آج دادی جان نے کوئ پندرہویں لڑکی کو
ریجیکٹ کیا اور میں نے ارم کے آگے هاته جوڑ دیے کہ تم آخر گهر داری کیوں
نہیں سیکھ لیتیں...!!!
اور ارم کا وہی جواب کہ گهر میں نوکروں کے ہوتے مجهے یہ سب نہیں سیکھنا،
لڑکی کو عقلمند ہونا چاہیے سلیقہ وقت اور ذمہ داری پڑنے پر خود آجاتا ہے....
انجینئرنگ کے آخری سال میں جب سے میں آیا تها دادی جان کو میری شادی کی فکر
لگ گئ تهی اور لڑکی پسند آنے کا معیار یہ تها کہ لڑکی دادی جان کے سامنے
آلو کا چهلکا اتارے گی اور جو لڑکی باریک چهلکا اتارے بس وہی سلیقہ مند ہے
اور دادی جان کی بہو بهی وہی بنے گی. دادی جان کا کہنا تها کہ دادی کو بهی
اسی بنیاد پر پسند کیا گیا تها اور دادی جان میری امی کو بهی اسی ترکیب
پرپسند کر کے لائ تهیں. لہذا اب بهی ان کی یہی منشاء تهی. جب کہ دوسری طرف
ارم جو کہ میری چچا زاد تهی اور برابر والے گهر میں ہی رہتی تهی میری اور
امی کی پسند تهی مگر دادی جان کے بقول " اس موئ لڑکی کو اچھلنے کودنے کے
سوا کوئ کام نہیں گهر کیا سنبھالے گی....
آخر اس مسئلے کا حل بهی ارم نے ہی نکالا اور هم سب کو شام کی چائے پر بلا
لیا. شام جب ہم سب چچا جان کی طرف جمع ہوئے اور گپ شپ کا آغاز ہوا یکایک
چچی جان نے لڑکی دیکهنے والا قصہ چهیڑ ڈالا، موضوع دادی کا پسندیدہ تها وہ
بڑه چڑه کر اپنی رائے کا اظہار کر نے لگیں کہ ارم ہاته میں آلو کی ٹرے
تهامے چلی آئ اور دادی جان کے بالکل سامنے بیٹھ گئ اور کہا بهئ آج آپ سب کو
میں چائے کے ساتھ آلو کے پکوڑے بھی کهلاؤں گی....اور لگی آلو چهیلنے.....
پہلا آلو اٹهایا اور اسکا جو چهلکا ارم نے اتارا... دادی جان کی تو مانو
دکهتی رگ پر چهری چل گئ ابهی کچھ کہنا ہی چاہتی تهیں کہ جهٹ ارم نے آلو کی
ٹرے دادی جان کے هاته میں تهمائ اور کہا دادی جان یہ زرا آپ چهیلیں میں
چائے کا چولها هلکا کر آؤں....بس یہ ہی موقع تها کہ اچانک هی چائے کے بعد
دادی جان نے ارم سے میرے رشتے کی بات چچا جان اور چچی جان سے کر ڈالی.....ہر
کوئی حیران تها کہ آخر یہ پل بهر میں دادی جان کیسے ارم کو بہو بنانے کے
لئیے تیار ہو گئیں....اسی وقت ارم کے ہاته میں امی نے اپنی انگوٹھی پہنائ
اور یہ خوشی سے بهری شام اختتام کو پہنچی...
میں حیرانگی کے عالم میں ہی تها اور اس معمہ کو حل کرنے کے لیے امی کے پاس
جانا چاہتا تھا کہ لاؤنج میں دادی جان کو امی سے بات کرتے سنا....جو کہ
انتہائی رقت آمیز لہجے میں ارم کی تعریف کرتے امی سے کہ رہی تھیں کہ..."
ارے پروین! یقین مانو اس نکٹی چهری سے تو مجه سے آلو کا چهلکا اترنا دور
آلو کے دو ٹکڑے نہ ہوتے اور وه بچی تو چهلکے اتار کے کاٹ تک رہی تهی...اور
بهی نہ جانے کیا مگر میں ارم کو جتنا جانتا تها اس پر مجھے یہ بات بهی ہضم
نہ ہو پائ اور میں سیدھا اپنے کمرے کی طرف بڑھا اور ارم کو فون ملایا وہ
ہنس کر اطمینان سے کہنے لگی میں جانتی تھی کہ تمہارا فون ضرور آئے گا تو
ڈئیر ہونے والے شوہر جی بس اتنا سن لیجیے کہ دادی جان کے ہاتھ میں ٹرے
پکڑاتے وقت میں نے چهری بدل دی تهی....اور اس کے بعد وہ ہنستی چلی گئی اور
میں مسکراتے ہوئے سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ واقعی لڑکی کو سلیقہ مند ہو نا
چاہیے یا عقلمند ...... |