خادم اعلی ....بے سکون والدین بچوں کو کیسے سکول بھیجیں؟

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگاکہ پاکستان جرائم کا گڑھ بن چکا ہے ۔اس کی وجہ پولیس کی ناکامی / نااہلی اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی ہے ۔ان دنوں بچوں کے اغوا اور جنسی جرائم کی خبروں نے والدین کا سکھ چین چھین رکھا ہے ۔ چھٹیاں ختم ہونے کے باوجود سکولوں میں حاضری نہ ہونے کے برابر ہے۔ والدین گہری سوچ میں ڈوبے ہیں کہ وہ بچوں کو کیسے اور کس کے ساتھ سکول بجھوائیں اور کون انہیں چھٹی کے بعد بحفاظت واپس لائے گا ۔گلیاں اور پارک ویران ہوچکے ہیں جہاں پہلے بچے آزادی کے ساتھ کھیلاکرتے تھے۔سوشل میڈیا پر گزشتہ دنوں ایک پوسٹ دیکھی جس میں ماں اپنی تین بچیوں کو لے کر پیدل چلتے ہوئے گھر کی جانب آرہی تھی۔ اچانک ایک بھاری بھرکم شخص نے ایک بچی کو اٹھا کر ویگن میں ڈالا اور ویگن تیز دوڑ ا لی۔ اولاد کی محبت میں ڈوبی ہوئی ماں دوڑی لیکن وہ ویگن تک کیسے پہنچ سکتی تھی اور اگر پہنچ بھی جاتی تو وہ درندہ صفت انسانوں سے بچی کو کیسے بچا سکتی تھی۔اسی طرح ایک بچے کا چہرہ بالکل صحیح لیکن دل ٗ گردے ٗ پھیپھڑے سمیت تمام قیمتی اعضا کو قتل کرکے نکال لیاگیا ۔ایک اور تصویر جس میں چند بچوں کے ہاتھ ٗپاؤں کو نہایت ظالمانہ انداز میں باندھ رکھا تھا ۔یہ تصویریں دیکھ کر کوئی پتھر دل انسان ہی ہوگا جو آنسو بہانے کے بغیررہ جائے ۔ افسوس کہ اغوا کنندگان سے نہ چھوٹے محفوظ ہیں اور نہ بڑے ۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جھوٹی رپورٹ پیش کر کے وزیر اعلی پنجاب کومطمئن کردیاگیا ہے لیکن یہ خبریں صرف ایک دن کی ہیں ۔پیرمحل سے اغوا ہونے والے بچے کی نعش کھیتوں سے ملی جس کی بے رحمی سے گردن جسم سے کاٹ دی گئی تھی۔عارف والا سے 16 سالہ لڑکی ٗ کامونکے سے 15سالہ لڑکاٗ چیچہ وطنی سے نویں جماعت کاطالب علم ٗ بہاولنگر سے دس سالہ بچہ اغوا کرلیاگیا ۔مظفر گڑھ کے قصبے بصیرہ میں ماں نے بیٹے کے اغوا کی کوشش ناکام بنادی ۔عورت شادی سے پہلے خود کو کمزور سمجھتی ہے لیکن ماں بنتے ہی اس میں شیر کی طاقت آجاتی ہے اور وہ اپنے بچے کو بچانے کے لیے شیر کے منہ میں بھی ہاتھ ڈالنے سے گریز نہیں کرتی۔کسی نے سچ کہا ہے کہ جس کو آگ لگتی ہے تپش بھی وہی محسوس کرتا ہے ۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ٗ سید یوسف رضا گیلانی سے پوچھیں بیٹے کی جدائی میں گزرے ہوئے لمحات کس قدر کرب ناک تھے ۔عدم تحفظ کی فضا کچھ اس طرح ہم پر طاری ہوچکی ہے کہ ہر شخص مشکوک اور تشویش کا شکار نظر آتا ہے ۔ اس کے باوجود کہ میرے بچے نہ تو رات کو گھر سے نکلتے ہیں اور نہ ہی بتائے بغیر کہیں جاتے ہیں ایک شام میرا بیٹا (زاہد) بتائے بغیر گھر سے نکل گیا ۔ جب وہ رات گیارہ بجے تک واپس نہ آیا تو تشویش کی لہر میری ریڑھ کی ہڈی تک پہنچنے لگی ۔ کوشش کے باوجود مجھے نیند نہیں آرہی تھی ٗ ذہن میں اٹھنے وا لے وسوسے مجھے بے چین کررہے تھے ٗ رات ساڑھے گیارہ بجے بیٹا گھر آیا تب دل کو سکون ملا۔یہ ایک باپ کے احساسات تھے جبکہ ماں کے جذبات کو ماپنے کے لیے دنیا میں کوئی پیمانہ نہیں بنا۔جب تک سزا اور جزا کانظام ٹھیک نہیں ہوتااور پولیس اپنی ذمہ داریوں کو صحیح انداز سے انجام نہیں دیتی ۔اس وقت تک خوف وہرا س کی فضا ختم نہیں ہوسکتی جس نے والدین اور بچوں کو یکساں پریشان کررکھاہے ۔ بچپن میں سناکرتے تھے کہ بچوں کو اغواکرکے بنوں کوہاٹ کے بیگار کیمپوں میں لے جاتا ہے دور جدید میں چند درندہ صفت لوگوں کے لالچ کی وجہ سے جنسی جرائم اور انسانی اعضا کی سمگلنگ کا مکروہ دھندہ عروج پر پہنچ گیا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہماری پولیس سخت ترین نااہل ٗ سست اور رشوت خور ہے اگر عوام کسی جرائم پیشہ شخص کو پکڑ کر بھی پولیس کے حوالے کرے تب بھی وہ شرافت کا سرٹیفیکٹ دے کر رشوت وصول کرکے اسے چھوڑ دیتی ہے۔اس دور میں اغوا ایک بدترین اور منافع بخش کاروبار بن چکا ہے کیونکہ اگر چاہے بھی تو اغوا ہونے والے کو تلاش نہیں کرسکتی۔ کیونکہ ان کے پاس نہ توجدید ٹیکنالوجی ہے اور نہ ہی ہمت ۔ پاکستان کی مایہ ناز ماہر انفارمیشن ٹیکنالوجی ارفع کریم رندھاوا ایک مرتبہ والد کے ساتھ اپنے گاؤں جارہی تھی راستے میں کچھ لوگ زمین پر کچھ تلاش کرتے نظر آئے ۔ ارفع نے والد سے پوچھا ابا جان یہ لوگ کیا تلاش کررہے ہیں ۔والد نے بتایا دیہاتوں میں چور بھینسیں چرا کر لے جاتے ہیں یہ لوگ کھوجی ہیں جو قدموں کے نشان تلاش کرکے وہاں تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس پرارفع کریم نے قہقہہ لگایا اوروالد سے مخاطب ہوکر کہا ابا جان یہ کونسے زمانے کی بات کررہے ہیں یہ کمپیوٹر کا دور ہے ایک چپ اگر بھینس پر چپکا دی جائے وہ جہاں بھی چلی جائے ٗکمیپوٹر پر بیٹھ کر چند سیکنڈوں اسے تلاش کیا جاسکتاہے ۔ اگر حکومت اور کچھ نہیں کرسکتی تو کم ازکم ڈاکٹر عمر سیف وائس چانسلر انفارمیشن ٹیکنالوجی سے درخواست کرکے بطور خاص بچوں کے والدین کو کیمپوٹر چپ مفت دلوا دے جو بچوں کے بستوں یا شرٹ کے کسی خفیہ خانے میں رکھ کر محفوظ کردی جائے۔ اس طرح والدین بچے کے بارے میں ہر لمحے آگاہ بھی رہ سکیں گے اور خدانخواستہ اغوا کی صورت میں پولیس بھی ان تک باآسانی پہنچ بھی جایاکرے گی ۔ اغوا کے ساتھ ساتھ جنسی زیادتی کے کتنے ہی کیس سامنے آچکے ہیں کسی ایک کو بھی سزاملتے ہوئے نظر نہیں آئی یہی وجہ ہے کہ جنسی جرائم ختم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ قصورکے نواح میں درجنوں بچوں سے زیادتی کا کیس مشہور ہوا۔اس پر بھی پولیس کی مہربانی سے مٹی پڑ چکی ہے یقینا مجرم رہا بھی ہوچکے ہوں گے۔ یہ وہ سانحہ ہے جو پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بنا۔ جب تک مجرم کو کھلے عام سخت سزا نہیں ملے گی اس وقت تک دوسرے اس سے عبرت حاصل نہیں کریں گے ۔ بہرکیف بچوں کے اغوا کامعاملہ ہو یا بچوں سے جنسی زیادتی کا مسئلہ ۔حکومت اس جرم کی سزا موت اور مقدمہ فوجی عدالت میں چلائے۔ جرم ثابت ہونے پر یہ سزا شہر کے کسی بھی معروف چوراہے پرسرے عام دی جائے ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 662400 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.