اسلامی تہذیب میں حقوق ِانسانیت
(Attique Ur Rehman, Lahore)
ایک مغربی فلسفی نطشہ نے کہا ہے کہ
کمزوری ایک بوڑھے پن کی علامت ہے،ضروری ہے کہ اس کے خاتمے کے لئے عملاً
کوشش کرنی چاہیے اس کا بدیہی تقاضہ ہے کہ ہم انسانیت سے محبت کو اپنا
بنیادی اصول بنالیں۔لیکن اسلام نے سماج کے تمامی طبقات میں بغیر کسی تفریق
و تقسیم کئے سبھی کے لئے یکساں اخلاقی و ادبی،معاشی و معاشرتی بحیثیت
انفرادی و اجتماعی اصول بیان کئے اور ان کو اختیار کرنے کا حکم دیا اس میں
کسی رنگ و نسل یا قوم و مذہب کی نسبت کو ذکر نہیں کیا گیا اور اسی کے ساتھ
یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو انسانوں کے اساسی اصول جو اسلام نے وضع کئے
ہیں ان سے پہلوتہی کرے یعنی انسانیت کے فلاح و بہتری کے ساتھ ہمہ جہت آزادی
سلب کرنے کی کوشش کرے تو اس کے لئے سزاؤں کا تقرر بھی کیا گیا ہے۔
انسان کے حقوق اسلام کی نظر میں
اسلام میں انسانیت کو عزت و اکرام ،تعظیم و احترام کی نگاہ سے دیکھا
جاتاہے۔قران حکیم کی سورہ بنی اسرائیل کی آیت 70میں بیان کیا گیا ہے
کہ’’اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگ اور دریا میں سواری دی
اور پاکیزہ روزی عطاکی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطافرمائی‘‘۔اس
آیت کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اﷲ جل وعلا نے انسانیت کو ہمہ جہت مکمل
ابرومندانہ زندگی بسر کرنے کی خاطر بہت سے حقوق سے نوازا ہے جس میں سیاسی و
اقتصادی ،اجتماعی و فکری آزادی فراہم کی گئی اور یہ کسی خاص قوم یا خاص
طبقہ کے لئے نہیں بلکہ مسلم و غیر مسلم ،کالے و گورے ،عربی و عجمی سبھی کو
یکساں ایک جیسے ہی حقوق عطا کئے گئے ہیں اور اس میں کسی قسم کے تغیر و تبدل
اور تحریف و زیادتی کی اجازت نہیں ہے کیوں کہ یہ براہ راست رب کریم کی
ہدایات کے مطابق حقوق دئیے گئے۔اسی طرح خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر اسی
مضمون کو ایک اور انداز سے نبی کریمؐ نے بیان فرمایا ہے’’تم پر تمہارا خون
،تمہارا مال حرام ہے اس طرح جیسے آج کے دن کی حرمت اور اس ماہ مقدس کی حرمت
اور اس شہر مقدس کی حرمت تم پر لازم ہے یہاں تک کہ اﷲ سے یوم حساب میں
ملاقات ابدی ہو‘‘۔اس حدیث نبوی میں انسان کو فراہم کئے گئے تین بنیادی حقوق
کی حرمت کا ذکر کیا گیا ہے جان ،مال اور عزت کہ اس کے ساتھ کوئی فرد
بشرکھلواڑو استحصال و غصب نہیں کرسکتا۔اسی طرح ایک اور حدیث میں انسانیت کے
حقوق کی حفاظت کا اسقدر اہتمام کیا گیا ہے کہ اﷲ کے ساتھ شریک کرنے کے بعد
سب سے بڑا گناہ انسان کو ناجائز قتل کرناہے یہی وجہ ہے کہ قرآن میں وارد ہے
کہ’’ جس نے ایک انسان کی مدد کی زندہ رہنے میں اس نے سب انسانوں کو زندہ
کیا اور جس نے کسی انسان کو قتل کیا تو تمام انسانوں کا قتل کیا‘‘۔ اسی طرح
بخاری ومسلم کی ایک روایت میں خودکشی کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے کہ
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں نبی کریم ؐ نے فرمایا’’جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے
گراکر قتل کیا تو وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لئے گرتارہے گا،اور جس نے زہر
پی کر اپنے آپ کو قتل کیا تو جہنم کی آگ میں زہر کو ہاتھ میں پکڑ کر ہمیشہ
پیتا رہے گا،اور جس نے کسی لوہے کے ہتھیار سے خودکشی کی وہ بھی جہنم کی آگ
میں ہمیشہ کے لئے خود کولوہے کے ہتھیار سے قتل کرتارہے گا‘‘۔اسی طرح صحیح
مسلم میں ہے کہ ’’اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو عذاب و ابتلاء میں مبتلا کرے گا
جنہوں نے دنیا میں انسانوں کو اذیتیں اور تکالیف دیں‘‘۔
انسانوں میں برابری
مندرجہ بالا کلام سے واضح ہوچکا ہے کہ اسلام نے انسانوں کی جان ،مال ، عزت
اور جینے کے حق کی حفاظت کا حکم بلاکسی تفریق و تقسیم کے دیا ہے اور جس میں
جمیع انسانیت کے مابین برابری کو قائم رکھا گیا ہے فرد اور جمعات کے
درمیان،قوموں اور نسلوں کے درمیان،حکمرانوں اور عوام کے مابین،حاکم اور
محکوم کے درمیان نہ ہی اس میں کوئی تخصیص کی گئی اور نہ ہی کوئی استثناء
دیا گیا کسی کو یہاں تک کہ شریعت اسلامیہ میں عربی و عجمی، کالے اور گورے
کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اور صرف تقویٰ کی بنیاد پر عظمت و فضیلت دی گئی
ہے۔قرآن پاک کی سورہ الحجرات میں بیان کیا گیا ہے کہ’’اے انسانو!ہم نے
تمہیں ایک ماں اور ایک پاب سے پیدا کیا ،اور ہم نے تمہیں قوموں اور قبائل
میں تقسیم کردیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو،درحقیقت تم سے معزز وہ ہے
جو تم میں سب سے زیادہ متقی و پرہیزگار ہے‘‘۔حضورؐ کا ارشاد گرامی ہے
کہ’’اے لوگو!تمہارا رب ایک ہے ،اور تمہارا باپ بھی ایک ہے ،تم سب آدم کی
اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیا گیا ،تم میں سے زیادہ عزت کسی عربی و
عجمی یا کالے اور گورے ہونے کی بنیاد پر نہیں دی گئی بلکہ اﷲ سے ڈرنے و
استحضار رکھنے والے کو دی گئی۔اس برابری و مساوات کو سمجھنے کے لئے بخاری
کی ایک روایت بڑی موثق دلیل بنتی ہے جس سے جہاں انسانیت میں عدم تفرق کا
درس ملتاہے وہیں پر صحابہ کرام ؓ کی باہم محبت کا عنصر بھی نمایاں نظر
آتاہے ۔ابی امامہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوذر ؓنے حضرت بلال ؓ کو طعنہ دیا کہ
کالی ماں کے بیٹے تو اس پر حضرت بلالؓ ہلکان و پریشان اور سخت کرب و الم
میں مبتلا ہوئے اور معاملہ کی شکایت نبی مکرمؐ کو کی کے مجھے ایسا کہا گیا
جس پر حضرت ابوذرؓ کی تشریف آوری پر آپ ؐ نے ان سے فرمایا کہ تم سے جاہلیت
کی رمق ختم نہیں ہوئی ۔اس کے بعد حضر ت ابوذر ؓ نے راستے میں حضرت بلال کو
دیکھا تو زمین پر خاک آلود ہوگئے اور فرمانے لگے کہ تم مجھ پر اپنا پاؤں
رکھوتاکہ بدلہ پورا ہوجائے مگر حضرت بلال نے انہیں سہارا دے کر اٹھایا اور
معاف کردیا‘‘۔
اسلام میں انصاف کی فراہمی
مساوات و برابری کے ساتھ ایک اہم امر جس کا اسلام نے اہتمام کیا وہ عدل و
انصاف کامنصفانہ قیام۔اس سلسلہ میں مشہور واقعہ ہے کہ حضرت اسامہ بن زید جن
سے نبی محترمؐ کو بے پناہ محبت و پیار تھا ایک قبیلہ مخزوم کی سردار گھرانے
کی چور لڑکی کے بارے سفارش کرنے کے لئے حاضر ہوئے تو حضور ؐ نے ناراضگی کا
اظہار کرتے ہوئے متانت و بے باکی کے ساتھ فرمایا کہ تم سے پہلی قومیں اس
لئے ہلاک ہوئیں ہیں کہ وہ اپنے بڑوں کی غلطیوں و سرکشیوں سے درگزر کرتھے
اور کمزور و غریب کو سزا دیتے تھے مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں
میں محمد ؐ کی جان ہے کہ اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں ضرور اس
کا ہاتھ کاٹتا۔ ہر انسان کو اپنے پر عائد شدہ الزام کے دفاع و رد میں بات
کرنے کا تحفظ حاصل ہے اس لئے نبی کریمؐ نے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص جج و
قاضی کی کرسی پر جلوہ براہ ہو تو اس پر لازم کے انصاف کے تقاضوں کو پوراکرے
اور وہ اس طرح کہ دونوں فریقوں کو ایک ہی حیثیت میں رکھ کر ان سے ان کا
مؤقف لینے کے بعد فیصلہ کرے۔
عزت کی زندگی جینے کا حق
اسلامی شریعت نے انسان کو عزت وعظمت کے ساتھ جینے کا مکمل حق دیا ہے اور اس
کی مثال کسی انسانی وضع کردہ قانون و میثاق یا معاہدہ میں نہیں ملتی ۔ہر
فرد کو اسلامی سلطنت آبرو مندانہ حیات بسرکرنے کی اجازت دیتی ہے جس کی
بدولت وہ باعزت روزگار حاصل کر سکے اور صحتمندانہ زندگی گذارسکے جبکہ دوسری
جانب انسانوں کی جانب سے وضع کیے گئے قوانین کے مطابق انسان کو مقید کردیا
جاتاہے کہ وہ اس قدر مال و ملک کا حصول کرسکتا ہے زائد نہیں اور یہ طریقہ
قرین انصاف نہیں۔انسان کو زندگی کی حاجات کی تکمیل کے لئے باعزت روزگار
چاہیے ہوتاہے اور اس کا تحفظ بھی یہ دونوں اسلام نے مقرر و محدد فرمادیئے
اب ایک مسئلہ یہ ہے کہ انسان خود کام کرنے سے عاجز ہے تو اس طرح کے سبھی
ضرورتمندوں کی حاجت براری کے لئے اسلام نے زکوٰۃ و صدقات جیسے مصارف کے
ذریعہ سے خلافت اسلامیہ کے بیت المال میں سے ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا
حکم دیا یہی وجہ ہے نبی اکرم ؐ نے فرمایا تھا کہ اگر کوئی آدمی مرجائے تو
اس پر قرض ہو یا نقصان کا ذمہ تو میں خود اس کی تلافی کروں گا۔نبی کریم ؐ
نے فرمایا کہ جائز نہیں ہے کسی انسان کے لئے کہ وہ خود سیر(پیٹ بھر کر)
ہوکر سوجائے اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔اسی طرح نبی کریمؐ کا قول ہے کہ
انسان کے اچھے اور برے ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ اس کا پڑوسی اسے اچھا
کہے یا برا۔مسلم شریف میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا کہ وہ شخص جنت میں داخل
نہیں ہوسکتاجس کا پڑوسی و جار اس کی شرارتوں اور اذیتوں سے محفوظ نہ ہو۔
خادم و قیدی کے حقوق
اسلام وہ دین حق ہے جس نے انسانیت کے عام حالات اور جنگی حالات دونوں میں
مقرر کردہ حقوق بیان فرمائے ہیں۔ان دونوں حالتوں میں توازن و اعتدال کو
اختیار کرنا مشکل ہوتاہے کیونکہ حالت جنگ میں انتقام و بدلہ اور غصہ و
بدسلوکی کا عنصر غالب ہوتاہے اس میں انسانی ہمدردی مفقود ہوجاتی ہے مگر دین
ابدی میں اس کا بھی پاس رکھا گیا اس لئے نبی کریمؐ نے فرمایا کہ جنگ کے
درمیان کسی بچے ،کسی عورت اور کسی بوڑھے کو قتل نہ کیا جائے ما سوائے کہ وہ
شریک جنگ ہو جائے۔انسانوں کے جو مفصل حقوق شریعت نے بیان کئے ہیں ان میں س
بعض کو ضبط تحریر کردیا گیاہے۔حدیث نبوی میں بیان کیا گیا ہے کہ انسان پر
لازم ہے کہ اس کے گھر میں موجود خادم و ملازم کو وہی کھانہ و لباس اور
احترام دیں جو اہل خانہ کو دیتے ہیں۔غلامی و باندی کے اثر کو مٹانے کے لئے
اسلام ہر لحاظ سے ان کی آزادی کی سبیل بیان کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ
اسلام غلامی کے تصور کی مذمت کرنے کے ساتھ اس کے خاتمے کی سنجیدہ کوشش کرنے
کا حکم دیتاہے۔
ہمارالمیہ
آج کے مسلم سماج کا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے عیسائیت و یہودیت کی طرح مذہبی
طبقوں نے اسلامی تعلیمات کی حقیقی روح کو بیان کرنے سے پہلوتہی اختیار
کررکھی ہے اس میں ان کی ذاتی مصالح ہوسکتی ہیں یا کاہلی و سستی اور غیر ذمہ
داری مگر ایک بات مسلم ہے کہ ہمارے علماء کے اس غیر ذمہ دارنہ کردار کی وجہ
سے عہد حاضر کے تعلیم یافتہ طبقے سے وابستہ نوجوان دین اسلام اور علماء سے
بدظن ہوتے جارہے ہیں،معاشرے میں بے چینی و اضطراب فروغ پاچکا ہے کہ ایک
مسلمان جو کہ نماز ،روزہ ،حج و دیگر عبادات کا تو سختی کے ساتھ پابندی
کرتاہے مگر وہی معاملاتی زندگی میں جھوٹ،فریب اور دھوکہ دہی و غلط بیانی کو
شعار بناتاہے جس کا ثمر ہمارے سامنے ہے کہ اسلامی ممالک پر ذلت و تنزلی
مسلط کردی گئی ہے کیوں کہ قرآن نے فرمایا ہے کہ ’’جومیرے ذکر (قرآن)سے
انحراف کرے گا تو ان پر معیشت تنگ کردی جائے گی اور اسی طرح قرآن حکیم میں
اﷲ نے فرمایا ہے کہ دین میں سے کچھ امور کو اختیار کرنا اور کچھ کو ترک
کرنا جہنم میں لاجانے کا سبب ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ مذہبی قیادت ہر سطح کی
وقتی و عارضی مصالح سے بالاتر ہوکر اسلامی کی حقیقی و واضح تعلیمات کو
امانت و دیانت کے ساتھ عوام میں منتقل کریں۔ |
|