فتنہ و فساد کا دور

 عصر حاضر کی مناسبت سے (ترمذی شریف ص۴۳ج ۲)کی حدیث مبارکہ ہے۔ــ’’حضرت ابو موسی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ وسلم نے فرمایا؛تمہارے بعد ایسا دور ہوگا جس میں علم اٹھا لیا جائے گا اور فتنہ و فساد عام ہوگا‘صحابہ نے عرض کیا یا رسول اﷲ؛ فتنہ و فساد سے کیا مراد ہے؟فرمایا قتل ۔‘ ‘گزشتہ کئی سال سے پورے ملک ،خصوصا کراچی میں جس طرح قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے وہ ہر حکومت اور عوام کے لئے لمحہ فکریہ رہا ہے ۔سدّباب کی بھی کوششیں کی گئیں اور جاری ہیں لیکن مسئلہ ہنوز برقرار ہے۔گزشتہ دنوں ملک کے نامور قوّال امجد صابری کے اندودہناک قتل نے پورے ملک کی فضا کو سوگوار کردیا۔پوری قوم شدّت کرب سے چلا اٹھی لیکن قاتل ابھی بھی دندناتے پھر رہے ہیں۔امجد صابری کے قتل کے پس پردہ جو بھی محرکات ہوں لیکن عام شہری سے لے کر نامور شخصیات ،اہل علم و دانش کا قتل معاشرے پر بڑے گہرے اور برے اثرات چھوڑتا ہے۔ یوں تو رینجرز 1990سے کراچی میں امن و امان کی ذمے داریاں سنبھالے ہوئے ہے لیکن اسی دوران کئی نامور شخصیات کو دن دہاڑے موت کی نیند سلادیا گیا اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ قاتل اب تک آزاد گھوم رہے ہیں۔حکیم سعید،مولانا محمد یوسف لدھیانوی،مفتی نظام الدین شامزئی،مفتی جمیل احمدخان،مولانا نذیر احمد تونسوی اور پھرمولانا سعید احمد جلالپوری وہ شہدائے کرام ہیں جن کو شہید کرنے کے بعد بھی ظالم قاتلوں کی خون کی پیاس ابھی تک نہیں بجھی ہے ،علمائے دین کا اس طرح جدا ہوجانا امت مسلمہ کے لئے بڑا نقصان ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر،وکیل ،صحافی حضرات بھی قاتلوں کے خاص نشانے پر ہیں،علم دوست حضرات کے لئے اہل علم و دانش کا یوں قتل عام مایوسی کا پیش خیمہ ہوتا ہے ،علمائے دین اور اہل علم و دانش کا اس طرح جدا ہوجانا،علم کے اٹھ جانے سے ہی تعبیر کیا جائے گا۔قاتل لسانی اور مذہبی تعصّب کی آڑ میں قتل وغارت گری پر تُلے ہوئے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اسمٰعیلی برادری بھی ان کے ظلم سے محفوظ نہ رہ سکی۔نیشنل ایکشن پلان کے بعد کراچی میں رینجرز کو خصوصی اختیارات دیئے گئے تو شہریوں کو امید ہو چلی کہ اب شائد امن قائم ہوجائے۔رینجرز نے بڑے پیمانے پر سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو پکڑا۔ٹارگٹ کلرز کی بھی گرفتاریوں کا دعوی کیا گیا مبیّنہ پولیس مقابلوں میں بھی ملزمان کی ہلاکتیں ہوئیں لیکن امن کراچی کے شہریوں کے لئے تا حال ایک خواب ہے۔گزشتہ رمضان میں بھی امجد صابری کے علاوہ مختلف کمیونٹی کے ڈاکٹر حضرات کو قتل کیا گیا۔اسکے علاوہ چیف جسٹس سندھ کے صاحبزادے کے اغواء کا واقعہ بھی دن دہاڑے وقوع پذیر ہوا۔ڈکیتی،اسٹریٹ کرائم ،موبائل اور بائیک اسنیچنگ کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔پولیس کی تو عوام اور جرائم پیشہ افراد کی نظر میں کوئی وقعت،خود اُن کے کرتوتوں کی وجہ سے رہی نہیں ہے گزشتہ دنوں بھی سپر مارکیٹ لیاقت آباد کا پولیس اہلکار نادر علی اسلحے اور نقد رقم کے ساتھ پکڑا گیا جو ڈکیتیوں اور اسٹریٹ کرائمز میں ملوّث تھا۔ان حالات میں عوام کی امید کی نظریں رینجرز پر ہی جاکر ٹھیرتیں ہیں لیکن حالیہ واقعات کے بعد شہری بھی رینجرز کی کارکردگی پر بھی آواز اٹھانے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ خصوصی اختیارات کی موجودگی میں جرائم پیشہ عناصر کا بلا خوف و خطر اپنی مجرمانہ سرگرمیاں جاری رکھنا رینجرز کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے وہیں یہ بھی ظاہر کرتا ہے کے جرائم پیشہ افراد ابھی بھی مکمل طور پرمنظم ہیں ۔ریاست کے پاس تمام وسائل اور افرادی قوت دستیاب ہوتی ہے اگر نیک نیتی کے ساتھ جرائم کے خاتمے کا مصمم ارادہ کرلیا جائے تو جرائم پیشہ افراد کی بیخ کنی کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اسی طرح جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو تحفظ فراہم کریں اور شہر میں امن و امان قائم کریں،وہیں عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے گرد و پیش پر نظر رکھیں اور کہیں بھی کوئی مشکوک سرگرمی نظر آئے اس کی اطلاع فورا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دے کر،ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں۔ تاکہ جرائم پر قابو پانے میں پولیس اور رینجرز کو سہولت ہواور عام شہری سے لے کر علمائے د ین،اہل علم و دانش کے قتل و عام کی روک تھام ہوسکے جیسا کہ حدیث مبارک کے مطابق علم کا اٹھ جانا اور قتل فتنہ و فساد کی علامت ہے۔
Syed Muhammad Ishtiaq
About the Author: Syed Muhammad Ishtiaq Read More Articles by Syed Muhammad Ishtiaq: 45 Articles with 35704 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.