي كُلِّ ضَامِرٍ يَّاْتِيْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ ۔(مفہوم)اور
یاد کیجیے اس وقت کو جب کہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو خانۂ کعبہ کی جگہ
بتا دی، جس کی بنیاد پہلے سے موجود تھی کہ اسے عبادت کے لیے تیار کریں اور
اس عبادت میں میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں،اور میرے گھر کو طواف کرنے
والوں کے اور نماز میںقیام اور رکوع و سجود کرنے والوں کے واسطے ظاہری اور
باطنی نجاستوں یعنی کفر و شرک سے پاک رکھیں،اور لوگوں میں حج کے فرض ہونے
کا اعلان کر دیں۔ لوگ تمھارے پاس یعنی اس مقدس عمارت کے پاس چلے آئیں گے
پیادہ بھی اور طولِ سفر کی وجہ سے دبلی ہوجانے والی اونٹنیوں پر بھی جو کہ
دور دراز راستوں سے پہنچی ہوں گی، تاکہ اپنے دینی اور دنیوی فوائد کے لیے
حاضر ہوں۔(الحج:6)ایک مقام پر فرمایا:وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً
لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا۔(مفہوم)اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے کہ جس وقت
ہم نے خانۂ کعبہ کو لوگوں کا معبد اور امن کا مقام مقرر رکھا اور آخر میں
امتِ محمدیہ کو حکم دیا کہ برکت حاصل کرنے کے لیے مقامِ ابراہیم کو نماز
پڑھنے کی جگہ بنا لیا کرو اور ہم نے (بناے کعبہ کے وقت ابراہیم و اسمعٰیل
علیہما السلام کی طرف حکم بھیجا کہ میرے اس گھر کو خوب پاک رکھا کرو،
بیرونی اور مقامی لوگوں کی عبادت کے واسطے اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے
واسطے۔(البقرۃ:125)ابراہیمؑ کعبے کی تعمیر کرتے جاتے تھے اور دعا کرتے جاتے
تھے، جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ
الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُ، رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۭ اِنَّكَ اَنْتَ
السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۔ (مفہوم) اور اس وقت کا تصور کرو جب ابراہیم بیت
اللہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھےاور اسماعیل بھی ان کے ساتھ شریک تھے، اور وہ
دونوں کہتے جاتے تھے؛ اے ہمارے پروردگار ! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے۔ بے
شک! آپ اور صرف آپ ہی، ہر ایک کی سننے والے، ہر ایک کو جاننے والے ہیں۔
(البقرۃ:127) اس آیت میں خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما
السلام کی دعا کو یاد دلایا تاکہ یہ بات معلوم ہو جائے کہ کعبے کی تعمیر
کوئی معمولی کام یا کارِ دنیا نہ تھا بلکہ نہایت دینی کام تھا کہ جس کے بعد
وہ اپنی اس سعی کے مقبول ہونے کی دعا کرتے اور خود اپنے لیے اور اپنی اولاد
کے لیے خدا کا فرماں بردار اور اس گھر کا خدمت گزار ہونا اور شرائعِ حج و
اسلام کا برپا اور قائم رکھنا دل سے چاہتے اور واجعلنا مسلمین و ارنا
مناسکنا کہہ کے دعا کرتے تھے۔
خاندانِ ابراہیمیؑ مکّے میں
تفسیر ابن کثیر میں ائمہ تفسیر حضرت مجاہد وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت
ابراہیم علیہ السلام ملکِ شام میں مقیم تھے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام
شیر خوار بچے تھے، جس وقت حق تعالیٰ کا ان کو یہ حکم ملا کہ ہم خانۂ کعبہ
کی جگہ آپ کو بتلاتے ہیں، آپ اس کو پاک و صاف کرکے طواف و نماز سے آباد
رکھیں اس حکم کی تعمیل کے لیے جبریل امین براق لے کر حاضر ہوئے اور حضرت
ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل کو مع ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کے، ساتھ لے
کر سفر کیا۔ راستے میں جب کسی بستی پر نظر پڑتی اور حضرت ابراہیم علیہ
السلام جبریل امین سے دریافت کرتے کہ کیا ہمیں یہاں اترنے کا حکم ملا ہے‘
تو حضرت جبریل علیہ السلام فرماتے کہ نہیں آپ کی منزل آگے ہے،یہاں تک کہ
مکہ مکرمہ کی جگہ سامنے آئی جس میں کانٹے دار جھاڑیاں اور ببول کے درختوں
کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس خطۂ زمین کے آس پاس کچھ لوگ بستے تھے، جن کو
’عمالین‘ کہا جاتا تھا، بیت اللہ اس وقت ایک ٹیلے کی شکل میں تھا، حضرت
خلیل اللہ علیہ السلام نے اس جگہ پہنچ کر جبریل امین سے دریافت کیا کہ کیا
ہماری منزل یہ ہے تو فرمایا‘ ہاں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام مع اپنے
صاحبزادے اور حضرت ہاجرہ کے یہاں اتر گئے اور بیت اللہ کے پاس ایک معمولی
چھپر ڈال کر حضرت اسماعیل اور ہاجرہ علیہما السلام کو یہاں ٹھہرا دیا، ان
کے پاس ایک توشہ دان میں کچھ کھجوریں اور ایک مشکیزہ میں پانی رکھ دیا اور
ابراہیم علیہ السلام کو اس وقت یہاں ٹھہرنے کا حکم نہ تھا، وہ اس شیر خوار
بچّے اور ان کی والدہ کو خدا کے حوالے کرکے واپس ہونے لگے، جانے کی تیاری
دیکھ کر حضرت ہاجرہ نے عرض کیا کہ ہمیں اس لق ودق میدان میں چھوڑ کر آپ
کہاں جاتے ہیں جس میں نہ کوئی مونس ومدد گار ہے نہ زندگی کی ضروریات۔حضرت
خلیل اللہ علیہ السلام نے کوئی جواب نہ دیا اور چلنے لگے، حضرت ہاجرہ ساتھ
اٹھیں پھر بار بار یہی سوال دہرایا حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کی طرف سے
کوئی جواب نہ تھا یہاں تک کہ خود ان کے دل میں بات پڑی اور عرض کیا کہ کیا
اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہاں چھوڑ کر چلے جانے کا حکم دیا ہے تب حضرت
ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ملا
ہے، اس کو سن کر حضرت ہاجرہ نے فرمایا کہ پھر آپ شوق سے جائیں، جس نے آپ
کو یہ حکم دیا ہے وہ ہمیں بھی ضائع نہ کرے گا۔
ابراہیمی دعائیں
ابراہیم علیہ السلام حکم خداوندی کی تعمیل میں یہاں سے چل کھڑے ہوئے مگر
شیرخوار بچہ اور اس کی والدہ کا خیال لگا ہوا تھا جب راستے کے موڑ پر پہنچے
جہاں سے حضرت ہاجرہ نہ دیکھ سکیں، تو ٹھہر گئے اور اللہ تعالیٰ سے وہ دعا
فرمائی جو سورۂ ابراہیم کی آیات میں اس طرح مذکور ہے:وَاِذْ قَالَ
اِبْرٰهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِيْ
وَبَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ۔(مفہوم)اے میرے پروردگار اس شہر کو
امن والا بنا دیجیے اور مجھ کو اور میرے خاص فرزندوں کو بتوں کی عبادت سے
بچائے رکھیے۔( ابراہیم:35) نیز یہ بھی دعا کی:رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ
مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ،
رَبَّنَا لِيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ
تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ، وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ
يَشْكُرُوْنَ۔(مفہوم) یعنی اے ہمارے رب میں اپنی اولاد کو آپ کے محترم گھر
کے قریب ایک میدان میں جو زراعت کے قابل نہیں آباد کرتا ہوں، اے ہمارے رب
تاکہ وہ نماز کا اہتمام رکھیں تو آپ کچھ لوگوں کے قلوب ان کی طرف مائل
کردیجیےاور ان کو پھل کھانے کو دیجیےتاکہ یہ لوگ شکر کریں۔(ابراہیم: 37)
صفا و مروہ کی سعی کی ابتدا
یہ دعا کرکے حضرت خلیل اللہ علیہ السلام تو اپنے وطن شام کی طرف روانہ
ہوگئے، ادھر حضرت ہاجرہ کا کچھ وقت تو اس توشۂ کھجور اور پانی کے ساتھ کٹ
گیا جو حضرت خلیل اللہ علیہ السلام چھوڑ گئے تھے، پانی ختم ہونے کے بعد خود
بھی پیاس سے بےچین اور شیرخوار بچہ بھی۔ اس وقت پانی کی تلاش میں ان کا
نکلنا اور کبھی کوہِ صفا پر کبھی کوہِ مروہ پر چڑھنا اور ان دونوں کے
درمیان دوڑ دوڑ کر راستہ طے کرنا تاکہ حضرت اسماعیل آنکھوں کے سامنے
آجائیں عام مسلمانوں میں معروف ہے اور حج میں صفا مروہ کے درمیان سعی کرنا
آج تک اسی کی یادگار ہے۔اس قصّے کے آخر میں حضرت جبریل امین کا بہ حکمِ
خداوندی وہاں پہنچنا اور چشمۂ زمزم کا جاری کرنا اور پھر قبیلۂ جرہم کے
کچھ لوگوں کو یہاں آکر مقیم ہوجانا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے جوان
ہونے کے بعد قبیلۂ جرہم کی ایک بی بی سے شادی ہوجانا یہ صحیح بخاری کی
روایت میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔
کعبے کے معمار اور تعمیر
روایتِ حدیث کے مجموعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء سورۂ حج کی آیت میں جو
بیت اللہ کو آباد کرنے اور پاک صاف رکھنے کا حکم حضرت خلیل اللہ علیہ
السلام کو ملا تھا اس وقت اتنا ہی عمل مقصود تھا کہ اس جگہ کو حضرت اسمعٰیل
اور ہاجرہ علیہما السلام کے ذریعے آباد کردیا جائے، اس کے مخاطب صرف حضرت
ابراہیم علیہ السلام تھے، کیوں کہ اسماعیل علیہ السلام ابھی شیرخواری کے
عالم میں تھے، اس وقت بیت اللہ کی تعمیرِ جدید کا حکم نہ ملا تھا، سورۂ
بقرہ کی یہ آیت جو اس وقت زیرِ نظر ہے؛وَعَهِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰهٖمَ
وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَهِّرَا بَيْتِىَ ‘اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام
کے ساتھ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بھی شریک کرلیا گیا ہے، یہ حکم اس وقت
کا ہے جب کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام جوان اور متاہل ہوچکے تھے، اس وقت
دونوں کو بناء بیت اللہ کا حکم دیا گیا۔
صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ ایک روز حضرت ابراہیم علیہ السلام حسبِ عادت
حضرت ہاجرہ اور اسماعیل کی ملاقات کے لیے مکہ مکرمہ پہنچے تو دیکھا کہ
اسماعیل علیہ السلام ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تیر بنا رہے ہیں، والد
ماجد کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے، ملاقات کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے
فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک کام کا حکم دیا ہے کیا تم اس میں میری
مدد کرو گے ؟ لائق فرزند نے عرض کیا کہ بہ سر وچشم کروں گا۔ اس پر حضرت
ابراہیم علیہ السلام نے اس ٹیلے کی طرف اشارہ کیا جہاں بیت اللہ تھا‘ کہ
مجھے اس کی تعمیر کا حکم ہوا ہے۔ بیت اللہ کے حدودِ اربعہ حق تعالیٰ نے
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتلا دئیے تھے، دونوں بزرگوار اس کام میں لگے
تو بیت اللہ کی قدیم بنیادیں نکل آئیں، انہی پر دونوں نے تعمیر شروع کردی۔
اگلی آیت میں اسی کا بیان ہے، وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ
مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُ جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ بیت اللہ اصل
بانی حضرت خلیل اللہ علیہ السلام ہیں اور اسماعیل علیہ السلام مددگار کی
حیثیت سے شریک ہیں۔
جدید تعمیر
ان تمام آیات پر غور کرنے سے وہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے جو بعض روایاتِ حدیث
اور تاریخ میں مذکورہے کہ بیت اللہ پہلے سے دنیا میں موجود تھا، کیوں کہ
تمام آیات میں کہیں بیت اللہ کی جگہ بتلا دینے کا ذکر ہے، کہیں اس کو پاک
صاف رکھنے کا ذکر ہے، یہ کہیں مذکور نہیں کہ آج کوئی نیا گھر تعمیر کرانا
ہے اس کی تعمیر کریں، اس سے معلوم ہوا کہ بیت اللہ کا وجود اس واقعے سے
پہلے موجود تھا، پھر طوفانِ نوح کے وقت منہدم ہوگیا یا اٹھا لیا گیا تھا‘
صرف بنیادیں موجود تھیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ
السلام کعبے کے پہلے بانی نہیں بلکہ بناءِ سابق کی بنیادوں پر جدید تعمیر
ان کے ہاتھوں ہوئی ہے۔
کعبے کے پہلے معمار
اب رہا یہ معاملہ کہ پہلی تعمیر کس نے اور کس وقت کی ؟ اس میں کوئی صحیح
اور قوی روایت حدیث کی منقول نہیں، اہلِ کتاب کی روایات ہیں جن سے معلوم
ہوتا ہے کہ سب سے پہلے اس کی تعمیر آدم علیہ السلام کے اس دنیا میں آنے
سے پہلے ہی فرشتوں نے کی تھی، پھر آدم علیہ السلام نے اس کی تجدید فرمائی۔
یہ تعمیر طوفانِ نوح تک باقی رہی، طوفانِ نوح میں منہدم ہوجانے کے بعد سے
ابراہیم علیہ السلام کے زمانے تک یہ ایک ٹیلے کی صورت میں باقی رہی، حضرت
ابراہیم علیہ السلام و حضرت اسماعیل علیہ السلام نے ازسرِنو تعمیر فرمائی،
اس کے بعد اس تعمیر میں شکست وریخت تو ہمیشہ ہوتی رہی مگر منہدم نہیں ہوئی،
آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل قریشِ مکہ نے اس کو
منہدم کرکے ازسرِنو تعمیر کیا، جس کی تعمیر میں آں حضرت صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے بھی خاص شرکت فرمائی۔
کعبے کا طول و عرض
تفسیرِ حقانی میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو تعین اس جگہ کی معلوم نہ
تھی، خدا کی طرف سے ایک ابر اسی مقدار کا کہ جس قدر تعمیرِ کعبہ مقصود
الٰہی تھی نمودار ہوا اور وہ ایک جگہ پر ٹھہر گیا، ابراہیم علیہ السلام نے
اسی مقدار پر کعبہ بنایا یعنی ایک لمبا چوکھونٹا مکان بنایا جس کا چوڑان
مشرقی جانب سے یعنی حجرِ اسود سے رکن یمانی تک بیس گز تھا اور مغربی جانب
رکن یمانی سے لے کر رکن غربی تک بائیس گز اور طول میں شمالی دیوار حجرِ
اسود سے رکنِ شامی تک تینتیس گز لمبی اور جنوبی دیوار رکنِ غربی سے لے کر
رکن یمانی تک اکتیس گز تھی۔ سب ہئیت مجموعی بشکل مستطیل مگر نہ عرض کے
دونوں سرے برابر نہ طول کی دونوں دیواریں برابر تھیں اور بلندی اس مکان کی
نو گز تھی اور دروازے کی کچھ کرسی نہ تھی۔
مختلف کونوں کے نام
حضرت ابراہیم علیہ السلام تعمیر کرتے تھے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام
پتھر اور گارا دیتے جاتے تھے اور یہ پتھر کہ جس کو ’مقامِ ابراہیم‘ کہتے
ہیں بہ طور پاڑ کے تھا اور اس پر چڑھ کر چنتے تھے۔ واضح ہو کہ ’رکن‘ خانۂ
کعبہ کے گوشوں کا نام ہے، اس چوکھونٹے مکان کے چار گوشے ہیں اور ہر ایک
گوشہ یا گوشے یا کونے کا ایک نام ہے، جنوب و مشرق کے رخ باہر کی جانب دو
ڈیڑھ گز بلندی پر ایک کونے میں ایک سیاہ پتھر مدور توے کے برابر لگا ہوا
ہے، اس کو ’حجر اسود‘ کہتے ہیں اور جنوب و غرب میں بلندیِ قد آدم پر ایک
سرخی نما پتھر کا ٹکڑا ہے اس کو ’رکن یمانی‘ کہتے ہیں اور شرقی و شمالی
کونے کا نام ’رکنِ شامی‘ ہے اس لیے کہ بہ جانب ملکِ شام ہے اور دوسرے کو
غربی کہتے ہیں۔
متعدد تعمیریں
جب ایک مدت بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بنایا ہوا مکان پہاڑی نالے کے
سبب سے گرگیا تو بنی جرہم نے پھر اس کو اسی طور سے تعمیر کیا پھر ایک عرصے
کے بعد یہ عمارت گر گئی تو عمالیق نے اس کو پھر تعمیر کیا (عمالیق بنی حمیر
کا ایک قبیلہ تھا)، اس کے بعد جب یہ عمارت بھی ٹوٹ پھوٹ گئی تو قصی بن کلاب
نے اس کو بنایا اور اس کی چھت لکڑیوں سے پاٹ دی اور اس پر سیاہ غلاف ڈال
دیا۔ یہ عمارت مدت تک رہی، یہاں تک کہ حضرت نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی
عمر دس بارہ برس کی ہوگی کہ قریش نے کعبہ تو بنایا ۔
قریش کے تصرفات
قریش نے کعبہ تو بنایا مگر کئی تصرف اس میں کردیے؛(۱) اول یہ کہ حطیم کی
جانب سے کئی گز زمین چھوڑ کر کعبے کی دیوار غربی اٹھائی(۲) دوم یہ کہ
دروازے کی چوکھٹ تخمیناً دو گز اونچی کرکے لگائی تاکہ ان کی مرضی کے بغیر
ہر شخص کعبے میں اچھی طرح نہ داخل ہو سکے(۳) سوم یہ کہ کعبے کے اندر لکڑی
کے ستونوں کی دو صف قائم کیں، ہر ہر صف میں تین تین ستون تھے(۴) چہارم یہ
کہ دیواروں کو دو چند بلند کردیا(۵) پنجم یہ کہ رکنِ شامی کے قریب کعبے کی
چھت پر چڑھنے کے لیے زینہ بھی بنایا۔
نبویؐ ارادے کی تکمیل
آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بار عائشہؓ سے کہا کہ میرا دل
چاہتا ہے کہ میں کعبے کو پھر قدیم بنیادِ ابراہیم پر بنائوں اور دروازہ
زمین سے ملا دوں اور دو دروازے رکھوں، ایک سے لوگ داخل ہوا کریں دوسرے سے
خارج۔ اس عرصے میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا سے تشریف لے
گئے، پھر عبداللہ بن زبیرؓخلیفہ ہوئے اور انھوں نے یہ حدیث اپنی خالہ عائشہ
سے سنی تو آپ کے ارادے کو پورا کردیا یعنی بہ دستورِ قدیم کعبے کو از سرِ
نو بنایا اور دو دروازے رکھے، ستائیسویں رجب سنہ چونسٹھ ہجری میں اس تعمیر
سے فراغت پائی۔
کعبہ سابقہ طرز پر
اس کے تھوڑے دنوں کے بعد بنی امیہ کا دور دورہ ہوگیا اور حجاج بن یوسف نائب
عبدالملک بن مروان کو تعمیر عبداللہ بن زبیر ناپسند ہوئی، اس نے کعبے کو
گرا کر پھر بنیادِ قریش پر بنایا اور صرف ایک دروازہ مشرقی جانب میں رکھا
اور اندر سے قدِ آدم بھرت کرکے اونچا دروازہ لگایا اور ایک ٹکڑا طولانی
جانب میں سے اسی طرح باہر رکھا جس کو ’حطیم‘ کہتے ہیں۔ یہ تعمیر 74 ہجری
میں ہوئی (بعض کہتے ہیں کہ حجاج نے کل کو نہیں گرایا بلکہ عبداللہ بن زبیر
کے تصرفات میں تصرف کیا تھا)۔ پھر بنی عباس کے عہد میں ہاروں رشید نے قصد
کیا کہ بنائے عبداللہ بن زبیر پر کعبے کو بنائے، مگر علماء نے منع کیا کہ
بار بار بنانا اور گرانا کھیل ہوجائے گا۔
موجودہ کعبہ
بنائے حجاج سلطان مرادبن احمد خان سلطان قسطنطنیہ کے عہد تک قائم رہی اور
شاہان اسلام اسی عمارت کی مرمت کرتے رہے، مگر یہ عمارت جب بہت کہنہ ہوگئی
تو سنہ ایک ہزار چالیس (1040)ہجری میں سلطان مراد نے کعبے کی تعمیر کا
ارادہ کیا اور سوائے اس کونے کے جس میں حجرِ اسود لگا ہوا ہے، سب کو گرا کر
پھر نئے سرے سے بنیادِ حجاج کے موافق اسی طور سے کعبے کو بنایا اور اندر
سنگِ مر مر کا فرش بچھایا اور اندر کی دیواروں میں بھی اکثر سنگِ مر مر لگا
ہوا ہے اور کسی عمدہ لکڑی کے دو صف ستونوں کے ہیں، ایک ایک صف میں تین تین
ستون ہیں اور اندر سے چھت پر نفیس مخملی چھت گیری ہے اور اوپر سے گچ ہے اور
باہر کی دیواریں سنگِ خارا سے چونے میں چنی ہوئی ہیں، ان کی لپائی نہیں
ہوئی ہے، مگر نہایت نفیس ریشمی سیاہ پردہ تمام کعبے پر پڑا رہتا ہے۔
(ماخوذ از تفسیر ابن کثیر:2/57-63، تفسیرِ حقانی:2/247-253 ، معارف
القرآن:1/317-320 )
|