الحاد، بے د ینی یا اسلام؟
(Muhammad Rafique Etesame, Ahmedpureast)
الحاد، بے دینی یا دہریت ایک ہی قسم کی
چیزیں ہیں یہ لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ کے وجود اور بندوں کیلئے اس کے نازل
کردہ دین(اسلام) کا انکار کرتے ہیں اور نفس امّارہ اور شیطان کے پیرو کار
بن کر ایسے حقائق کو جھٹلاتے ہیں جو روشن کی طرح واضح ہیں، اگر کوئی شخص
آنکھیں بند کر کے سورج کا انکار کردے اور کہے کہ سورج کا وجود نہیں تو کون
اسکی بات اعتبار کرے گا اور اسکی عقل کا ماتم ہی کیا جائے گا۔
بالکل اسی طرح جو شخص خدا تعالیٰ، اسکے رسولوں، الہامی کتابوں، مرنے کے بعد
دوبارہ زندہ ہونے اور روز حشر کاانکار کرتا ہے وہ ایسی حقیقتوں کو
جھٹلاتاہے جو اظہر من الشّمس ہیں اور ادنیٰ غور و فکر سے سمجھ میںآسکتی
ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ہم نے ا نسان پر اسکی نیکی و بدی کو الہام کردیا ہے
‘‘ اور فرمایا کہ’’ ہم نے انسان کو دو ابھرے ہوئے ٹیلوں کی راہ
دکھائی‘‘(الشمس: پارہ۳۰) مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں دو ابھرے ہوئے ٹیلوں سے
مراد نیکی و بدی کے دو راستے ہیں۔
ان آیات کی روشنی میں ہر انسان قدرتی طور پر یہ علم رکھتا ہے کہ کونسی بات
حق اور سچ ہے اور کونسی غلط، انسان چاہے کسی بھی مذہب یا مکتبہ فکر سے
تعلّق رکھتا ہے، یہ خوب جانتا ہے کہ نیکی کیا ہے اور بدی کیا ہے؟ اسکی دلیل
یہ ہے کہ اگر کسی شخص سے یہ پوچھا جائے کہ چوری کرنا، قتل و غارت گری اور
زناکاری کیسے فعل ہیں؟ تو وہ فوراً بلا تامل یہ جواب دے گا کہ یہ سب برے
کام ہیں ، اسی طرح اگر اس سے یہ سوال کیا جائے کہ عبادت کرنا، کسی کی مدد
کرنا اور کسی کے دکھ درد میں شریک ہونا کیسا ہے؟ تو وہ فوراً کہے گا کہ یہ
سب اچھے کام ہیں اور کرنے چاہئیں۔
یہ سب باتیں انسان کو کیسے معلوم ہوئیں، اس فہم و فراست کی وجہ سے جو قدرت
نے اسکے دل میں الہام کر دی ہے۔ علماء کے نزدیک یہ فہم و فراست چار چیزوں
پر مشتمل ہے یعنی حق،باطل،کسوٹی اور اختیار!
یعنی حق کیا ہے، باطل کیا ہے، ان دونوں کو پرکھنے کی کسوٹی اور پھر دونوں
میں سے کسی ایک پر چلنے کا اختیار۔
لہٰذا جب ہر شخص حق و باطل کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی الہام کردہ روشنی میں
واضح طور سے پہچانتاہے تو پھر اسے ماننا پڑے گا کہ انکے جو ذیلی حقائق ہیں
وہ بھی حق اور سچ ہیں یعنی قبر میں منکر نکیر کا آنا، سوال و جواب،جزا و
سزا،روز حشر کا قیام، نامہ اعمال کا دیا جانا اور جنّت یا دوزخ میں داخلہ
وغیرہم!
دین اسلام کے عقائد و اعمال کوئی چیستاں نہیں کہ عقل و شعور کے دائرہ میں
نہ سما سکیں بلکہ انہیں سمجھنے کیلئے خلوص نیّت سے غور وفکر کرنا ضروری ہے۔
لہٰذا عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ اس آنے والے وقت (قیامت )کی تیاری کر لی
جائے جس کے ہولناک منظر سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور انسان سے
کہا جائے گا کہ یہی وہ دن ہے جسے تو جھٹلایا کرتا تھا۔
اس دن صرف اور صرف دین اسلام کاہی سکّہ چلے گا اور اسکے پیروکار ہی چین و
سکون میں ہونگے اور ملحد و بے دین لوگ سخت خسارے میں ہونگے۔ |
|