ریل کا حُسن اور داغ!

سفر کراچی کا درپیش تھا۔ ریلوے کے بارے میں ہماری خوش فہمی یقین کی حدو ں کو چھو رہی تھی، وقت کی پابندی کی خبریں بھی عام تھیں، تاہم چند منٹ کی تاخیر سے ٹرین پہنچ گئی۔ جس بوگی میں ہم نے سفر کرنا تھا، اس کے سامنے ہی پلیٹ فارم پر ہم نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ ہم چونکہ فیملی کے ساتھ تھے اور پورا کیبن ہی بُک تھا، مگر ٹرین میں قدم رکھتے ہی ایک صدمے نے ہمیں آلیا۔ ٹرین کی سیٹیں صاف ستھری اور سبز کپڑے کی پوشش سے مزین تھیں، مگر عام بوگی کو پوشش ، پردوں اور ائیر کنڈیشنر کے ذریعے عام گاڑی سے مختلف بنایا گیا تھا۔ فیملی کے لئے تخلیے کا اہتمام نہ تھا، راہداری کی طرف پردہ لٹک رہا تھا، چھ کی بجائے پانچ سیٹیں اس کیبن میں تھیں، چھٹی سیٹ پردے سے باہر اکلوتی سیٹ کی طرف تھی، یوں ہمارے خاندانی نظام کو توڑ دیا گیا، یعنی ہم پانچ لوگ ایک کیبن میں اور ہم میں سے ایک فرد گھر سے باہر تھا۔ ہماری ایک نشست کی پشت دوسرے کیبن کی پشت سے ملتی تھی، جس میں درمیان میں چھ انچ چوڑا اور پوری تین سیٹوں طویل خلا تھا، جو ہمسایوں کے گھروں میں جھانکنے کے لئے کافی تھا۔ ہمیں فیملی کی وجہ سے ایک چادر اس خلا کو پُر کرنے میں استعمال کرنا پڑی، بعد ازاں اے سی کی کولنگ بڑھی تو ہم چادر بھی اوپر نہ لے سکے، کہ اگر چادر لیتے ہیں تو پردہ خراب ہوتا ہے، اگر نہیں لیتے تو سردی لگتی ہے، ترجیح پردے کو دینا تھی، سو ہم نے رات بھر سردی کھائی۔ یہ صدمہ چونکہ گاڑی میں داخل ہوتے ہی شروع ہوگیا تھا، مگر کچھ ہی دیر بعد ہم نے اسے بھول جانے (یابرداشت کرنے ) کا فیصلہ کیا، مگر رات بھر سردی وغیرہ کی وجہ سے صدمے کو بھلا نہ سکے۔

چند برس قبل تک ریل کی حالت مایوس کن ہو چکی تھی، اگر یہ کہا جائے کہ ریل آخری سانسیں لے رہی تھی تو بے جانہ ہوگا۔ ریلوے سٹیشن اجڑ چکے تھے، مال گاڑیوں کا وجود تقریباً ختم ہو چکا تھا، مسافر گاڑیوں کی تعداد بھی روز بروز کم ہو رہی تھی، ریلوے کی رہائشی کالونیاں کھنڈرات کا روپ دھار رہی تھیں، چھوٹے روٹس پر چلنے والی ٹرینوں کا مکمل خاتمہ ہو چکا تھا، وہاں موجود سٹیشن کی اینٹوں تک بھی لوگ لے جا چکے تھے۔ اس موقع پر خواجہ سعد رفیق کی تحسین نہ کرنا بخیلی سے کم نہیں، کہ ان کی مسلسل محنت اور توجہ سے اب نہ صرف ریل کا پہیہ چل رہا ہے، بلکہ اس میں مسلسل بہتری بھی آرہی ہے۔ یقینا دیگر ریلوے سٹیشنز کی باری بھی آئے گی، بہاول پور کا نمبر لگ چکا ہے، پورا ریلوے سٹیشن زمین بوس کردیا گیا ہے، اب جدید تقاضوں اور سہولیات کے ساتھ نئی عالیشان عمارت یہاں بنائی جائے گی۔ کراچی تک جاتے جاتے سامنے سے دوسری لائن پر چند ہی منٹ بعد کسی گاڑی کا آجانا بہت خوشگوار تجربہ ہے، خاص طور پر مال گاڑیاں بھی مناسب تعداد میں دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ریلوے کی زمینوں وغیرہ کا معاملہ نہایت حساس اور گھمبیر ہے، قبضہ گروپ سے یہ زمینیں واگزار کروانا آسان کام نہیں۔ یہ کام ہے بہت ضروری۔

ریلوے کے اس خوش نما چہرے پر جو بدنما داغ مستقل دکھائی دیتا ہے، وہ ہے تمام ہی شہروں میں ریلوے سٹیشنز کے قرب وجوار میں حد درجہ گندگی اور کچرا۔ یہ صورت کسی ایک شہر میں نہیں، خود بہاول پور میں جہاں کروڑوں روپے کی لاگت سے مکمل اور ماڈل ریلوے سٹیشن دوبارہ تیار ہو رہا ہے، وہیں پر سٹیشن کے دوسری جانب گندا پانی، بدبو اور اس کے دیگر لوازمات موجود ہیں۔ جس شہر میں بھی ٹرین رکنے کے لئے آہستہ ہوتی ہے، وہیں پر گندا پانی، کچرا، قبضہ گروپ موجود ہے، حتیٰ کہ بعض مقامات پر تو ریلوے لائن سے چند فٹ دور تک وہاں کے قابض رہائشیوں کی چارپائیاں پڑی ہوتی ہے، اور جب ٹرین صبح سویرے وہاں سے گزرتی ہے تو وہ لوگ خوابِ خرگوش میں محو ہوتے ہیں۔ جب گاڑی شہروں سے باہر نکلتی ہے، تو پیارا پاکستان اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اپنے حُسن کے جلوے بکھیر رہا ہوتا ہے، کہیں پہاڑ اور سرنگیں ہیں تو کہیں دریا اور میدان، کہیں فصلیں لہلہا رہی ہیں تو کہیں صحرا اپنے مخصوص حسن کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ یہ نظارے نہ صرف دل کو بھاتے ہیں،بلکہ انہیں دیکھتے ہی دل سے اپنے وطن کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے، مگر جونہی ٹرین کسی بھی شہر میں داخل ہوتی ہے، تو گندگی، گندا پانی اور کچرے وغیرہ کو دیکھ کر طبیعت خراب ہونے لگتی ہے، امید ہے خواجہ سعد رفیق اس اہم معاملے پر بھی ٹھنڈے دل سے غور کریں گے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428061 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.