ٹپ ٹپ بوندیں برسنے لگیں ۔۔۔۔ ڈئیر بورن
مشیگن کی بنگھم اسٹریٹ پر بنے گھر کے لاؤنج کے پردے ہٹا کر وہ اس بارش کو
دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔ بچے کھیل میں مگن اور ساس اپنے وظیفے میں مصروف ۔۔۔
اماں ۔۔۔۔ میں تھوڑی دیر کے لئے باہر جارہی ہوں ۔۔۔۔
بھئی نظارہ تو تم گھر کے اندر سے بھی کرسکتی ہو باہر جاکر دیکھنے کی کیا تک
۔۔۔۔
اماں بس تھوڑی دیر کے لئے ۔۔۔۔
اچھا چلو جاؤ ۔۔۔۔ مگر زیادہ دور تک مت جانا بی بی ۔۔۔۔
جی اماں ۔۔۔ آپ بے فکر رہیں ۔۔۔۔
وہ اجازت ملنے پر خوشی سے بولی تھی ۔۔۔۔۔ اور پھر جلدی سے اپنا جلباب پہننے
لگی اور پھر اچھی طرح سے حجاب کئے وہ گھر سے باہر نکل آئی ۔۔۔۔ ساس کو بھی
پتہ تھا اسے بارش کتنی پسند ہے اور وہ اپنی بہو سے محبت بھی بہت کرتی تیں
۔۔۔۔ چپ چاپ اپنے گھر کی دہلیز پر کھڑی وہ برستی بوندوں کو دیکھتی رہی پھر
سیڑھیاں اتر گئی ۔۔۔۔ بارش اس کے جسم کو ہی نہیں من کو بھی بھگونے لگی ۔۔۔
موٹے جلباب کی بدولت گیلاہٹ محسوس نہیں ہورہی تھی ۔۔۔۔۔ گلی سنسان تھی ۔۔۔۔
مشی گن کی ایک بات جو اسے اچھی لگتی تھی وہ اس کے چاروں موسم ہیں ۔۔۔ اور
ہر موسم ہی اپنی جگہ خوبصورت لگتا ہے ۔۔۔۔ سرما ہو یا گرمی کے دن ۔۔۔۔ خزاں
ہو یا بہار کا موسم ۔۔۔۔ اگر آپ کنٹری سائیڈ پر نکل جاؤ تو دلکشی و رعنائی
منظر کی آپ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے ۔۔۔۔۔ اسے بارشیں پسند تھیں اور
خصوصاً گرمیوں کی بارش ذرا سی گرمی پڑی اور اور بادلوں کو موقع مل گیا
گرجنے برسنے کا ۔۔۔۔ وہ یونہی سائیڈ والک پر چلتے ہوئے بارش سے لطف اندوز
ہوتی رہی ۔۔۔۔
فرح باجی ! فرح باجی !
اچانک ہی کسی نے اسے پکارا تھا ۔۔۔۔ جانی پہچانی آواز پر چونک کر مڑ کر
دیکھا تھا ۔۔۔ مگر گلی سنسان نہ آدم نہ آدم زاد ۔۔۔۔ پھر یہ آواز کیسی ۔۔۔۔
تھوڑی سی حیرت ہوئی تھی اسے ۔۔۔۔ پھر کسی نے ہولے سے اس کا نام پکارا تھا
اور اس بار اسے سمجھ آگئی تھی کہ اسے کون پکار رہا ہے ۔۔۔۔۔ آواز دل سے
آرہی تھی کسی خاموش گوشے سے ایک بھولی بسری یادنے کروٹ لی تھی ۔۔۔۔۔ اور وہ
ماضی کی اس خوبصورت یاد میں کھو سی گئی ۔۔۔۔
فرح باجی ۔۔۔۔ بارش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فریال ۔۔۔۔ روبی کا پنجرا بھی لے کر چلو اوپر ۔۔۔۔۔۔
وہ یہ کہہ کر جلدی سے دوپٹہ سر پر اچھی طرح اوڑھ کر باہر نکل آئی ۔۔۔۔ امی
حسبِ سابق بے بی باجی سے بات کرنے میں محو تھیں فون پر ۔۔۔۔ وہ جانتی تھی
اگر بے بی باجی ہوں فون کی دوسری سائیڈ پر تو مما ایک دو گھنٹے سے پہلے
فارغ نہیں ہو پاتیں ۔۔۔۔۔ دونو بہنیں روبی کے پنجرے سمیت تیسری منزل پہنچیں
جس پر آدھی چھت اور تین کمرے اور ایک چھوٹا سا لاونج بنا ہوا تھا اور یہ
منزل پر ان کی کزن اسما باجی اور ان کی فیملی رہتی تھیں ۔۔۔ دیکھا تو اسما
باجی باہر رکھی چارپائی پر بیٹھی چائے نوش فرما رہی تھیں ۔۔۔۔
ارے روبی کو بھی لےکر آگئیں تم لوگ ۔۔۔۔
جی اسما باجی ! چلیں آپ بھی والک کر لیں ۔۔۔۔
نہیں بھئی تم لوگ ہی کرو والک مجھے نہیں بھیگنا ۔۔۔۔
وہ مزے سے چائے پیتے ہوئے بولیں تو دونوں بھی مسکرا کر ہاتھ میں ہاتھ ڈالے
تیز بارش میں بھیگنے لگیں ۔۔۔۔ تیسر ی منزل پر چھت ہونے کی وجہ سے کوئی
انہیں بھیگتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا ۔۔۔ اس لئے بے فکر وہ بھیگتی رہیں
اِدھر اُدھر کے قصے ایک دوسرے کو سناتی سنتی سر ہلاتیں کبھی بے ساختہ ہنسی
کی گونج کبھی بات کرتے کرتے جوشیلہ انداز ۔۔۔۔ جب تک بارش ختم نہ ہوجاتی وہ
یہی کرتی تھیں ۔۔۔۔ کراچی میں بارشیں ہوتی بھی کتنی ہیں ۔۔۔۔۔ مگر یہ دونوں
بہنیں ایسے موقعوں پر کبھی اندر بیٹھ کر گھر میں نہیں گزارتی تھیں ۔۔۔۔۔
چلو بھئی چار بوندیں کیا پڑیں بجلی رانی کی چھپن چھپائی شروع ۔۔۔۔
اسما باجی کی جھنجھلاہٹ بھری آواز پر فرح نے مڑ کر دیکھا تھا انہیں ۔۔۔۔
اسما باجی ۔۔۔۔۔ بجلی کی تاریں اتنی مخدوش ہوتی ہیں ذرا تیز ہوا پر زمین پر
گرپڑتی ہیں اور ننگی تاروں کی بدولت کتنے لوگ بارشوں میں کرنٹ لگنے سے
مرجاتے ہیں ۔۔۔۔
ہاں بات تو تمہاری صحیح ہے ۔۔۔۔۔۔
وہ اس کی بات سن کر سر ہلاتے ہوئے بولی تھیں ۔۔۔۔۔
آج تو جھڑی لگ گئی تھی ۔۔۔۔ بارش رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔۔۔۔ امی
کی غصے بھری آواز پر وہ دونوں جلدی سے پہلی منزل پر دوڑ گئیں ۔۔۔۔
فرح باجی پکوڑے بنالیں تو مزہ آجائے گا ۔۔۔۔۔
فراز بولے تو فرح مسکرادی ۔۔۔۔ اور پھر کچن میں چلے گئی ۔۔۔۔ پکوڑے تل کر
جب وہ باہر آئی تو امی اور فراز کو کاغظ کا پنکھا جھلتے دیکھا بارش تو ابھی
بھی ہو رہی تھی باہر موسم اچھا ہوگیا تھا مگر گھر میں گرمی تھی حبس سا تھا
۔۔۔۔
لو جی اب چار پانچ گھنٹے کی چھٹی ۔۔۔
کس بات کی ۔۔۔۔
فریال حیرت سے بولی تھی ۔۔۔۔۔
بجلی کی اور کس کی ۔۔۔۔۔۔
فرح منہ بنا کر بولی تو فریال بھی ایک سرد آہ بھر کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔ پھر
تینوں بہن بھائی اور امی ایک دوسرے سے باتیں کرنے اور پکوڑوں سے لطف اندوز
ہونے لگے ۔۔۔۔۔
ہنسی، مزاق اور کبھی قہقہے بھی باتوں کے درمیاں ۔۔۔۔ اس بات سے انجان کے
وقت انہیں پھر اس طرح کے مواقع کم کم ہی دے گا شاید ایک دوسرے کی صورت کو
دیکھے بھی کافی سال یونہی گزر جائیں گے ۔۔۔۔ اور یہی ہوا تھا ۔۔۔ آج یہ
تینوں بہن بھائی بھی ایک دوسرے سے بچھڑ کر اپنی زندگیاں جی رہے ہیں ۔۔۔۔۔
مگر محبت تو اپنی جگہ بدستور ہے اور رہے گی ۔۔۔۔ مگر شاید ایک دوسرے کے لئے
وقت نہیں ۔۔۔۔ وہ یہ باتیں سوچتی رہی اور بھیگتی رہی ۔۔۔۔ ایسی کئی یادیں
اس نے سنبھال کر رکھی ہیں اب تک ۔۔۔ جو اسے اداس ہونے نہیں دیتیں ۔۔۔۔ یہ
کھٹی میٹھی یادیں اس کا سرمایہ ہیں ۔۔۔۔۔وہ بھیگتی رہی اور مشی گن کی
خوبصورت بارش اسے بھگوتی رہی ۔۔۔۔ وہ مسکرا رہی تھی گن گنا رہی تھی ۔۔۔
بارش کا موسم
میرے شہر کو بھی
بھگو رہا ہوگا
میری یاد اسے بھی آرہی ہوگی
کوئی میری طرح ہی
ان کھٹی میٹھی یادوں میں کھویا ہوگا
مجھے یاد کر رہا ہوگا
مجھے یاد کر رہا ہوگا۔۔۔ |