وطن عزیز مافیا کے رحم و کرم پر آخر کب تک؟؟؟

ایک زمانہ تھا جب لوگ اپنی محنت پر ناز کرتے تھے اور ہر شخص کی قابلیت ہی اس کا آئینہ دار ہوتی تھی۔کیونکہ لوگوں کوپختہ یقین ہوتا تھا کہ ان کی محنت ایک نا ایک دن ضرور رنگ لائے گی۔اس لیے لوگ دن رات محنت کرتے تھے تاکہ وہ ترقی کی منازل طے کر سکیں اور اپنے ملک وقوم کا نام روشن کرنے میں ممدد و معاون ثابت ہو سکیں۔چھوٹے بچوں سے پوچھا جاتا تھا بڑے ہو کر کیا بنو گے۔تو وہ پراعتماد طریقے سے بتا رہے ہوتے تھے کوئی فوجی بننا چاہتا تھا ، شاعر،کوئی ڈاکٹریا پھر وکیل ۔اور پھر یہ معصوم فرشتے مستقبل کی تاریکیوں میں اجالا کرنے کے رنگین سپنے سجائے دن رات محنت کرتے تھے۔انہیں اس بات کا یقین تھا کہ وہ ایک دن ضرور اپنی منزل پا لیں گے اور پھر ہوا کچھ یوں کہ وکیل کی صورت میں قائداعظم ؒ،شاعر علامہ اقبالؒ اور ڈاکٹر عبدالقدیرجیسے سائنسدان پیدا ہوئے۔اور اگر ماضی قریب کی بات بھی کی جائے تو حالات کچھ مختلف نہیں تھے۔مگر پھر نا جانے کیا ہوا وقت نے کروٹ لی اور سب کچھ بدل گیا۔سپنے تو رہے مگر انکی رنگینیاں چھن گئیں۔وہی بچے جنہوں نے ملک کاروشن مستقبل بننا تھانہ جانے کون سی تاریکیوں میں گم ہوگئے۔جن کے ہاتھ میں قلم ہونا تھا انہوں نے ہتھیار اٹھا لیے۔جو ذہن وطن کے ناقابل تسخیر دفاع کے لیے استعمال ہونے تھے وہی ذہن دشمن کے ہاتھوں استعمال ہوئے۔بچپن سے ایک لفظ سنتا چلا آرہا ہوں جسے مافیا کہتے ہیں۔شروع میں تو اس کا واضح طور پر پتہ نہیں تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سچ آشکار ہوتا چلا گیا۔آج ہمارے ملک کو مافیاز نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ان میں سے کچھ مافیا تو بدنام ہیں مگر کچھ تو بہت معزز پیشہ ور لوگ بھی مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔بدنام مافیا میں قبضہ مافیا سب سے اہم ہے اور اس مافیا کی کئی منظم شکلیں موجود ہیں مگر یہ ہر شکل میں قبضہ ہی کرتے ہیں ۔خواہ یہ زمین پر قبضہ کریں یا حکمرانی پر۔یہ دونوں ہی صورتوں میں غریب عوام پر ہی مسلط ہوتے ہیں۔ان مافیاز کا تعلیم یافتہ ہونا نہیں بلکہ طاقتور ہونا ضروری ہے۔مافیا دراصل منظم طریقے سے جرائم کرنے والے گروہ کو کہتے ہیں۔ہمارے ملک میں یہ مافیاز کس طرح کام کرتے ہیں اس پر نظر ڈالنا بہت نا گزیر ہے ۔سب سے پہلے ہم سکول مافیا کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بہت سارے سکول اور کالج اس مافیا کا حصہ ہیں اور ہماری بھولی بھالی عوام کو لوٹنے میں دن رات مصروف عمل ہیں ۔ یہ سکول مافیا بچوں کی کتابوں سے لیکر وردی تک سب معاملات والدین سے طے کرتا ہے۔جس کے نتیجے میں لوگ اپنی جیبیں خالی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس یہاں سے خریداری کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔اس طرح سکول مافیا تعلیم کے نام پر اپنا کاروبارچلاتا ہے اور یہی نہیں بلکہ من مرضی کی فیس بھی وصول کرتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ جن اساتذہ کے ساتھ طالب علموں کا تعلق روحانیت کی بنیاد پر ہوتا تھاآج وہ تعلق صرف کاروبار کی صورت میں نظر آتا ہے ۔اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ مافیا بھی حکومتی سر پرستی میں یہ سب معاملات کر رہا ہوتا ہے اور ا گر ایسا نہ ہوتا تو یقینا ہمارے سرکاری سکولوں اور کالجوں میں طالب علموں کی اکثریت کا رجحان ہوتا۔ مگر بد قسمتی سے سرکاری سکولوں میں حکومتی عدم دلچسپی کی بنا ء پر غریب عوام پس کر رہ گئے ہیں اور ان کے پاس تعلیم کے حصول کے لیے اپنی جیبیں خالی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔یہ تو تھی سکول مافیا کی داستاں اب اگر عوام کے جان و مال کے تحفظ کرنے والے ادارے پولیس کی بات کی جائے تو یہ بھی مافیا کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اگر میری بات افسانہ معلوم ہو تو کوئی صاحب بغیر کسی سفارش ،رشوت کے اپنی ایف آئی آردرج کروا کر دیکھ لے اور بعض اوقات تو لوگ اس وجہ سے بھی ان کے پاس اپنی شکایات لیکر نہیں جاتے کہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں ۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو اپنی ایف آئی آر درج کروانے کے لیے ستر دن کا دھرنا دینا پڑے ۔ یہ ادارہ بھی حکمران طبقے کی لونڈی بن کر رہ گیا ہے یہی وجہ ہے کہ بہت سارے جرائم صرف اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ عوام غنڈوں سے زیادہ پولیس سے ڈرتے ہیں اور وہ جرم ہوتا ہوا دیکھ کر بھی خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ اسی طرح آج کل ہمارے ملک کا روشن مستقبل بھی مافیا کی شکل اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔میری مراد ڈاکٹر حضرات ہیں جو آئے دن کبھی تنخواہ کے نام پر ،تو کبھی سول سٹرکچر کے نام پر ہڑتال کر رہے ہوتے ہیں۔جو ہسپتال جنگ کے دوران بھی بند نہیں کیے جا سکتے ان کی ایمرجنسی بھی بند کر دی جاتی ہے ۔جس کی وجہ سے کتنے مریضوں کی جانیں چلی جاتی ہیں۔مگر اس غریب عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔جب قوم کے مسیحا ہی مافیا کا روپ دھار لیں تو پھر اس ملک و قوم کا اﷲ ہی حافظ ہے۔ اور اگر اپنے ملک کے انصاف کے نظام کی بات کی جائے تو یہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ایک ہزار روپے کا دھنیا چرانے والا دو سال تک قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرتا ہے مگر کروڑوں کی کرپشن کرنے والوں کے لیے نام نہاد کمیشن قائم کیے جاتے ہیں جو درحقیقت ان کے کالے کو سفید کرنے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ویسے تو ہمارا ملک چل ہی مافیاز کے رحم و کرم پر رہا ہے۔لیکن بدقسمتی یہ ہے جو ادارے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔اگر وہی یہ کردار ادا کرنا شروع کردیں تو پھر ملک و قوم کا کیا ہوگا۔نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ جو قوم صحت اور تعلیم کو کاروبار بنا لے وہ قوم تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کرے اور دنیا ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھے۔تو ہمیں اپنے ملک کو ان مافیاز سے چھٹکارہ دلانا ہو گا۔اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہمارے ادارے مضبوط ہونگے اور ادارے تب تک مضبوط نہیں ہو سکتے جب تک کہ معیار ہماری ترجیح نہ ہو۔ہمیں سفارش،اقرباء پروری کی روایات کو ختم کرنا ہو گا۔اور اپنے آنے والے کل یعنی ہماری آنے والی نسلوں کو پھر سے ملک و قوم کا معمار بنانے کے لیے رنگیں سپنے سجانے کی عادت ڈالنا ہو گی۔اور یہ تب ہی ممکن ہو گا جب انہیں یقین ہو کہ آنے والا کل ان کا ہے۔ اور یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہمارا مستقبل ہمارے بچے اپنے ملک کا سرمایہ بننے کی بجائے کہیں خدانخواستہ دشمن کا آلہٰ کار نہ بن جائیں۔ اﷲ ہمارے ملک و قوم کی حفاظت فرمائے۔آمین
Muhammad Zulfiqar
About the Author: Muhammad Zulfiqar Read More Articles by Muhammad Zulfiqar: 20 Articles with 17203 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.