بٹوارا

دنیا کا مشکل کام زندہ رھنا ھے۔ ایک بوڑھے باپ کیلئے ماں کیلئے یا پھر دونوں کیلئے۔ جی جب بچے بڑے ہو جاتے توروئیے بدل جاتے ہیں اور چیزوں کا بٹوارا ہونے لگتا ہے۔ ہر چیز کا بٹوارا ہوتا ہے، پیسوں کا، زمین کا، دکان کا، گھر کا، گھر کی ہر چیز کا، افسوس کہ ماں اور باپ کا بھی۔ بچے بٹوارے کی ہر چیز رکھنا چاہتے ہیں بس نہیں رکھنا چاہتے تو ماں باپ کو نھیں رکھنا چاہتے۔ معاشرہ اچھے روئیوں سے بنتا ہے اور برے روئیوں سے ٹوٹتا ہے۔ اچھا رویہ اچھی سوچ اور برا رویہ بری سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ آج بھت سے واقعات رونما ہورہے ہیں جو رویوں کی تبدیلی اور بری سوچ کی عکاسی کرتے ہیں اور ان واقعات میں ایک واقعہ یہ بھی ہے جو میں آپ سے شئیر کرنے جارہاہوں- یہ واقعہ ایک متوسطہ گھرانے کا ہے جس میں دو بھاٰئی، انکی بیویاں بچے اور بوڑھے ماں باپ ہیں۔کل اثاثہ چار بھینسیں، تین دکانیں اور چند ایکڑ زمین چونکہ دونوں بھائیوں کی شادی ہوگئی ہےاور اب دونوں کی بیویوں کا ایک چھت کے نیچے گزارا کرنامشکل ہے کیونکہ اب چھوٹی چھوٹی بات پر جھگڑا رہنے لگا ہے ۔ دونوں بھائیوں میں انکی بیویوں میں بچوں کو بھی لڑائی جھگڑوں سے استثنا نہ ھے۔ لڑائی کی وجوہات غسل خانہ میں صابن کانہ ھونا،چولہا فارغ نہ ہونا، اپنی باری پر صفائی نہ کرنا، بچوں کا ایک دوسرے کوتھپڑ مارنا یاایک دوسرے کی چیز پر بےایمان ہونے پر ہیں۔ آخر جھگڑے کب تک چلتے ایک دن تو ختم ہونے ہی تھے۔

جھگڑے ختم کرنے کا واحد حل بٹوارا تھا اور وہ دن بھی آگیا جب ہر چیز کا بٹوارا ہوا، گھرکا، دوکان کا، زمین کا اور ماں باپ کابھی۔ چھوٹا بھائی جس کانام اشرف ہے اس کے حصے میں ماں آتی ہے اور بڑا بھائی جس کا نام اسلم ہے اس کے حصے میں باپ آیا ہے، دوکانیں اشرف اور بھینسیں اسلم جبکہ زمین دو حصوں میں برابر برابر تقسیم ہوگئی۔ اسطرح دونوں بھائیوں نے اپنی زندگی از سر نو شروع کردی لیکن بٹوارے کے نتیجے میں اسلم اور اشرف کی بیویوں کو ایک ایک نوکر میسر آگیااور وہ اسلم اور اشرف کے ماں باپ تھے۔ اشرف کی بیوی اشرف کی ماں سے گھر کی صفائی ستھرائی اور گھر کے دیگر کام لینے لگی اور اسکی ماں کو اسکے بیٹے کے گھر میں ملازمہ بنادیا جبکہ باپ کامقدر بھینسوں کا طبیلا بنا جس میں اس کا کام بھینسوں کو چارہ ڈالنا، پانی پلانا اور اس جگہ کی صفائی رکھنا شامل تھا۔

کچھ عرصہ یہی سلسلہ چلتا رہا اور پھر ایک دن ماں بیمار ہوگئی پر وہ دنیا سے جلدی رخصت ہوگئی شاید اسے ڈرتھا کے اس کی بے بسی اور لا چاری پر اسکے بیٹے کو ترس نا آجائے اور وہ بھی اسکی اسی طرح دیکھ بھال کرے جس طرح اس نے اسکی کی تھی جب وہ بہت چھوٹا تھا اور بے بس بھی تھا تب وہ بول بھی نھیں سکتا تھا اور وہ اسکی ہر بات سمجھتی تھی، اسکا ہر طرح سے خیال رکھتی تھی کیا نہیں کیا تھا اس نے اسکے لیے وہ نہیں سوتی تھی جب تک وہ سو نہیں جاتا تھا، اس نے اسکو پروان چڑھایاتھا اسکو بولنا سکھا یا تھا اور جب وہ بولنے لگا تھا تو کئ سوال پوچھے تھے اس نے اور اسکے ہر سوال کا جواب تھا تب شائد پر اب جب بڑا ہوگیا ہے اور سیکھ بھی گیا ہے سب کچھ پر آج اسکی بے حسی اور خاموشی کا اسکے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اشرف کی ماں مر گئی اور اشرف کی بیوی نے شکر ادا کیا۔

جب چیزیں بیکار ہوجاتی ہیں تو انھیں کباڑ میں پھینک دیا جاتا ہے پر کوئی معاشرہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ جب ماں باپ بوڑھے ہوجائے تو آپ انکو باہر پھینک دو اسلم اور اشرف کی ماں کی وفات کے تین سال بعد اسلم کا باپ بھینسوں کو نہلاتا ہوا گر جاتا ہے جس سے کوہلے کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے۔ اسلم کی بیوی کے لیے یہ نوکر نہ صرف بیکار ہوگیا ہے بلکہ یہ اب درد سر بھی بن گیا ہے۔ کون کرے اب انکی دیکھ بھال اس معذوری کی حالت میں ۔ اشرف تو اپنی ذمہ داری نبھا چکاہے ماں کو رکھ کر باپ تو اسلم کی ذمہ داری ہے۔ پر بیگم تیار نہ ہے اسے رکھنے کے لیے روز روز کا جھگڑا اور بیگم کا تقاضا کافی پریشان کرنے لگا ہے اسلم کو۔ آخر کار اسلم نے ایک دن اپنے والد کو اپنی کمر پر اٹھا یا اور اسے ایک سنسان جگہ پر چھوڑنے چلا گیا اور جب وہ اس سنسان جگہ پر پہنچ گیا جہاں پرجھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھیں تو اسلم اپنے باپ کو وہاں چھوڑ کر جانے لگا تو باپ نے کھا بیٹا مجھے پتا ھے تم مجھے چھوڑنے آئے ہو۔ مجھے چھوڑ دو پر اس جگہ نھیں کسی اور جگہ کیونکہ اس جگہ تو میں اپنے باپ کو چھوڑ کر گیا تھا۔
imran shermila
About the Author: imran shermila Read More Articles by imran shermila : 9 Articles with 8258 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.