ایک دانشور نے کیاخوب کہا ہے کہ" رشتے تو
وجود سے وجود کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔رشتے روشنی ہیں، آواز ہیں ،آہنگ ہیں
اور عزت و ناموس کے رکھوالے ہوتے ہیں" وجود اور احساس کے رشتوں کو گہرائی
تک محسوس کیا جاتا ہے لیکن اس عہد میں رشتے بھی ٹوٹ رہے ہیں اُن کی پامالی
بھی ہو رہی ہے عدم برداشت و بے حسی معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہیں ۔ماں
بہن بھائیوں کے رشتوں میں بھی کھوٹ آگیاہے بیٹا ملک میں کما رہا ہے وہ
بیکار ،اور جو بیٹا ملک سے باہر کما رہا ہے وہ چہیتا ،سب کا پیار اس پہ
نچھاورہوتاہے۔میرے مشاہدے میں ہے کہ اکلوتابیٹاشادی ہوتے ہی اپنے والدین
اور تین بہنوں کو کسمپرسی کی حالت میں چھوڑکر چلا گیا۔ ازدواجی رشتوں میں
طلاق کا تناسب آسمان کی حدوں کو چھو رہا ہے ۔صدیق علوی ایڈوکیٹ لاہور سے
ہمیں اپنا تجربہ بانٹتے ہوئے فرماتے ہیں ۔"بطورپیشہ ور فیملی وکیل دو
مقدمات میرے مشاہدے میں ایسے آئے جنھوں نے مجھے سخت ذہنی و جسمانی اذیتوں
سے دوچار کیاہے پہلے مقدمے میں شادی کے صرف دو ماہ بعد علیحدگی ہوگئی اس
کیس میں دونوں جانب کے والدین تعلیم یافتہ بلکہ معاشی طور پر بھی مستحکم
تھے، دلہن ڈاکٹر اور دولہا میاں انجینئر تھے۔دلہن لاکھوں روپے جہیز کے
علاوہ نئی قیمتی گاڑی بھی لائی تھی لیکن دونوں جانب کے والدین کی غیر ضروری
مداخلت نے دونوں کو آزادانہ زندگی گزارنے ،صبروتحمل کا مظاہرہ کرنے،شعوری
طور پر ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع فراہم ہی نہیں ہونے دیا یہاں تک کہ
ذہنی و جسمانی طور پر بھی موقع فراہم ہونے نہیں دیا گیا،جھوٹی انا،جعلی شان
وشوکت،ہٹ دھرمی نے خوبصورت جوڑے کے چمن کو بسنے سے پہلے اُجاڑ دیا ۔
دوسرے خلع کے مقدمے میں خاوندایک کاروباری ادارے میں بطور ڈائریکٹر جبکہ
اہلیہ ایک مشہور یونیورسٹی میں وزٹنگ آفیسر کام کررہی تھیں۔ اُن کو اﷲ پاک
نے ایک تیرہ سالہ بیٹی اورایک سات سالہ بیٹے کی نعمت سے نوازا تھاپوش علاقے
میں رہائش پذیر تھے ہر آسائش سے مالامال یہ خاندان پندرہ برسوں تک نجانے
کیسے ایک دوسرے کے وجود کو برداشت کر رہے تھے کیونکہ بیوی کے والدین ایک
سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو اس امیر کنبے میں اپنی بے جا مداخلت
اپنی جھوٹی شان وشوکت،انا اور ہٹ دھرمی کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔اپنے داماد
کے ساتھ غیر انسانی سلوک جیسے اُن کا مشغلہ ہو، تعلیم یافتہ مگر نا سمجھ
والدین اور اُن کی مغرور بیٹی نے ایک پاکیزہ رشتے اور وجود سے وجود کے
اثاثے معصوم نواسہ اور نواسی کو بھی دوزخ کی بھیانک آگ کی جانب دھکیل دیا
ہے ۔ متوسط اور غریب طبقے میں صورتحال بہت زیادہ بھیانک ہے بغیرجہیز کے
شادیاں نہیں ہو پا رہی ہیں اور ہو بھی جائیں تو زندگی کا روگ بن جاتی ہیں
اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں جو اس ٹوٹے پھوٹے اور آہ وبکا کرتے ہوئے
معاشرے کے گلے میں بد نمائی کا طوق بنتے جا رہے ہیں۔ غیر منطقی اور غیر
حقیقی سوچوں نے رشتوں کی قدروں کو انتہائی دھچکاپہنچایاہے۔ مفاد پرستی اور
لالچ رشتوں کے لئے زہر ہے ۔دولت کے حصول نے محبت جیسی قیمتی شے کو
ناپیدکردیا جب کہ دولت مند میں تکبر اور رعونیت کا ہونا کوئی نئی بات نہیں
ہے۔ جب رشتوں کو ضرب لگتی ہے تو وجود کا وجود بھی بکھر جاتا ہے رشتوں کو
ٹوٹنے مت دو، رشتوں کی مضبوطی تحفظ کا احساس ہے،خوشحالی کی ضمانت ہے ، اس
لئے رشتوں کی قدر کروں۔ دلوں کے دروازے کھلے رکھو اگر دل کا دروازہ کھلا ہے
تو محبت اس پر لازمی دستک دے گی ۔رشتوں کے تقدس کی پامالی کا مطلب، بدنصیبی
کی دیوی دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ |