دنیا فانی ہے

تحریر۔۔۔حلیمہ گیلانی
ہم میں سے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مرنا صرف اسی کو تھا جس کو دفنا دیا ہے ہم اپنی موت کو بھول چکے ہیں بیشتر لوگ کئی سو سال کی پلاننگ کر لیتے ہیں کوئی بڑا سٹار ہو یا کوئی فرعون وہ دو ٹن مٹی کے بوجھ سے نہیں بچ سکتا جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ،ہر انسان کو موت کا مزہ چھکنا ہے پھر ہم کیوں کئی سو سالوں کی منصوبہ بندی کر لیتے ہیں یہاں میں ایک مشہور امریکی گلوکار کے بارے میں بتانا ضروری سمجھتی ہوں کہ میں نے یہ سو چ رکھا تھا کہ اس نے کئی سوسال زندہ رہنا ہے پھر آخر کیا ہوا۔
مائیکل جیکسن نے امریکہ اور یورپ کے پچپن چوٹی کی پلاسٹک سرجری کی خدمات حاصل کیں یہاں تک کہ 1987 تک مائیکل جیکسن کی ساری شکل وصورت جلد نقوش اور حرکات وسکنات بدل گئیں ۔سیاہ فام مائیکل کی جگہ گورا چٹا اور نسوانی نقوش کا مالک ایک خوبصورت مایئکل جیکسن دنیا کے سامنے آگیا ۔ 1987 میں ـ بیڈ کے نام سے اپنی البم جاری کی یہ گورے مائیکل جیکسن کی پہلی البم تھی یہ البم کامیاب ہوئی اور اس کی تین کروڑ کاپیاں فروخٹ ہوئیں اس کے بعد اس نے اپنا پہلا سولو ٹور شروع کیا وہ ملکوں ملکوں شہر شہر گیا موسیقی کے شوز کیے اور ان شوز سے کروڑوں ڈالر کمائے یوں اس نے اپنی سیاہ رنگت کو بھی شکست دے دی۔

اس کے بعد ماضی کی باری آئی مائیکل جیکسن نے اپنے ماجی سے بھاگناشروع کر دیا اس نے اپنے خاندان سے قطع تعلق کر لیا اس نے اپنے ایڈریسز تبدیل کر لیے اس نے کرایے پر گورے ماں باپ بھی حاصل کر لیے پھر اپنے تمام پرانے دوستوں سے بھی جان چھڑائی لی ۔ان تمام اقدامات کے دوران جہاں وہ اکیلا ہوتا چلا گیا وہاں وہ مصنوعی زندگی کے گرداب میں بھی پھنس گیا اس نے خود کو مشہور کرنے کے لیے ایلوس پر بیلے کی بیٹی لیزا میری سے شادی بھی کر لی اس نے یورپ میں اپنے بڑے بڑے مجسمے بھی لگوا لیئے اور مصنوعی طریقہ تولید کے ذریعے ایک نرس ڈیبی رو سے اپنا پہلا بیٹا پرنس مائیکل بھی پیدا کر لیا ڈیبی رو سے اس کی بیٹی پیرس مائیکل بھی پیدا ہوئی اس نے بہت حد تک اپنے ماضی سے جان چھڑالی۔
لہذا اب اسکی آخرت نفرت یا خواہش کی باری تھی وہ ڈیڑھ سو سال تک زندہ رہنا چاہتا تھا مائیکل جیکسن طویل عمر پانے کے لیے دلچسپ حرکتیں کرتا تھا-

وہ رات کو آکسیجن ٹینٹ میں سوتا تھاوہ جراثیم اور بیماریوں سے بچنے کے لیے دستانے پہن کر لوگوں سے ہاتھ ملاتا تھا وہ اپنے مداحوں سے ملنے سے پہلے منہ پر ماسک چڑھا لیا کرتا تھا اور مخصوص خوراک کھاتا تھا اور اس نے مستقل طور پر 12 ڈاکٹر اپنے چیک اپ کے لیے رکھے ہوئے تھے جو روزانہ اس کے جسم کے ایک ایک حصے کا معائنہ کرتے تھے اور روزانہ لیبارٹری ٹیسٹ بھی ہوتا تھا اور اسے روزانہ ورزش بھی کرواتا تھا اس نے اپنے لیے متبادل پھیپھڑوں ،گردوں ،آنکھوں ،دل اور جگر کا بندوبست بھی کر رکھا تھا یہ ڈونر ز تھے جن کے تمام اخراجات وہ اٹھا رہا تھا بوقت ضرورت ان لوگوں نے اپنے اعضاء عطیہ کر دینا تھے اسے یقین تھا کہ وہ ایک سو پچاس سال تک زندہ رہے گا لیکن پھر 25 جون کی رات آئی اس سانس لینے میں مشکل پیش آئی اسکے ڈاکٹر نے ملک بھر سے سینئر ڈاکٹرز کو اس کی رہائش گاہ پر اکھٹا کر لیا یہ ڈاکٹر اس کو موت سے بچانے کی کوشش کرتے رہے لیکن ناکام ہوئے اور اسے ہسپتال لے گئے وہ شخص جس نے ایک سو پچاس سال زندہ رہنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی جو ننگے پاؤں زمین پر نہیں چلتا تھا جو کسی سے ہاتھ ملانے سے پہلے دستانے پہنتا تھا جس کے گھر میں روزانہ جراثیم کش ادویات چھڑکی جاتیں تھیں جس نے پچیس سال سے ایسی کوئی چیز نہیں کھائی تھی جس سے ڈاکٹرز نے اسے منع کر رکھا تھا وہ شخص پچاس کی عمر میں تیس منٹ کے اندر انتقال کر گیااس کی روح چٹکی کی طرح اس کے جسم سے پرواز کر گئی ۔

مائیکل جیکسن کے انتقال کی خبر گوگل پر دس منٹ کے اندر تقریباً آٹھ لاکھ لوگوں نے پڑھی یہ گوگل کی تاریخ کا پہلا ریکارڈ تھا اور ہیوی ٹریفک کی وجہ سے گوگل کا سسٹم بیٹھ گیا اور کمپنی کو پچیس منٹ تک اپنے صارفین سے معذرت کرنا پڑی مائیکل جیکسن کا پوسٹ مارٹم ہوا تو پتہ چلاکہ اس کا جسم ڈھانچہ بن چکا تھا وہ سر سے گنجا تھا اس کی پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اس کے کندھے ،کولہے ،پسلیوں اور ٹانگوں پر سوئیوں کے بے تحاشا نشانات تھے وہ پلاسٹک سرجری کی وجہ یبین کلرز کا محتاج ہو چکا تھا وہ روزانہ درجنوں انجکشن لگواتا تھا لیکن یہ انجکشنز ، یہ احتیاط اورڈاکٹرز بھی اسے موت سے نہ بچا سکے اور وہ چپ چاپ اس جہاں سے رخصت ہو گیا جہاں ہر شخص نے جانا ہے اس کی آخری خواہش بھی نہ پوری ہو سکی مائیکل کی موت ایک اعلان ہے انسان پوری دنیا فتح کر سکتا ہے لیکن وہ اپنے مقدر کو شکست نہیں دے سکتا وہ موت اور موت کے لکھنے والے کا مقابلہ نہیں کر سکتا حیرت ہے مجھے مائیکل جیکسن کے انجام کے بعد بھی ہم خود کو فولا د کا انسان سمجھ رہے ہیں ہمارا خیال ہے کہ ہم موت کو دھوکہ دے دیں گے ہم بہت عرصہ تک زندہ رہیں گے اور دنیا میں وہ جو بھی کرے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ۔

ایک دانشور کا قول ہے کہ انسان جتنا مرضی طاقتور بن جائے اتنا ناقص منصوبہ ساز ہے کہ اپنے ہر فیصلے میں موت کو کبھی شامل نہیں کرتا موت تو آکر رہے گی تو پھر یہ دنیا کا لالچ ،بڑے بڑے علیشان محل خزانے کیوں کر جمع کرتا رہتا ہے انسان ،،،،، زرا سوچئے تو!

 
Dr B.A Khurram
About the Author: Dr B.A Khurram Read More Articles by Dr B.A Khurram: 606 Articles with 525528 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.