الحمد ﷲ کہ ہم اسلام کے ماننے والے ہیں۔
مذہب اسلام نے اپنے پیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں زندگی گزارنے کا
شعور بخشا اور بے شمار نعمتوں سے مالا مال فرمایا۔ زندگی گزارنے کی جو
بنیادی ضروریات بتائی جاتی ہیں ان میں روٹی، کپڑا اور مکان اول درجہ کی
حیثیت رکھتے ہیں۔ اسلام نے جو احکام ہم پر عائد کئے ہیں ان میں سے پانچ اہم
شعبے ہیں۔ (۱) عقائد(۲) عبادات(۳) معاملات(۴) معاشرت (۵) اخلاق۔دین ان پانچ
شعبوں سے مکمل ہوتا ہے۔ اگر ان میں سے ایک کو بھی چھوڑ دیا جائے گا تو پھر
دین مکمل نہیں ہوگا۔ عقائد بھی درست ہوں، عبادات بھی صحیح طریقے سے انجام
دینا چاہئے۔ لوگوں کے ساتھ لین دین ، معاملات بھی اسلامی طریقہ یعنی شریعت
(جو اسلامی قانون ہے) کے مطابق ہونا چاہئے۔ اخلاق بھی صحیح ہونا چاہئے اور
زندگی گزارنے کا طریقہ بھی درست ہونا چاہئے،جس کو معاشرت کہا جاتاہے۔ مشہور
امام نووی علیہ الرحمتہ نے ایک باب ہی قائم فرمایا ہے۔ اس میں دین کے جس
شعبے کے بارے میں احادیث مبارکہ سے ذکر فرمایا ہے وہ ہے معاشرت۔ معاشرت کا
مطلب ہے دوسروں کے ساتھ زندگی گزارنا۔ زندگی گزارنے کے صحیح طریقے کیا ہیں؟
یعنی کھانا کس طرح کھایا جائے ، پانی کس طرح پیا جائے؟گھر میں کس طرح رہا
جائے۔ سماج میں کس طرح رہے۔ یہ سب باتیں معاشرت سے تعلق رکھتی ہیں۔ آج کل
لوگوں نے معاشرت کو دین سے نکال دیا ہے۔ اسی وجہ کر اچھے لوگوں کی معاشرت
بھی خراب ہے۔ دین کے مطابق نہیں ہے۔ اس لئے معاشرت کے بارے میں جو احکام
اور تعلیمات اﷲ اور اس کے رسول ﷺ نے عطا فرمائی ہیں ان کو جاننا اور ان پر
عمل کرنا بھی ضروری ہے۔
معاشرت کے بارے میں علامہ امام نووی رحمتہ اﷲ علیہ نے پہلا باب :کھانے پینے
کے آداب سے شروع فرمایا ہے۔ آپ ﷺ نے جس طرح زندگی کے ہر شعبے میں تعلیمات
ارشاد فرمائی ہیں اس طرح کھانے پینے کے بارے میں بھی اہم تعلیمات ہمیں عطا
فرمائی ہیں۔ پہلا ادب: بسم اﷲ پڑھنا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی
ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی کھانا شروع کرے تو اﷲ
کا نام لے۔اور اگر کوئی شخص شروع میں بسم اﷲ پڑھنا بھول گیا تو اس کو چاہئے
کہ کھانا کھانے کے دوران جب بھی بسم اﷲ پڑھنا یاد آجائے، اس وقت یہ الفاظ
کہے: بسم اﷲ اولہ و آخرہ(اﷲ کے نام کے ساتھ شروع کرتاہوں، اول میں بھی اﷲ
کا نام اور آخر میں بھی اﷲ کا نام)ایک اور حدیث میں حضرت عمر بن ابی سلمہ
رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ کھانے کے وقت اﷲ کا
نام لو، یعنی بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر کھانا شروع کرو اور اپنے دائیں
ہاتھ سے کھاؤ اور برتن کے اس حصے سے کھاؤ جو تم سے قریب تر ہے۔آگے ہاتھ
بڑھا کر دوسری جگہ سے مت کھاؤ ۔اس حدیث پاک میں تین آداب بیان فرمائے
ہیں۔(۱) بسم اﷲ پڑھ کر کھاؤ(۲) اپنے سامنے سے کھاؤ(۳) سیدھے ہاتھ سے
کھاؤ(ابو داؤد ، کتاب الاطعمہ ، باب التسمیہ علی الطعام، حدیث نمبر ۳۷۶۷)
کھانے سے پہلے بسم اﷲ زور سے پڑھیں تاکہ دوسروں کو بھی یاد آجائے ۔کھانے کے
بعد کم از کم الحمد ﷲ ضرور کہیں یا پھر یہ دعا پڑھیں : اَلْحَمْدُلِلّٰہِ
الَّذِی اَطْعَمْنَا وَسَقَانَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْن۔
مل کر کھانے کی فضیلت اور برکت:
حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا
اکٹھے ہو کر کھاؤ۔ الگ الگ نہ کھاؤ کہ برکت جماعت کے ساتھ ہے۔ دوسری حدیث
پاک میں آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اﷲ کو یہ بات سب سے زیادہ پسند ہے کہ وہ اپنے
کسی مومن بندہ کو بیوی اور بچوں کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھے اور جب سب
کھاتے ہیں تو اﷲ ان کو رحمت کی نظر سے دیکھتا ہے اور قبل الگ ہونے سے ان کو
بخش دیتا ہے۔(ابن ماجہ، نزھتہ المجالس)
شیطان کے رہنے اور کھانے کا انتظام نہ کرو:
کھانے سے پہلے بسم اﷲ نہ پڑھنے سے کھانے میں بے برکتی ہوتی ہے۔ حضرت ابو
ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:ہم حضور کی بارگاہ میں حاضر تھے ،کھانا
پیش کیا گیا ۔شروع میں اتنی برکت ہم نے کسی کھانے میں نہیں دیکھی مگر اخیر
میں بے برکتی دیکھی۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اﷲ ایسا کیوں ہوا؟ آپ ﷺ نے
ارشاد فرمایا : ہم سب نے کھانا کھاتے وقت بسم اﷲ پڑھی تھی،پھر ایک شخص بغیر
بسم اﷲ پڑھے کھانے کو بیٹھ گیا اس کے ساتھ شیطان نے کھانا کھا لیا۔ دوسری
حدیث پاک میں حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے۔فرماتے ہیں:حضور ﷺ نے فرمایا
کہ جب کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اﷲ کا نام لیتا ہے اور کھانے کے
وقت بھی اﷲ کا نام لیتاہے تو شیطان اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ اس گھر میں
نہ تو تمھارے لئے رات کو رہنے کی گنجائش ہے اور نہ ہی کھانے کے لئے گنجائش
ہے۔ اس لئے کہ اس گھر میں داخل ہوتے وقت بھی اﷲ کا نام لے لیا اور کھانا
کھاتے وقت بھی اﷲ کا نام لے لیا۔ اس لئے نہ تو یہاں قیام کا انتظام ہے اور
نہ طعام کا۔ اور اگر کسی شخص نے گھر میں داخل ہوتے وقت اﷲ کانام نہیں لیا
اور ایسے ہی گھر میں داخل ہوگیا تو شیطان اپنے ساتھیوں سے کہتاہے کہ لو
بھائی تمہارے لئے قیام کا انتظام ہو گیا ، تم یہاں رات گزارسکتے ہوکیونکہ
یہاں پر اﷲ کانام نہیں لیا گیا اور جب وہ شخص کھاناکھاتے وقت بھی اﷲ کا نام
نہیں لیتا تواس وقت شیطان اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے تمہارے طعام کا بھی
انتظام ہوگیا۔(ابو داؤد کتاب الاطعمۃ،باب التسمیۃ علی الطعام ، حدیث
نمبر۳۷۶۵)
کھانے میں بے برکتی:
حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ کھانے کے وقت ہم حضور ﷺ کے
ساتھ حاضر تھے اتنے میں ایک نوعمر بچی بھاگتی ہوئی آئی اور ایسا معلوم
ہورہاتھا کہ وہ بھوک سے بیتا ب ہے۔ اور ابھی تک کسی نے کھانا شروع نہیں کیا
تھا۔ اس لئے کہ حضور ﷺ نے اب تک کھانا شروع نہیں فرمایا تھا۔ مگر اس بچی نے
آکر جلدی سے کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو حضور ﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور
اس کو کھانے سے روک دیا۔ پھر تھوڑی دیر بعد ایک دیہاتی آیا اور ایسا معلوم
ہورہا تھا کہ وہ بھی بھوک سے بہت بیتاب ہے اور کھانے کی طرف لپک رہا ہے ۔
اس نے بھی آکر کھانے کی طرف ہاتھ بڑھانے کا ارادہ کیا تو حضور ﷺ نے اس کا
بھی ہاتھ پکڑ لیا اور اس کو بھی کھانے سے روک دیا۔ اس کے بعد پھر اپنے تمام
صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :(ترجمہ)شیطان اس کھانے کو اس لئے
اپنے لئے حلال کرنا چاہتا تھا کہ اس کے کھانے پر اﷲ کا نام نہ لیا جائے ۔
چنانچہ اس نے اس لڑکی کے ذریعہ کھانا حلال کرنا چاہا۔ مگر میں نے اس کا
ہاتھ پکڑ لیا ۔ اﷲ کی قسم شیطان کا ہاتھ اس لڑکی کے ساتھ میرے ہاتھ میں
ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الاشربستہ،باب آداب اطعام و اشراب و احکامہا۔ حدیث
نمبر ۲۰۱۷)کھانے کے پہلے وضو کرنے سے برکت حاصل ہوتی ہے اور محتاجی دور
کرتا ہے۔حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور ﷺ
نے فرمایا:کھانے سے پہلے اور بعد میں وضو کرنا محتاجی کو دور کرتا ہے اور
یہ مرسلین علیہم السلام کی سنتوں میں ہے۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے
کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا جو یہ پسند کرے کہ اﷲ تعالیٰ اس کے گھر میں خیر
وبرکت زیادہ کرے تو جب کھانا حاضر کیا جائے ، وضو کرے اور جب اٹھایاجائے اس
وقت بھی وضو کرے یعنی منھ دھوئے۔
پانی پینے کے آداب:
حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد
فرمایا : پینے کی چیز کو خواہ پانی ہو یا مشروب اس کو تین سانس میں پیا کرو
۔آپ پھر سانس لینے کی وضاحت آگے فرماتے ہیں کہ پینے کے دوران برتن منھ سے
ہٹاکر سانس لیا کرو ۔آپ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ دوسری حدیث میں حضرت عبد اﷲ
بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور نے ارشاد
فرمایا:پینے کی کسی بھی چیز کو اونٹ کی طرح ایک ہی مرتبہ نہ پیا کرو یعنی
ایک ہی سانس میں ایک ہی مرتبہ نہ پیا کرو۔ یعنی ایک ہی سانس میں غٹ غٹ کرکے
پورا گلاس حلق میں انڈیل دے یہ صحیح نہیں ہے۔ اور اس عمل کو آپ نے اونٹ کے
پینے سے تشبیہ دی۔ اس لئے کہ اونٹ کی عاد ت یہ ہے کہ وہ ایک ہی مرتبہ میں
سارا پانی پی جاتا ہے۔ تم اس کی طرح مت پیو۔ بلکہ جب پانی پیو تو دو سانس
میں پیو یا تین سانس میں پیو۔ او رجب پانی پینا شروع کرو تو اﷲ کا نام لے
کر بسم اﷲ پڑھ کر شروع کرو ۔ یہ نہیں کہ محض غٹ غٹ کرکے پانی حلق میں اتار
لو۔(مسلم کتاب الا شربتہ، باب کراہتہ النفس فی نفیس الا ناء)
کھانے پینے کے آداب و احکام میں حلال کی اہمیت:
اسلام میں رزق حلال کی زبر دست تاکید آئی ہے ۔ بندے کو حلال و حرام میں
تمیز کی سخت ضرورت ہے۔ حلال و حرام کے احکام قرآن و احادیٹ میں وضاحت کے
ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔ قرآن و احادیث سے یہ حکم واضح ہے کہ حرام کھانے
پینے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یَا اَ یُّھَا
الرُّسُلُ کُلُوْ مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَعْمَلُوْ صَالِحًا اِنِّیْ بِمَا
تَعْمَلُوْنَ عَلَیْمُٗ(ترجمہ: اے پیغمبرو!پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام
کرو ۔میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں(القرآن سورہ مومنون ۲۳،آیت۵۱: کنز
الایمان)
اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو طیبات کا حکم دیا ہے اور عمل صالح
اور عبادت کو اس پر موقوف فرمایا ہے ۔ کیونکہ حلال کے استعمال سے عبادات
میں ذوق پیدا ہوتا ہے اور بارگاہ خداوندی میں شرف قبولیت عطا ہوتا ہے ۔
انبیاء کرام تو معصوم ہوتے ہیں پھر بھی ان کو حلال و طیب کی تاکید کا مطلب
غالباً یہ ہے کہ عام مومنین سبق لیں۔ جب انبیا کو رب العالمین نے طیبات کا
حکم فرمایا ہے تو دیگر بندوں کے لئے اس کی قدر و اہمیت کتنی ہوگی۔ اس سے وہ
جھوٹے صوفی بھی سبق لیں جو شیطان کے بہکاوے سے اپنے کو احکام شریعہ سے آزاد
سمجھتے ہیں اور جو جی میں آتا ہے کرتے ہیں اور جو چاہتے ہیں کھاتے ہیں۔ اگر
حکم شرع سنایا جائے تو جھٹ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم اہلِ طریقت ہیں،یہ سب
احکام شریعت کے لئے ہیں۔ یہ شیطان کافریب اور کھلی گمراہی ، کفر سے قریب
ترہے۔ العیا ذ باﷲ تعالیٰ۔ ا س آیت کریمہ نے بتایا کہ جب انبیاء و رسل کو
حلال و طیب کے حصول اور عمل صالح کا حکم ہے تو پھر کوئی کسی بھی درجے کا
ولی ہو وہ کیسے ان شرعی احکام سے خود کو الگ قرار دے سکتا ہے۔ حضرت ابو بکر
صدیق رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ لا ید خلی الجنۃ جسد غذی
بالحرام (ترجمہ: جس بدن کو حرام غذا دی گئی وہ جنت میں داخل نہ ہوگا)
بخاری کی حدیث میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ
نے فرمایا کہ لوگو ں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب کوئی اس بات کی پرواہ
نہ کرے گا کہ اس نے جو مال حاصل کیا ہے ،کھایا ہے وہ حلال ہے یا حرام۔(
انوار الحدیٹ ، کشف القلوب ،جلد۲، صفحہ ۵۵۰۔مشکوٰۃ شریف)حضرت سہل بن عبد اﷲ
تستری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ بندہ اسی وقت حقیقی ایمان تک رسائی حاصل
کر سکتاہے جبکہ وہ پر ہیز گاری کے ساتھ حلال کھائے۔ حضرت ابراہیم بن ادہم
رحمۃ اﷲ علیہ اور حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اﷲ علیہ سے مروی ہے کہ حج کے ساتھ
فضل حاصل نہیں ہوگا اور نہ ہی جہاد روزہ اور نماز سے فضل، نجات حاصل ہوگی
بلکہ ہمارے نزدیک فضل و شرف اس سے ملے گا جس نے چالیس روز حلال کھایا ۔ اﷲ
تعالیٰ اس کا دل منور فرمادیتا ہے اور اس کے دل سے حکمت کے چشمے جاری فرما
دیتا ہے۔ دوسری حدیث پاک میں ہے حضرت جابر رضی اﷲ عنہ حضور نبی کریم ﷺ کا
ارشاد نقل فرماتے ہیں۔ ترجمہ: فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے کہ وہ
گوشت جو حرام سے بڑھا ہو جنت میں داخل نہیں ہوگا ۔ توہر وہ گوشت جو حرام سے
بڑھا ہو جہنم کی آگ ہی اسے زیادہ لائق ہے۔ (رواۃ احمد مشکوٰۃ:صفحہ ۲۴۲)
کھانا کو برباد کرنا،جان بوجھ کر ضائع کرنا گناہ عظیم ہے:
آجکل شادیوں میں اور دوسری تقریبات میں بہت زیادہ فضول خرچی اور دکھاوا
ہوگیا ہے ۔ کئی طرح کے کھانے بنوائے جاتے ہیں۔ درجنوں آئٹم رہتے ہیں۔ پانچ
چھ آئٹم تو عام بات ہے۔ اور کھڑے ہوکر بوفے سسٹم سے کھانے کا رواج عام
ہوگیا ہے۔ لوگ تھوڑا تھوڑا لے کر کھاتے ہیں اور بچا ہوا کھانا پھینک دیتے
ہیں۔ انتہائی افسوس اورشرم کی بات ہے کہ کھانے کی بربادی اس قدر ہوتی ہے کہ
الامان والحفیظ۔ جبکہ فضول خرچی اور کھانے کی بربادی اور حد سے بڑھنے والوں
کے لئے قرآن و احادیث میں سخت مذمت آئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کُلُوْ
مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَلَاْ تَطْغَوْ فِیْہِ فَیَحِلُّ
عَلَیْکُمْ غَضَبِیْ وَمَن یَّحْلِلْ عَلَیْہِ غَضَبِیْ فَقَدْ ہَوٰی۔
ترجمہ: کھاؤ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں روزی دیں اور اس میں زیادتی نہ کرو
کہ تم پر میرا غضب اترے اور جس پر میرا غضب اترا بے شک وہ گرا (یعنی ہلاک
ہوا اور جہنم میں گیا)۔(القرآن، سورہ طٰہٰ، آیت ۸۱کنزالایمان)اس آیت میں اﷲ
تعالیٰ نے طیبات کے حکم کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ حلال و پاکیزہ رزق کے
بارے میں حد سے تجاوز نہ کرو، یعنی فضول خرچی نہ کرو، ضرورت سے زیادہ نہ
کھاؤ نہ پکاؤ۔ اﷲ کی دی ہوئی دولت اور روزی پر اتراؤنہیں بلکہ رزاق کا
شکریہ ادا کرو۔ دوسروں پر مال کی وجہ سے برتری نہ جتاؤ۔ ضرورت مندوں،
غریبوں کو بھوکا چھوڑ کر اپنا ہی پیٹ بھرنا، امیروں کو بلانا ،کئی طرح کے
پکوان بنانا ،رزق کوجان بوجھ کر ضائع کرنا غضب الہٰی کو دعوت دینے کے
مترادف ہوگا،اﷲ کا غضب اترے گا اور جس پر اﷲ کا غضب اترا وہ ہلاکت کے گڑھے
میں جا گرا۔ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ دولت ہم نے کمائی ہے جیسے چاہیں خرچ
کریں ،جائز و نا جائز کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ یہ سوچ سراسر غلط ہے۔ اﷲ
اپنے غضب سے بچائے۔ اﷲ نے نعمت دی ہے تو کھاؤ پیو منع نہیں ہے لیکن فضول
خرچی اور رزق کو پھینکو مت، برباد نہ کرو۔ دوسری جگہ قرآن میں ارشاد باری
ہے۔ ترجمہ: اے آدم کی اولاد ! اپنی زینت لو جب مسجد میں جاؤ اور کھاؤ اور
پیو اور حد سے نہ بڑھو ۔ بے شک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں۔( القرآن ،
سورہ الاعراف،آیت ۳۰) کفارِ عرب حج کے زمانے میں گوشت چھوڑ دیتے اور غذا
بھی معمولی اوربہت کم کھاتے تھے۔ مسلمانوں نے بھی اس کی اجازت چاہی۔ ان کے
جواب میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ معلوم ہوا کہ ترکِ دنیا عبادت نہیں۔
ترکِ گناہ عبادت ہے۔ لاتسرفو میں بہت چیزیں داخل ہیں۔ بھوک سے زیادہ
کھاناکھانا ، کھانا برباد کرنا، بلا وجہ مال برباد کرنا، تقویٰ یہ نہیں کہ
انسان لذیذ اور حلال چیزیں چھوڑ دے بلکہ حرام سے بچنا تقویٰ ہے۔ حلا ل
نعمتیں خوب کھاؤ پیو ، محرمات سے بچو۔(روح البیان، نور العرفان صفحہ ۲۴۴)
کھانا برباد کرنا، ذخیرہ اندوزی کرنا کہ ہم ہی کھائیں، دوسرے کونہ ملے عذاب
الٰہی کا باعث ہے۔ قومِ موسیٰ علیہ السلام میدانِ تیہ( حیرانی کا میدان)
میں چھ لاکھ لوگوں کے ساتھ مقیم تھی۔ وہاں پر کھانے پینے کو کچھ بھی نہیں
تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی ۔ اﷲ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔
قرآن کریم میں اس کا تذکرہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ ترجمہ: او ر ہم نے ابر
کو تمہارے لئے سائبان کیا اور تم پر من و سلویٰ اترا ۔ کھاؤ ہماری دی ہوئی
(پاک) ستھری چیزیں اور انہوں نے ہمارا کچھ نہ بگاڑا ،ہاں اپنی ہی جانوں کا
بگاڑ کرتے تھے ۔(القرآن سورہ بقرہ، آیت ۵۷، کنزالایمان)تو اﷲ تعالیٰ نے ان
لوگوں پر سفید ابر سایہ کے لئے اور کھانے کے لئے من و سلویٰ ،دو کھانے
اتارے ۔ من بالکل سفید شہد کی طرح ایک حلوہ تھا یا سفید رنگ کی شہد ہی تھی
جو روزانہ آسمان سے بارش کی طرح برستی تھی اور سلویٰ پکی ہوئی بٹیریں اور
نمکین گوشت جو ہوا کے ساتھ آسمان سے نازل ہوا کرتی تھیں ۔ رات کے لئے نوری
ستون(پلر) روشنی کے لئے اتارا ۔ یہاں کے زمانہِ قیام میں ان کے کپڑے نہ
میلے ہوئے نہ پھٹے ،نہ بال و ناخن بڑھے۔یہاں چالیس سال تک رہے۔ اس جگہ کو
تیہ کہتے ہیں۔ یعنی حیرانی کا میدان ۔ انہیں من و سلویٰ جمع کرنے کی ممانعت
تھی۔ انہوں نے ذخیرہ جمع کرنا شروع کردیا تو نبی کی نافرمانی سے ایسی نحوست
پھیل گئی کہ جو کچھ ان لوگوں نے کھانے کے لئے جمع کیا تھا اوہ سب سڑ گیا
اور آئندہ کے لئے من و سلویٰ اور بقیہ نعمتیں اترنا بند ہوگئیں۔ اس لئے
حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ بنی اسرائیل نہ ہوتے تو نہ کھانا کبھی خراب
ہوتا اور نہ گوشت سڑتا ۔ کھانے کا خراب ہونا اور گوشت کا سڑنا اس تاریخ سے
شروع ہوا ۔ورنہ اس سے پہلے نہ کھانا خراب ہوتا تھا نہ گوشت خراب ہوتا تھا۔
(تفسیر روح البیان ، جلد ایک)
دعوتِ مہمان شیوہِ ایمان ہے:
آمدِمہمان ہے نعمتِ مولیٰ ٭ اس کی راحت پہ جان و دل قربان
اﷲ میرے رزق کی برکت نہ چلی جائے ٭ کئی دن سے میرے گھر میں کوئی مہمان نہیں
ہے
حدیث شریف میں آیا ہے کہ من کان یومن بااﷲ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ (اﷲ
اوریوم آخرت پر ایمان رکھنے والے کی ذمہ داری ہے کہ اپنے مہمان کا اکرام
(عزت) کرے (رواۃ ابو داؤد، جلد ۳، صفحہ۸۶) اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے
والے کی ذمہ داری ہے کہ اپنے مہمان کے ساتھ اچھا سلوک کرے ، جو اس کی عزت
افزائی کا سبب ہو ۔ حضرت طلحہ بن عبد اﷲ بن خلف خزاعی ، جن کا لقب طلحتہ
الطلحات تھا ، ایک مرتبہ تن تنہا قبیلہ بنو قیس میں پہنچے ، سردار قبیلہ
مالک بن عوف نے ان کو نہیں پہچانا اور ان کی بزرگی و شرافت کا علم حضرت
مالک بن عوف کونہ ہو سکا جس کی وجہ سے مہمان نوازی اور عزت میں کمی ہوئی۔
حضرت طلحہ اس جامِ زہر کو پی گئے اور اپنی فطرت اور شرافت اور حسب و نسب کے
وقار کی وجہ کر صبر کر لیا۔ جب وہاں سے واپس گئے تو مالک بن عوف کو معلوم
ہوا کہ مہمان کتنے پائے کا تھا۔ بے حد شرمندہ ہوئے اور برائے معذرت خط لکھ
کر ان کے پاس بھیجا۔ اس کا مضمون یہ تھا: ہم نے آپ کو نہ پہنچانا اور جیسی
خدمت و عزت آپ کی ہماری ذمہ داری تھی اس کو نہ کر سکا۔ اس وقت سے اس کی وجہ
سے دل پریشان ہے اور شرمندگی سے جھکا ہوا ہے، سر اٹھاؤں کیسے؟ اس لئے کہ ہم
آپ کے شایانِ شان خدمت نہ کر سکے ۔ مجھے امید ہے کہ جو کوتاہی ، کمی مجھ سے
ہوئی ہے آپ مجھے معاف فرمائیں گے۔
اگر درخدمت تقصیر دارم بہ فضل شا ملت امید دارم
اگرچہ آپ کی خدمت میں مجھ سے کمی ہوئی ، آپ کے فضل عام سے امیدوار ہوں میں۔
حضرت طلحہ نے جواب میں لکھا : مجھ سے آپ کو جو توقع ہے قبول عذر (معافی) کے
بارے میں کوئی فکر نہ کریں۔ میری مروت و شرافت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اس
جیسے ہزار گناہ کو معمول معذرت سے معاف کردوں۔ لیکن جناب مالک بن عوف یہ کہ
میں نے آپ کو پہچانا نہیں عزت و اکرام اور شرافت کے شیوہ سے بہت دور ہے۔ ا
س واسطے کہ مہمان نوازی اور اعزاز و اکرام کو بڑ ے لوگوں کے ساتھ مخصوص
کرنا اہلِ مروت اور اہلِ دل کا شیوہ نہیں ہونا چاہئے۔ جناب مالک بن عوف
!میزبان کا کمال تو یہ ہے کہ آفتاب کی طرح ہر ایک پر روشنی ڈالے اور بارش
کی طرح ہر جگہ برسے ۔ اگر مہمان بزرگ و محترم ہو تو اس کی بزرگی کا حق بجا
لائے اور اگر چھوٹا ہو تو اپنے احسان و کرم کااظہار کرے ۔ اس لئے نہ بزرگوں
کی خدمت میں کمی ندامت و شرمندگی کا سبب ہوتی ہے نہ مستحق اور چھوٹے کی
فضیلت دینے میں کوئی بدنامی اورپشیمانی ہوتی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے تو دشمنوں
کے ساتھ مہمان نوازی اور رواداری کا برتاؤ کیا ہے۔ دوست و دشمن ہر ایک کے
ساتھ انسانیت اور سخاوت کا بر تاؤ کرنا چاہئے کیونکہ مروت و شرافت سے کسی
نے نقصان نہیں اٹھایا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے : وہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے
فرمایا: جو اﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ پڑوسی کو
اذیت (تکلیف) نہ دے او ر جو اﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتاہو اسے چاہئے
کہ مہمان کی عزت کرے اور جو اﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے
کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔(بخاری ،حدیث نمبر۶۰۱۸) اسی واسطے حکما نے
کہا ہے مہمان مت دیکھو کہ کون ہے، اپنی ہمت اور جواں مردی اور سخاوت کو
دیکھو کہ اس کا تقاضہ کیا ہے۔ اس لئے کہ مہمان اﷲ تعالیٰ کا بھیجا ہوا تحفہ
و عطیہ ہے ۔ لہٰذا اس کے شایانِ شان مہمان نوازی کا اعزاز و اکرام کرنا
چاہئے۔
اﷲ ہم سب کو ضیافتِ مہمان اور کھانے پینے کے آداب و احکام جاننے کی کوشش
اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!ثم آمین!! |